Daily Ausaf:
2025-08-02@19:34:51 GMT

خوف کا بت ٹوٹ چکا

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

تقریباً آٹھ دہائیوں سے دنیا کے ستاون مسلمان ممالک ایک ایسے سراب میں گرفتار رہے جسے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا نام دیا جاتا تھا۔ یہودی ریاست کی عسکری برتری، ٹیکنالوجی، امریکہ و یورپ کی پشت پناہی اور خفیہ اداروں کے جال نے ایسا طلسم باندھا کہ اسلامی دنیا اس کے نام سے لرزاں رہی۔ مگر پھر تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسا لمحہ آیا جب دنیا نے دیکھا کہ وہ سرزمین، جو معاشی، فوجی اور سفارتی محاذ پر تنہائی اور دبا کا شکار تھی اس نے نہ صرف اسرائیل کے خوف کا بت پاش پاش کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ اگر غیرت، اصول، اور حمیت زندہ ہو تو بڑے سے بڑا شیطان بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔
ایران کا اسرائیل پر یہ حملہ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور نفسیاتی بغاوت تھی۔ یہ ایک اعلان تھا کہ اب نہ کوئی خوف باقی ہے اور نہ ہی اس کے بت کی پرستش کی جائے گی۔ ایران نے خیبر شکن میزائلوں سے صرف اسرائیل کی حدود کو نہیں بلکہ ایک غلط فہمی کو نشانہ بنایا ۔ وہ فریب جو ہمیں یہ یقین دلاتا رہا کہ اسرائیل ناقابلِ شکست ہے اور یہودی طاقت ایک مافوق الفطرت سچائی ہے۔
ایران کے اس حملے نے کئی محاذوں پر کامیابی سمیٹی۔ سب سے پہلے یہ ایک نفسیاتی فتح تھی۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی شہری خوف سے چیختے پناہ گاہوں میں دبکے اور جان بچانے کو بے قرار ہیں۔ وہی اسرائیلی جو غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں پر بم برساتے تھے آج خود پناہ کے طلبگار ہیں۔ ایران نے ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ ظلم ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا اور ظالم کو جواب ضرور ملتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایران کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب اسرائیل پہلے سے ہی غزہ میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کی وجہ سے عالمی تنقید کی زد میں تھا۔ ایران نے اس موقع پر جو اقدام اٹھایا وہ کئی حوالوں سے تاریخی ہے۔ ایران کی فوجی و سیاسی قیادت نے اسرائیل کے ابتدائی حملے میں اپنے جنرلز اور سائنسدانوں کی شہادت کے باوجود حوصلہ، صبر اور تدبر کا وہ مظاہرہ کیا جو کسی بھی قوم کے لیے مثال ہے۔ ایسی قیادتیں ہی اپنے وطن کی عزت اور غیرت کی حفاظت کر پاتی ہیں۔
گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں سے پورا اسرائیل ایک بے چینی اور خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ سائرن کی آوازیں، گرتی ہوئی دیواریں، بھاگتے ہوئے عوام ، یہ سب کچھ ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ وہ وقت جب خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والا دشمن اپنی ہی زمین پر غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ ایران نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کا جو عملی مظاہرہ کیا اس نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے دلوں میں امید اور جرات کی نئی شمع روشن کی ہے۔
ایران کا یہ حملہ ان تمام اسلامی ممالک کے لیے آئینہ ہے جو دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بھیک مانگتے آ رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ ایک تنہا، دبائو میں گھرا، معاشی بحران کا شکار ملک اگر اسرائیل کو جھنجھوڑ سکتا ہے تو باقی مسلمان ممالک مل کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا کیوں نہیں سکتے؟ کیا وہ تیل کی دولت، جدید اسلحہ اور عسکری اتحاد صرف اندرونی اقتدار کی رسہ کشی کے لیے ہیں؟ کیا امتِ مسلمہ کو اب بھی کسی اور ہیرو کا انتظار ہے یا ایران کے اس عمل کو مشعلِ راہ بنایا جائے گا؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایران کو نہ صرف بیرونی دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خود اسلامی دنیا میں بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران کے اندرونی معاملات، سیاسی تنا، اور عوامی احتجاج کی خبریں مغربی میڈیا میں اچھالی جاتی ہیں۔ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر مسلسل قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود ایران نے اسرائیل کے مقابل نہ صرف دلیری دکھائی بلکہ ایک بڑی حقیقت بھی واضح کی۔ اسرائیل کے پاس گنتی کے چند شہر ہیں جبکہ ایران اس سے کئی گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے اور یہی اسے تزویراتی برتری عطا کرتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ایران کے اپنے عوام، سیاسی دھڑوں اور مغربی لابیوں کی موجودگی نے ہمیشہ اس کی پالیسیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ خود ایرانی عوام کی بڑی تعداد ایران کی خارجہ پالیسیوں سے متفق نہیں ہوتی اور کئی مرتبہ اندرونی خلفشار کے باعث ریاست کو دبا کا سامنا رہا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایران میں وہ قوت، وہ غیرت اور وہ مزاحمت اب بھی زندہ ہے جو صرف زندہ قوموں کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔
آج کے دن کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اگر حوصلہ ہو تو امریکہ، اسرائیل، فرانس، برطانیہ اور بھارت جیسے سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں، دلیر قیادت اور قوم کا عزم درکار ہوتا ہے۔ ایران نے یہ عزم دکھایا ہے اور اسی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔
جنہوں نے مسجد اقصی کی بے حرمتی کی، جنہوں نے غزہ کے معصوم بچوں پر بم برسائے، جو فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرتے ہیں، ان کی چیخیں آج آسمان تک جا رہی ہیں۔ یہ بدلہ نہیں، انصاف کی شروعات ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔ اور اس باب کا عنوان ہے !خوف کا بت ٹوٹ چکا !
آج ہم بطور امت یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ کیا ہم واقعی اتنے کمزور ہیں کہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے آواز تک بلند نہ کر سکیں؟ کیا امتِ مسلمہ کی دو ارب سے زائد آبادی کی نمائندہ تنظیم او آئی سی سینکڑوں ارب ڈالرز کے وسائل، ہزاروں ٹینک و جہاز، صرف رسمی اجلاسوں تک محدود رہیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ عالمی سامراج کے خلاف صف آرا ہوں۔ وہ سامراج جو ہمارے وسائل کو لوٹتا ہے، ہمارے نظریات کو مسخ کرتا ہے، اور ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے۔ ایران نے جو جرات دکھائی، وہ صرف ایک ملک کی جرات نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کا مظہر بن چکی ہے۔
یہاں بطور ایک طالبعلم، بطور ایک مسلمان اور بطور ایک صحافی میں یہ بات پورے یقین سے لکھ رہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اسرائیل کو اس طرح خوف کے سائے میں لرزتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پہلی بار دیکھا کہ وہ ریاست جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو پے در پے زخم دیتی رہی آج خود ان زخموں کا ذائقہ چکھ رہی ہے۔ مجھے یہ منظر صرف جنگی کامیابی نہیں لگتا بلکہ یہ وقت کی سب سے بڑی تمثیل ہے کہ ظلم کا انجام ہمیشہ ذلت ہے، اور عدل اگر تاخیر سے آئے تو بھی وہ آتا ضرور ہے۔
ایران کے اس اقدام سے جہاں ایک نئی جرات نے جنم لیا ہے، وہیں مسلمان دنیا کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اب بھی امریکہ، نیٹو، یا اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کے رحم و کرم پر بیٹھے رہیں گے؟ کیا ہمارے ضمیر، ہماری خارجہ پالیسیاں اور ہماری عسکری قوتیں صرف رسمی مذمتوں اور بیانات کے لیے رہ گئی ہیں؟ یا ہم واقعی امتِ واحدہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ایران نے ہمیں ایک شعلہ دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے چراغوں میں بدلتے ہیں یا صرف تالیاں بجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ ہماری تاریخ، ہماری نسلیں اور ہمارا خدا دیکھ رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہے کہ ایران اسرائیل کے ایران نے ایران کے کہ ایک ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر 2025 میں ہونے والے 80ویں اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق، وزیر اعظم مارک کارنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اسرائیل-فلسطین تنازع کے 2 ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ حل ایک طویل عرصے سے کینیڈا کی پالیسی کا حصہ رہا ہے، اور اب ’ہماری آنکھوں کے سامنے یہ امید دم توڑتی نظر آ رہی ہے‘۔

مارک کارنی نے کہا کہ غزہ میں شہریوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری فوری اور مؤثر اقدامات کرے، کیونکہ اب تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیے فلسطینی عوام کی آزاد ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین کا واضح مؤقف

جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے قبل کینیڈا اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا کہ نظریاتی طور پر ایسا ایک منظرنامہ ممکن ہے، لیکن ’شاید ایسا جو میں تصور بھی نہیں کر سکتا‘۔

ٹرمپ کی دھمکی: تجارتی معاہدہ خطرے میں

دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امریکا اور کینیڈا کے درمیان جاری تجارتی معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں ٹرمپ نے لکھا:

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کردیا

’واہ! کینیڈا نے ابھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کر رہا ہے۔ اس سے ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اوہ، کینیڈا!!!‘

اسرائیل کا سخت ردعمل

اسرائیل نے کینیڈا کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اوٹاوا میں اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ:

قابلِ احتساب حکومت، مؤثر اداروں اور ہمدرد قیادت کی غیر موجودگی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا، درحقیقت 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی بربریت کو انعام دینے کے مترادف ہے۔

فلسطینی اور فرانسیسی ردعمل

دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا یہ قدم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں ایک مضبوط پیغام ہے۔

یہ بھی پڑھیے فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق

فرانسیسی حکومت نے بھی کینیڈا کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ اور انسانی بحران کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اور کئی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فلسطینی ریاست کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل غزہ میں قتل عام کی منظم پالیسی پر عمل پیرا ہے، کیرولائن ولمین
  • بلوچستان پر اسرائیلی توجہ پر توجہ کی ضرورت
  • فلسطینی ریاست کے لیے پیش رفت، خوش آیند
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • اسرائیل کی مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی قبضے کی تیاری  
  • امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • جرمن وزیر خارجہ کا دورہ اسرائیل، مقصد جنگ بندی پر زور
  • کون بچائے گا اسرائیل کو؟