پشاور، پی ٹی آئی رکن کی اپنی حکومت کے خلاف احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رکن عبدالمنعم نے کہا کہ بجٹ سازی میں وزرا نے اپنی ڈیوٹی ادا نہیں کی، ہر وزیر نے پہلے اپنے حلقے اور پھر دوسرے وزیر کے حلقے کا خیال رکھا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عبدالمنعم نے اپنی حکومت کے وزرا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انصاف نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کی دھمکی دے دی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رکن عبدالمنعم نے کہا کہ بجٹ سازی میں وزرا نے اپنی ڈیوٹی ادا نہیں کی، ہر وزیر نے پہلے اپنے حلقے اور پھر دوسرے وزیر کے حلقے کا خیال رکھا۔ انہوں نے کہا کہ 14 اضلاع ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہیں، وزرا اپنا قبلہ درست کرلیں، ہمیں بھی اپنے حلقے کے عوام کا دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عبدالمنعم نے انصاف نہ ملا تو اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کی دھمکی دی اور کہا کہ میں بھی پچھلی حکومت میں وزیر رہا ہوں مگر کسی حلقے کو محروم نہیں رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے 34 اراکین سے حکومت نہیں بن سکتی، تمام اراکین کا خیال رکھا جائے۔ پی ٹی آئی رکن نے اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں عجیب نظام ہے، ایک وزیر دوسرے وزیر کے علاقے میں کام کر رہا ہے، گلہ اپنے وزرا سے ہے کیونکہ انہوں نے میرے علاقے کو کہیں ٹچ ہی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14ڈپارٹمنٹ نے ہمارے ضلعے کو بالکل نظر انداز کیا ہے، میں بھی اسمبلی کا رکن ہوں، میرے علاقے کو نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ عبدالمنعم خان نے کہا کہ میرے خیال میں بجٹ کی تعریف کرنے والے کچھ نہیں سمجھتے، ابھی بھی وقت ہے کمزور ضلعوں کے بارے میں کچھ سوچیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عبدالمنعم نے کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا کہ
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔