تقریباً آٹھ دہائیوں سے دنیا کے ستاون مسلمان ممالک ایک ایسے سراب میں گرفتار رہے جسے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا نام دیا جاتا تھا۔ یہودی ریاست کی عسکری برتری، ٹیکنالوجی، امریکہ و یورپ کی پشت پناہی اور خفیہ اداروں کے جال نے ایسا طلسم باندھا کہ اسلامی دنیا اس کے نام سے لرزاں رہی۔ مگر پھر تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسا لمحہ آیا جب دنیا نے دیکھا کہ وہ سرزمین، جو معاشی، فوجی اور سفارتی محاذ پر تنہائی اور دبا کا شکار تھی اس نے نہ صرف اسرائیل کے خوف کا بت پاش پاش کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ اگر غیرت، اصول، اور حمیت زندہ ہو تو بڑے سے بڑا شیطان بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔
ایران کا اسرائیل پر یہ حملہ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور نفسیاتی بغاوت تھی۔ یہ ایک اعلان تھا کہ اب نہ کوئی خوف باقی ہے اور نہ ہی اس کے بت کی پرستش کی جائے گی۔ ایران نے خیبر شکن میزائلوں سے صرف اسرائیل کی حدود کو نہیں بلکہ ایک غلط فہمی کو نشانہ بنایا ۔ وہ فریب جو ہمیں یہ یقین دلاتا رہا کہ اسرائیل ناقابلِ شکست ہے اور یہودی طاقت ایک مافوق الفطرت سچائی ہے۔
ایران کے اس حملے نے کئی محاذوں پر کامیابی سمیٹی۔ سب سے پہلے یہ ایک نفسیاتی فتح تھی۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی شہری خوف سے چیختے پناہ گاہوں میں دبکے اور جان بچانے کو بے قرار ہیں۔ وہی اسرائیلی جو غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں پر بم برساتے تھے آج خود پناہ کے طلبگار ہیں۔ ایران نے ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ ظلم ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا اور ظالم کو جواب ضرور ملتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایران کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب اسرائیل پہلے سے ہی غزہ میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کی وجہ سے عالمی تنقید کی زد میں تھا۔ ایران نے اس موقع پر جو اقدام اٹھایا وہ کئی حوالوں سے تاریخی ہے۔ ایران کی فوجی و سیاسی قیادت نے اسرائیل کے ابتدائی حملے میں اپنے جنرلز اور سائنسدانوں کی شہادت کے باوجود حوصلہ، صبر اور تدبر کا وہ مظاہرہ کیا جو کسی بھی قوم کے لیے مثال ہے۔ ایسی قیادتیں ہی اپنے وطن کی عزت اور غیرت کی حفاظت کر پاتی ہیں۔
گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں سے پورا اسرائیل ایک بے چینی اور خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ سائرن کی آوازیں، گرتی ہوئی دیواریں، بھاگتے ہوئے عوام ، یہ سب کچھ ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ وہ وقت جب خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والا دشمن اپنی ہی زمین پر غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ ایران نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کا جو عملی مظاہرہ کیا اس نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے دلوں میں امید اور جرات کی نئی شمع روشن کی ہے۔
ایران کا یہ حملہ ان تمام اسلامی ممالک کے لیے آئینہ ہے جو دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بھیک مانگتے آ رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ ایک تنہا، دبائو میں گھرا، معاشی بحران کا شکار ملک اگر اسرائیل کو جھنجھوڑ سکتا ہے تو باقی مسلمان ممالک مل کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا کیوں نہیں سکتے؟ کیا وہ تیل کی دولت، جدید اسلحہ اور عسکری اتحاد صرف اندرونی اقتدار کی رسہ کشی کے لیے ہیں؟ کیا امتِ مسلمہ کو اب بھی کسی اور ہیرو کا انتظار ہے یا ایران کے اس عمل کو مشعلِ راہ بنایا جائے گا؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایران کو نہ صرف بیرونی دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خود اسلامی دنیا میں بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران کے اندرونی معاملات، سیاسی تنا، اور عوامی احتجاج کی خبریں مغربی میڈیا میں اچھالی جاتی ہیں۔ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر مسلسل قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود ایران نے اسرائیل کے مقابل نہ صرف دلیری دکھائی بلکہ ایک بڑی حقیقت بھی واضح کی۔ اسرائیل کے پاس گنتی کے چند شہر ہیں جبکہ ایران اس سے کئی گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے اور یہی اسے تزویراتی برتری عطا کرتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ایران کے اپنے عوام، سیاسی دھڑوں اور مغربی لابیوں کی موجودگی نے ہمیشہ اس کی پالیسیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ خود ایرانی عوام کی بڑی تعداد ایران کی خارجہ پالیسیوں سے متفق نہیں ہوتی اور کئی مرتبہ اندرونی خلفشار کے باعث ریاست کو دبا کا سامنا رہا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایران میں وہ قوت، وہ غیرت اور وہ مزاحمت اب بھی زندہ ہے جو صرف زندہ قوموں کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔
آج کے دن کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اگر حوصلہ ہو تو امریکہ، اسرائیل، فرانس، برطانیہ اور بھارت جیسے سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں، دلیر قیادت اور قوم کا عزم درکار ہوتا ہے۔ ایران نے یہ عزم دکھایا ہے اور اسی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔
جنہوں نے مسجد اقصی کی بے حرمتی کی، جنہوں نے غزہ کے معصوم بچوں پر بم برسائے، جو فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرتے ہیں، ان کی چیخیں آج آسمان تک جا رہی ہیں۔ یہ بدلہ نہیں، انصاف کی شروعات ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔ اور اس باب کا عنوان ہے !خوف کا بت ٹوٹ چکا !
آج ہم بطور امت یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ کیا ہم واقعی اتنے کمزور ہیں کہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے آواز تک بلند نہ کر سکیں؟ کیا امتِ مسلمہ کی دو ارب سے زائد آبادی کی نمائندہ تنظیم او آئی سی سینکڑوں ارب ڈالرز کے وسائل، ہزاروں ٹینک و جہاز، صرف رسمی اجلاسوں تک محدود رہیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ عالمی سامراج کے خلاف صف آرا ہوں۔ وہ سامراج جو ہمارے وسائل کو لوٹتا ہے، ہمارے نظریات کو مسخ کرتا ہے، اور ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے۔ ایران نے جو جرات دکھائی، وہ صرف ایک ملک کی جرات نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کا مظہر بن چکی ہے۔
یہاں بطور ایک طالبعلم، بطور ایک مسلمان اور بطور ایک صحافی میں یہ بات پورے یقین سے لکھ رہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اسرائیل کو اس طرح خوف کے سائے میں لرزتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پہلی بار دیکھا کہ وہ ریاست جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو پے در پے زخم دیتی رہی آج خود ان زخموں کا ذائقہ چکھ رہی ہے۔ مجھے یہ منظر صرف جنگی کامیابی نہیں لگتا بلکہ یہ وقت کی سب سے بڑی تمثیل ہے کہ ظلم کا انجام ہمیشہ ذلت ہے، اور عدل اگر تاخیر سے آئے تو بھی وہ آتا ضرور ہے۔
ایران کے اس اقدام سے جہاں ایک نئی جرات نے جنم لیا ہے، وہیں مسلمان دنیا کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اب بھی امریکہ، نیٹو، یا اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کے رحم و کرم پر بیٹھے رہیں گے؟ کیا ہمارے ضمیر، ہماری خارجہ پالیسیاں اور ہماری عسکری قوتیں صرف رسمی مذمتوں اور بیانات کے لیے رہ گئی ہیں؟ یا ہم واقعی امتِ واحدہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ایران نے ہمیں ایک شعلہ دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے چراغوں میں بدلتے ہیں یا صرف تالیاں بجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ ہماری تاریخ، ہماری نسلیں اور ہمارا خدا دیکھ رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے کہ ایران اسرائیل کے ایران نے ایران کے کہ ایک ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بڑی طاقتوں میں تقسیم اسرائیل ایران جنگ بندی میں رکاوٹ
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) ایران ،اسرائیل تنازعے پر بڑی طاقتوں میں تقسیم جنگ بندی میں بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں مزیدبڑھنے کاخدشہ موجود ہے، امریکی صدرٹرمپ کی طرف سے ایران کے معاملے پر بارہاموقف تبدیل کیاجارہاہے ، چند روز قبل صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیاپر ایک حوصلہ افزاء بیان جاری
کیا،جس میں انہو ںنے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے کرداراداکرنے کاعندیہ دیتے ہوئے کہاہیکہ وہ اسرائیل اور ایر ان کے درمیان بھی ویسے ہی ڈیل کراسکتے ہیں ،جیسے انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرائی ،ان کے اس بیان سے اسرائیل اور ایران کے درمیان جلدجنگ بندی کی امیدپیداہوگئی تھی ، تاہم اگلے ہی روز ایک انٹرویومیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرح سے یوٹرن لیتے ہوئے یہ عندیہ دے دیا کہ امریکا ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہو سکتا ہیاور اب وہ ایران کو واضح طورپر دھمکیاں دے رہے ہیں اورجنگ بندی کے لئے شرائط پیش کررہے ہیں،اسی طرح جرمن چانسلر کی طرف سے بھی ٹرمپ کے موقف کی تائیدکرتیہوئے کہاجارہاہے کہ ایران کاایٹمی پروگرام روکناضرور ی ہے، ادھرروس اور چین کی طرف سے اسرائیل ،ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے اپناکرداراداکرنی کی پیشکش کی جارہی ہے لیکن امریکہ سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کی وجہ سے اس پرٹھوس پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی،ٹرمپ ایک طرف اسرائیل ایران جنگ کو بڑھاوادینے کی باتیں کررہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان اوربھارت درمیان جنگ بندی کرانے کاکریڈٹ لیتے ہوئے امن کے نوبل امن ایوارڈکے بھی خواہشمندہیں ،جو ان کے دہرے معیارکو ظاہرکررہاہے،ٹرمپ اگرواقعی امن کے علمبردارہیں تو انہیں اس کا عملی ثبوت دیناچاہئیاوراسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے چین اور روس کے ساتھ مل کر کوششیں کریں، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کیباعث دنیابڑی طاقتوں کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ اگراس جنگ برقت نہ روکاگیاتو اس محاذ آرائی سے صرف اسرائیل اور ایران ہی متاثرنہیں ہوں گے بلکہ پورا خطہ لپیٹ میں آسکتاہے،اس لئے جنگ بندی اس وقت محض ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے ،ایسی صورت حال میں صدرٹرمپ کی طرف سے اسرائیل ،ایران جنگ کاحصہ بننے کے بیانات دنیاکی پریشانی میں اضافے کاباعث ہیں، خدانخواستہ اگر امریکہ ایساکوئی اقدام اٹھاتاہے تو پھریہ اس کی سٹرٹیجک غلطی ہوگی اور اس سے تیسری عالمی جنگ چھڑسکتی ہے کیونکہ امریکہ کے جنگ میں کودنے کی صورت میں خطے کی وہ طاقتیں بھی اس لڑائی میں شامل ہوجائیں گی جو اس وقت جنگ بندی کی خواہاں ہیں ،لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکہ خصوصاًصدرٹرمپ کو غیرذمہ دارانہ بیانات دینے کی بجائے اسرائیل اورایران جنگ کے حوالے سے واضح اور دوٹوک مؤقف اختیارکرتے ہوئے یہ جنگ رکوانے کے لئے اپنامثبت کرداراداکرناچاہئے۔