چینی خلائی ٹیکنالوجی اسپیس ایکس سے آگے نکل گئی: سیٹلائٹ سے تیز ترین انٹرنیٹ فراہم
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی دوڑ میں چین نے ایک نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔
حالیہ تجربات کے مطابق چین نے ایک جدید ترین کمیونیکیشن سیٹلائٹ کے ذریعے زمین پر ایک گیگا بائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو خلائی رابطے اور عالمی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے میدان میں ایک گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کی اسٹار لنک سروس اب بھی 250 ایم بی فی سیکنڈ تک محدود ہے۔
چین کی جانب سے خلا میں بھیجا گیا یہ نیکسٹ جنریشن سیٹلائٹ عام سیٹلائٹ سسٹمز سے کہیں زیادہ جدید ہے کیونکہ یہ لیزر کمیونیکیشن اور ہائی بینڈ وِڈتھ میلی میٹر ویوز جیسی پیچیدہ لیکن طاقتور ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف زمین پر تیز ترین انٹرنیٹ ڈیٹا فراہم کرتی ہے بلکہ مستقبل میں 5G سے آگے بڑھتے ہوئے 6G نیٹ ورک کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔
اس سیٹلائٹ کے تجرباتی نتائج نے دنیا بھر کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق چین نے اس سیٹلائٹ کے ذریعے زمین پر 1 گیگا بائٹ فی سیکنڈ کی انٹرنیٹ اسپیڈ فراہم کی، جو کہ دنیا کے بیشتر روایتی فائبر نیٹ ورکس سے بھی تیز ہے۔ یہ رفتار اسپیس ایکس کی اسٹار لنک سروس سے 4 گنا زیادہ ہے جو اس وقت 50 سے 250 ایم بی فی سیکنڈ کی اسپیڈ پر محدود ہے۔
یاد رہے کہ اسٹار لنک نے 6,000 سے زائد سیٹلائٹس لانچ کر کے دنیا کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی ہے، تاہم اس سسٹم کی رفتار اب بھی ترقی یافتہ شہروں کے فائبر نیٹ ورک سے پیچھے ہے۔ اسٹار لنک کا اگلا منصوبہ “Gigabit Internet” ہے، لیکن وہ ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس چین نے عملی طور پر وہ رفتار دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے جو اسٹار لنک اب تک صرف منصوبے کی حد تک رکھتا ہے۔
چین کی اس کامیابی کے پیچھے ایک وسیع اور طویل مدتی حکمت عملی کارفرما ہے، جس کا مقصد نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ چین کی حکومت اور اس کی خلائی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس نئی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے افریقا، ایشیا اور دیگر ترقی پذیر خطوں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کریں گے، جہاں اب تک انٹرنیٹ کا معیار کمزور یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ قدم صرف ٹیکنالوجی کی دنیا میں برتری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک بڑا سفارتی اور اقتصادی ہتھیار بھی ہے کیونکہ جس ملک یا خطے کو انٹرنیٹ سروس دی جائے گی، وہ چین کے عالمی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا حصہ بن جائے گا۔ اس سے چین کو عالمی سطح پر ڈیٹا، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنالوجی پر کنٹرول کا ایک نیا راستہ حاصل ہوگا۔
دوسری جانب مغربی دنیا میں اس پیش رفت کو خاصی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائبر پالیسی سے وابستہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر چین نے اس رفتار اور صلاحیت کے ساتھ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا دائرہ وسیع کر دیا تو آنے والے چند برسوں میں دنیا کا بڑا حصہ امریکی یا یورپی نہیں بلکہ چینی ڈیجیٹل نیٹ ورک سے منسلک ہو جائے گا۔
یہ سیٹلائٹ محض انٹرنیٹ کا ذریعہ نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں طاقت کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ جوں جوں دنیا ورچوئل معیشت، مصنوعی ذہانت، بلاک چین اور ریموٹ کمیونیکیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، تیز اور قابل اعتماد انٹرنیٹ سروس کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا بنیادی ستون بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں چین کا یہ اقدام اسے دنیا کی پہلی ڈیجیٹل سپر پاور کے طور پر سامنے لا سکتا ہے۔
اگرچہ امریکا اور یورپی یونین کے پاس بھی جی بی فی سیکنڈ کی رفتار فراہم کرنے والے منصوبے موجود ہیں، لیکن چین نے اس کو عملی جامہ پہنا کر سبقت لے لی ہے۔ اس سیٹلائٹ کا کامیاب تجربہ چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ڈیجیٹل روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے ذریعے ترقی پذیر دنیا کو اپنے انفرا اسٹرکچر میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فی سیکنڈ کی اسٹار لنک نیٹ ورک چین نے چین کی
پڑھیں:
یورپ میں مائع آئٹمز کے ساتھ جہاز میں سفر کرنا جلد آسان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) ہوائی سفر کے دوران ہینڈ لگیج یا دستی سامان کے لیے مائع آئٹمز کی مقررہ حدیں یورپی یونین میں جلد ہی تاریخ بن سکتی ہیں، کیونکہ مائع دھماکہ خیز مواد کا پتا لگانے کے قابل نئے اسکینرز کو سرکاری منظوری مل گئی ہے۔
فی الحال، فضائی مسافر 100 ملی لیٹر سے کم کے کنٹینرز میں مائعات لے جانے تک محدود ہیں لیکن یہ ٹیکنالوجی ہوائی سفر کے سب سے زیادہ ناپسندیدہ قواعد میں سے ایک کے اختتام کی شروعات کر سکتی ہے۔
لیکوڈ قواعد میں کیوں نرمی کی جا رہی ہے؟اسکینرز میڈیکل گریڈ سی ٹی امیجنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ جو ہائی ریزولوشن 3D ویژول فراہم کرتے ہیں جس سے سکیورٹی عملہ اسکریننگ کے عمل کو سست کیے بغیر سامان کی پرت کے مواد کی جانچ کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)
یہ ٹیکنالوجی ٹھوس اور مائع دونوں دھماکہ خیز مواد کا پتا لگاسکتی ہے۔
یورپی یونین کمیشن کے ترجمان نے ڈی پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ نئی ٹیکنالوجی اب ہوائی اڈوں کو مائع آٹمز سے متعقل پابندی کے قواعد ختم کرنے کے قابل بناتی ہے۔
لیکن اس کا انحصار ہر ایئرپورٹ پر ہے کہ اسے کب اور کہاں نافذ کرنا ہے۔قوانین میں فوری طور پر نرمی نہیں کی جائے گی، کیونکہ زیادہ تر ہوائی اڈے اس ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہیں۔ تاہم جرمن ہوائی اڈوں کی ایسوسی ایشن (ADV) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جرمنی کے بعض ہوائی اڈوں پر مسافر جلد ہی اپنے دستی سامان میں دو لیٹر مائعات لے جانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ADV کے چیف ایگزیکٹو رالف بیسل نے ٹیکنالوجی کو "محفوظ اور قابل اعتماد" قرار دیتے ہوئے کہا، "یہ ہوائی اڈوں پر زیادہ سہولت اور تیز تر طریقہ کار کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔"
دریں اثنا، زیادہ تر جرمن مسافروں کو انتظار کرنا پڑے گا۔ پرانے اور نئے آلات کا امتزاج، سافٹ ویئر کی متضاد تیاری اور مسافروں کو پیشگی مطلع کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ مسافروں کو پچھلے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔
یعنی اشیاء کو اب بھی ایک لیٹر تک کے پلاسٹک کے تھیلوں میں رکھا جانا چاہیے۔موجودہ ایک سو ملی لیٹر لیکوڈ آئٹم کی پابندی اکثر مسافروں کو الجھن میں ڈال دیتی ہے، خاص طور پر اگر کوئی مسافر پہلی بار سفر کر رہا ہو اور ان قواعد سے واقف نہ ہو۔
کیا ہوائی اڈوں پر پہلے ہی اسکینر موجود ہیں؟فرینکفرٹ میں جرمنی کے سب سے بڑے ہوائی اڈے نے اپنی تقریباً 190 اسکریننگ لین میں سے 40 پر نئے اسکینرز نصب کیے ہیں، جن میں 40 مزید آلات کا آرڈردیا جا چکا ہے۔
لیکن فی الحال، مسافروں کے لیے پالیسی میں کسی تبدیلی کا منصوبہ نہیں ہے۔جرمنی کے دوسرے سب سے بڑے مرکز میونخ میں اسکینر پہلے ہی بڑی تعداد میں دستیاب ہیں لیکن حکومتی ترجمان کے مطابق ضروری سافٹ ویئر اپ گریڈ کو ملتوی کر دیا جائے گا تاکہ گرمیوں کے سفر کے موسم میں خلل نہ پڑے۔ لہٰذا، مائع کی پابندیاں برقرار ہیں۔
EU کمیشن کا کہنا ہے کہ CT پر مبنی تقریباً 700 اسکینر پہلے سے ہی استعمال میں ہیں یا یورپی یونین کے اکیس ممالک کے ہوائی اڈوں پر نصب کیے جا رہے ہیں۔
'لیکوڈ رول' 2006 میں اس وقت متعارف کرایا گیا، جب ایک ہوائی جہاز میں لیکوڈ دھماکہ خیز مواد کے زریعے دہشت گردی کی منصوبہ بندی ناکام بنا دی گئی۔سی ٹی اسکینرز برسوں سے موجود ہیں اور یہ بڑے مائع کنٹینرز کلیرنس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ تاہم گزشتہ سال ان پر انحصار کے بارے میں شکوک و شبہات ابھرے، جس کے بعد یورپی یونین نے مائع کنٹینرز کی اضافی جانچ کا حکم دیا تھا۔
ادارت: شکور رحیم