یہ درست ہے کہ ’’اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے‘‘کا شور پوری دنیا میں سنا جارہا تھا، اس لیے ایران کو بھی اس کی خبر ہونی چاہیے تھی۔ اگر خبر تھی تو وہ اپنی مسلّح افواج کے چوٹی کے جرنیلوں کی حفاظت کیوں نہ کرسکا۔ اور دشمن اس کے فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائینسدانوں کو قتل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ یہ سوال بہت اہم ہیں مگر یہ وقت ایران سے ان سوالوں کے جواب مانگنے کا نہیں بلکہ آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کا ہے۔
اس لیے کہ ہماری طرح ایرانی باشندوں کے سینوں میں بھی لاالہ الاللہ محمدالرسول اللہ کا مقدّس کلمہ موجزن رہتا ہے، اس لیے کہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی طرح تہران اور اصفہان کی مسجدوں سے بھی اللہ اکبر کی تکبیر یں بلند ہوتی ہیں۔
جوبھی اللہ تعالیٰ کو کائنات اور انسانوں کا خالق اور حضرت محمد ؐ کو آخری نبی مانتا ہے اور آخرت پر یقین رکھتا ہے، وہ اُمّتِ مسلمہ کا رکن ہے اور مصیبت کی گھڑی میں اس کی مدد کرنا دنیا بھرکے مسلمانوں کا فرض بن جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی اپنی تقریروں میں کسی فرقے کا نہیں صرف اسلام کا نام لیتے ہیں، مخلوق سے نہیں صرف خالق سے مدد مانگتے ہیں اور قرآن سے دوری کو ہی مسلمانوں کے مسائل اور مصائب کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل کا وزیرِاعظم نیتن یاہو غزہ میں جس طرح معصوم بچوں عورتوں اور نہتّے انسانوں کا قتلِ عام کررہا ہے اس سے واضح ہوچکا ہے کہ اس شخص کا انسانیّت سے کوئی واسطہ نہیں۔ خود اسرائیل کے عوام اور یہودیوں کی کئی تنظیمیں بھی اس کی مذمّت کرچکی ہیں۔ اس کے گرینڈ پلان سے سب باخبر ہیں، کیونکہ وہ اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
پورے مڈل ایسٹ پر قبضہ کرنے کے علاوہ ایران کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنا اس کے ایجنڈے کے اہم ترین اہداف ہیں، ایسا کرکے وہ پورے خطّے کا چوہدری بننے کا خواہشمند ہے، اس لیے پاکستان ایران پر اسرائیلی حملے سے لاتعلّق نہیں رہ سکتا۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلی جارحیّت اور اس سے پہلے پاکستان پر ہندوستان کا حملہ ایک گرینڈ پلان کا حصّہ ہوسکتا ہے۔ اس میں بھارت اور اسرائیل کو امریکا کی مکمل اشیرباد حاصل تھی اور ہے اور اس کا مقصد ان دونوں مسلم ممالک کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانا تھا، مگر کائناتوں کے طاقتور ترین شہنشاہ کو اپنے نام لیواؤں کی رسوائی قبول نہ تھی لہٰذا ان کے عزائم ناکام بنادیے گئے۔
اسرائیل کے حملے سے ایران کی انٹیلیجنس کی ناکامی بہت واضح ہوئی ہے۔ موساد نے ایران کے اندر جس حد تک نیٹ ورک قائم کرلیا تھا وہ بے حد تشویشناک ہے، ایران پر لگی پابندیوں کی وجہ سے اسے بہت مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے مگر ایران کو اپنا انٹیلی جنس سسٹم، اپنی ائرفورس، اپنا ائر ڈیفینس سسٹم اور سائبر وارفیئر سسٹم بہت جدید اور مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت تھی جو وہ نہیں کرسکا۔ اسرائیل کو ایران میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنی صحیح معلومات مل رہی تھیں کہ اس نے پہلے حملے میں ہی ایران کی پوری عسکری قیادت اور چوٹی کے سائینسدانوں کو قتل کردیا۔
مگر اتنے بڑے نقصان کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ایران اب اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ اسرائیل کو جواب دے سکے یا اس پر جوابی حملہ کرسکے مگر ایران کی مذہبی، سیاسی اور عسکری قیادت نے غیر معمولی resilience کا مظاہرہ کیاہے۔ بہت کم وقت میں اپنے وسائل مجتمع کیے اور پلٹ کر اسرائیل پر مسلسل حملے کرکے نہ صرف دنیا کو حیران کردیابلکہ اسرائیلی دفاعی نظام کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے myth کو توڑ کر رکھ دیا ہے ۔ پہلی بار ایران کے میزائلوں سے اسرائیل کے اندر عمارتیں تباہ ہوئی ہیں، سائرن بجے ہیں، لوگ پناہ لینے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
ایرانی میزائلوں کو روکنے کے لیے اگرچہ رکاوٹیں بہت ہیں مگر ان تمام رکاوٹوں اور Interceptions سے بچ کر 1500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کچھ میزائل اسرائیل کے اندر اپنے اہداف سے ٹکرانے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے پورے اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے، اسرائیل میں ہونے والے جانی نقصان سے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے ایکس پر جاری کیے گئے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہم ہلاک ہونے والوں کا ملکر سوگ منائیں گے‘‘ 1973کے بعد پہلی بار اسرائیل نے اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کا دکھ اور کرب دیکھا ہے، اس سے شاید اس کی درندگی میں کچھ کمی آئے۔
ایران کے ایٹمی اثاثے اور پلانٹ تباہ کرنے کے علاوہ امریکا اور اسرائیل کا مشترکہ ہدف (جس کا وہ کئی بار اعلان کرچکے ہیں) وہاں کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے اور موجودہ مذہبی اور سیاسی قیادت کو ہٹاکر ان کی جگہ مصر ، اردن یا شام کی طرح کا کوئی سیٹ اپ لانا چاہتا ہے۔ ایران کے سابق شاہ رضاشاہ پہلوی کا بیٹا بھی انٹرویو دینے کے لیے نیتن یاہو کے پاس حاضری لگا چکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے اس ہدف کی حمایت میں کئی قلمی کارندے بھی متحرّک ہو چکے ہیں جن میں پاکستان کے بھی کئی چڑی مارکہ تجزیہ کار شامل ہیں۔
پاکستانی لبرلز دین سے بغض رکھنے کی وجہ سے ایران کی مذہبی قیادت کے خلاف ہیں ورنہ اگر کوئی بے دین حکمران اپنے ملک میں انسانی حقوق پامال کرتا رہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مودی کی مسلم کش پالیسیوں پر کبھی شدّت سے تنقید نہیں کی اور نہ ہی غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔
اس وقت ایران کے لیے رجیم کا تخفّظ اتنا ہی اہم ہے جتنا خود ملک کا دفاع ۔ ایران کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی نے اور ان کے بعد ایران کے صدر نے قوم کو اتنے بڑے صدمے میں ہمّت اور حوصلہ دینے، فوراً اُٹھ کھڑا ہونے اور اسرائیل پر جوابی حملہ کرنے کا جذبہ اور جرأت پیدا کرنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے عوام اپنی موجودہ قیادت کے بارے میں تخفّظات رکھتے تھے مگر دشمن کے خلاف پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے۔ ویسے بھی ایرانی عوام اپنے دشمنوں کے اکسانے پر نہ حکومت تبدیل کریں گے اور نہ ہی کسی امریکی اور اسرائیلی پٹھوکو قبول کریں گے۔
بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی راء کا بھی ایران میں بڑا مضبوط نیٹ ورک ہے، اس نے بھی دوستی کے روپ میں یقیناً دشمنی کا کردار ادا کیا ہے اور اسرائیل کو اہم ترین معلومات فراہم کی ہیں۔ بھارت کے اس کردار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایران کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور اسے ا ب دوست اور دشمن کا واضح فرق معلوم ہوجانا چاہیے ۔ ایران کو اب اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان، ترکی ، ملیشیا، ایران، افغانستان، انڈونیشیا، فلسطین (اور بھی جو ملک ساتھ شامل ہوں ) کو مشترکہ دفاعی پالیسی تشکیل دینی چاہیے اور اس ضمن میں چین اور روس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔
مذکورہ مسلم ممالک کے وفود پوری دنیا میں جائیں اور اسرائیل کو ’’انسانوں کا سب سے بڑا دشمن‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے‘‘ کے طور پر اس کے گھناؤنے کردار کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ دنیا بھر کی حکومتیں اور عوام دونوں اس سے متنفّر ہوں اور اس سے ہر قسم کا ناطہ توڑ لیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے خطرناک عزائم دیکھ کر پاکستان کو ایٹمی قوّت بنانے والے افراد کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، ڈاکٹر ثمر مبارک اور میاں نواز شریف نمایاں ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی بیشمار غیر معروف ہیرو ہیںجنھوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کے ان محسنوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ پاکستان کو ایک جنگِ مسلسل کا سامنا ہے، اس کے لیے آنکھ جھپکنے کی سستی بھی گوارہ نہیں۔ اﷲ کا حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو یعنی اپنا جنگی سازوسامان اور جنگی تیاریاں مکمل رکھو۔ مسلم دنیا کے عظیم جرنیل صلاح الدّین ایّوبی کہا کرتے تھے کہ جنگ آپڑے تو جنگ میں حصّہ لو اور جنگ ختم ہوجائے تو جنگ کی تیّاری میں لگ جاؤ۔ شاعرِ مشرق درست کہہ گئے ہیں،
؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
پاکستان اور ترکی ہی نہیں تمام مسلم ممالک کو کھل کر ایران کی مدد کرنی چاہیے اگر مزید ایک ہفتے تک ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کی عمارتوں سے ٹکراتے رہے اور سپریم لیڈر اور صدر محفوظ رہے تو پھر وہ اسرائیل کی شکست اور ایران کی فتح ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کے ایران کی ایران کے کے خلاف اس لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔