data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اوٹاوا /واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک/جسارت نیوز) کینیڈا میں ہونے والی سمٹ میں جی 7 ممالک نے اسرائیل کی حمایت کردی۔ خبر ایجنسی کے مطابق جی 7 ممالک کے بیان میں اسرائیل کی حمایت اور ایران کو عدم استحکام کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جی 7 کے مشترکہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر کشیدگی میں کمی، ایران کے بحران کے حل اور غزہ میں بھی جنگ بندی پر زور دیاگیا ہے۔جی 7 ممالک کے مشترکہ بیان میں شہریوں کے تحفظ کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔جی 7 ممالک نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہمیشہ سے واضح ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے جی 7 ممالک کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے انکار کردیا ہے جس کے مسودے میں اسرائیل ایران تنازع میں کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔جی سیون اجلاس نے بھارت کو سفارتی سطح پر تنہا ثابت کردیا۔کینیڈا میں سربراہان مملکت کی موجودگی کے باوجود مودی غیر حاضر، عالمی میڈیا نے بھی بھارت کا نام اور پرچم غائب کردیا۔جی سیون اجلاس نے بھارت کو سفارتی سطح پر تنہا ثابت کردیا، کینیڈا میں شریک ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں بھارتی وزیراعظم مودی غیر حاضر رہے، بین الاقوامی میڈیا نے بھی جی سیون اجلاس کی کوریج میں بھارت کا نام اور پرچم منظر سے غائب کردیا۔ رپورٹ کے مطابق جی سیون اجلاس میں بھارتی وزیراعظم کو مدعو کرنا صرف رسمی کارروائی تھی۔ قبل ازیں مودی کی کوششوں کے باوجود ان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات نہ ہوسکی اور بھارتی میڈیا شدید مایوس ہوگیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر جی-7 اجلاس مکمل ہونے سے قبل ہی واشنگٹن واپسی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے نیشنل سیکورٹی کونسل کو سچویشن روم میں الرٹ رہنے کی ہدایت بھی دے دی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تناؤ کے سبب اجلاس کا آخری دن چھوڑ کر وطن واپس روانہ ہوئے۔یورپی اور کینیڈین سفارتکاروں نے تصدیق کی ہے کہ جی-7 اجلاس کا اختتامی اعلامیہ اب بھی مذاکرات کے مرحلے میں ہے، اور اجلاس آج ختم ہوگا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان محض جنگ بندی نہیں بلکہ ’’تنازع کا مکمل خاتمہ‘‘ چاہتے ہیں۔ائر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ایران نے امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ بنایا تو امریکا سخت ردعمل دے گا‘ اگر انہوں نے ہمارے لوگوں کو کچھ کہا، تو ہم انتہائی سخت حملہ کریں گے‘ پھر دستانے اُتر جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہمارے فوجیوں کو چھونا ان کے لیے خطرناک ہوگا‘ہم صرف جنگ بندی نہیں، ایک حقیقی خاتمہ چاہتے ہیں‘ اگر ایران مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے تو وہ بھی قابلِ قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں‘ وہ ممکنہ طور پر نائب صدر جے ڈی وینس اور مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو ایرانی حکام سے مذاکرات کے لیے بھیج سکتے ہیں‘ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جی سیون اجلاس اسرائیل کی امریکی صدر جی 7 ممالک ممالک کے نے کہا

پڑھیں:

سیکیورٹی خدشات، اسرائیل کا یو اے ای سے سفارتی عملہ واپس بلانے کا فیصلہ

حالیہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسرائیلی حکومت نے متحدہ عرب امارات سے اپنے سفارتی مشن کے بیشتر عملے کو فوری طور پر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس اقدام کے ساتھ ہی اسرائیل کی نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) نے خلیجی ملک میں مقیم اسرائیلی شہریوں کے لیے سفری انتباہ کو مزید سخت کر دیا ہے۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، این ایس سی نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کیا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ گروپوں بشمول حماس، حزب اللہ اور دیگر عالمی جہادی تنظیموں نے اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ خصوصاً یہودی تعطیلات اور ہفتہ وار عبادت (شبات) کے دوران یو اے ای میں مقیم اسرائیلی اور یہودی شہریوں کو ممکنہ حملوں کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ واپس بلائے گئے عملے میں اسرائیل کے یو اے ای میں تعینات سفیر یوسی شیلی بھی شامل ہیں۔ سرکاری نشریاتی ادارے ’کان‘ کے مطابق، سفیر کے خلاف بدانتظامی کے الزامات سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی عہدے سے برطرفی کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل کو ایران کے ممکنہ انتقامی حملوں کے علاوہ غزہ میں جاری انسانی بحران پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ گزشتہ نومبر میں یو اے ای میں ایک اسرائیلی-مولدووی ربی کے قتل کے واقعے کے بعد سے صورتحال کشیدہ رہی ہے، جس کے بعد مارچ میں تین افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 2020 میں ابراہام معاہدے کے تحت یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان رسمی تعلقات قائم ہوئے تھے، جس کے بعد سے اماراتی سرزمین پر اسرائیلی اور یہودی برادری کی موجودگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، اب اس خطے میں اسرائیلیوں کے لیے سیکیورٹی صورتحال کو لے کر پیدا ہونے والے نئے خدشات نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اور پاکستان کے تعلقات میں نیا باب، صدر پزشکیان پاکستان کے لیے روانہ
  • سیکیورٹی خدشات، اسرائیل کا یو اے ای سے سفارتی عملہ واپس بلانے کا فیصلہ
  • سکیورٹی خدشات، اسرائیل کا یو اے ای سے سفارتی عملہ واپس بلانے کا فیصلہ
  • ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
  • واشنگٹن،وزیرمملکت بلال ثاقب کی ٹرمپ کی کونسل ایڈوائزرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے ملاقات
  • ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ
  • سیاحت اورکلچرکا فروغ، پاکستانی بائیکرزکا گروپ لاہور سے  وسطی ایشیائی ممالک کے سفر پر روانہ
  • ’ہاں، بھارتی معیشت مردہ ہے‘، راہول گاندھی نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کی حمایت کردی
  • افغان باشندوں کی ملک بدری پر طالبان کی پاکستان اور ایران پر تنقید
  • مشرق وسطیٰ: اقوام متحدہ کی کانفرنس دو ریاستی حل کی حامی