تہران میں کشمیری طلبہ کو بھارت نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران میں اسرائیلی فوج کے مسلسل حملے میں بھارتی حکومت نے کشمیری طلبہ کو ایران میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا
تہران اور اہواز کے ہاسٹلز میں سائرنوں کی گونج میں کشمیری طلبہ بے یارو مددگار ہیں، کے ایم ایس کے مطابق جنگ کے دوران ایرانی شہروں میں کشمیری والدین اپنے بچوں کے لیے ٹیلی فون کالز کررہے ہیں لیکن بھارتی سفارتخانہ سمیت کوئی نہیں سن رہا۔
ایرانی شہروں تہران اور اہواز میں جاری اسرائیلی حملوں کی وجہ سے پھیلنے والے سائرنوں کی گھن گرج میں کشمیری طلبہ اب بے آسرا ہو گئے ہیں۔
ہاسٹلز میں موجود یہ طلبہ شدید خوف اور تنہائی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکومت نے شہری تحفظ کے اس مشکل موقع پر ان کا کوئی خیال نہیں رکھا۔
ملک و علاقہ سے دور اپنے اہل خانہ سے رابطے کے باوجود بھی ان کی فریادیں بے آواز ہیں۔
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ابھی 1500 طلبہ ایران میں ہیں، والدین ٹیلی فون کالز کر کے اپنے بچوں کی خیریت جاننا چاہتے ہیں، مگر بھارتی سفارتخانوں کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔
پاکستان اور عرب ممالک نے اپنے طلبہ کو وطن واپس بلا لیا، تاہم بھارت نے کشمیری طلبہ کو تنہا چھوڑ دیا۔
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو کئی خطوط لکھے، مگر ان کی طرف سے اب تک کوئی عملی یا اخلاقی جواب موصول نہیں ہوا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طلبہ کو
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔