دنیا کے سمندر وائرسوں سے بھر رہے ہیں؟ سائنس دانوں کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
زیادہ تر وائرسز کا سائز انسانی بال کی چوڑائی کے 0.5فی صد سے کم ہوتا ہے،رپورٹ
امریکا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے سمندر جائنٹ وائرسز (جائرسز) سے بھر رہے ہیں۔
زیادہ تر وائرسز کا سائز انسانی بال کی چوڑائی کے 0.5 فی صد سے کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا برہنہ آنکھ سے دیکھا جانا ممکن نہیں۔ اس کے برعکس محققین کا کہنا ہے کہ جائنٹ وائرسز ان وائرسز سے پانچ گنا بڑے ہوتے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ تمام 230 وائرسز پہلے سائنس کے علم میں نہیں تھے۔ مزید بر آں ان کے انسانی صحت پر اثرات بھی واضح نہیں ہیں۔ عموما جائنٹ وائرسز دنیا بھر کے سمندروں میں الگئی اور ایموبا جیسی چھوٹی حیاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ زمین پر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جائنٹ وائرسز کے پورے ماحول پر اثرات مرتب ہوں لیکن اہم چیز اس کے سمندری ماحول پر مرتب اثرات کو سامنے لانا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جائنٹ وائرسز
پڑھیں:
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کا وفاقی بجٹ پر سخت ردعمل: غریب دشمن قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے 2025-2026 کے وفاقی بجٹ کو ملک کے پسماندہ طبقات کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے ’غریب دشمن‘ بجٹ کا نام دیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق بجٹ میں نچلے طبقات کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی ریلیف شامل نہیں بلکہ یہ مکمل طور پر کفایت شعاری، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط اور اعدادوشمار کے تابع تیار کیا گیا ہے، جس میں انسانی وقار اور معاشی انصاف کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس بجٹ پر اپنا تفصیلی مؤقف پیش کیا۔ پریس بریفنگ میں معروف ماہرین معیشت، انسانی حقوق کے نمائندگان اور سماجی شعبوں کے ماہرین نے شرکت کی اور بجٹ کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی تبصرے کیے۔
ایچ آر سی پی نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت نے بجٹ کو آئی ایم ایف کے تقاضوں کے تحت تشکیل دیا ہے، مگر اس میں عام شہری، خاص طور پر تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے کوئی حقیقی ریلیف موجود نہیں۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ان لاکھوں افراد کی زندگی، جو 2022 سے جاری معاشی بحران میں بری طرح متاثر ہو چکے ہیں، اس بجٹ میں مزید دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اگرچہ انکم ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی گئی ہے، تاہم یہ کمی اس قدر محدود ہے کہ اس سے شہریوں کی قوتِ خرید میں کوئی نمایاں بہتری ممکن نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کی مہنگائی نے عوام کی بنیادی خریداری کی طاقت چھین لی ہے اور یہ بجٹ اسے بحال کرنے میں ناکام ہے۔
کمیشن نے وفاقی سطح پر کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہ کیے جانے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 37 ہزار روپے ماہانہ اجرت ایک 6 رکنی خاندان کے لیے نہ صرف ناکافی ہے بلکہ یہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔
اگرچہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کم از کم اجرت کو بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، مگر ایچ آر سی پی کے مطابق موجودہ مہنگائی کے حالات میں یہ اضافہ بھی حقیقی آمدنی میں کمی کا ازالہ نہیں کر سکتا۔
سندھ کے بارے میں کمیشن نے کہا کہ وہاں کی 80 فیصد صنعتیں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل ہی نہیں کر رہیں اور یہ رجحان پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے، جو ریاستی نااہلی کی علامت ہے۔
ایچ آر سی پی نے بجٹ میں تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے مختص فنڈز کو انتہائی ناکافی اور عالمی معیار سے کمتر قرار دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 0.96 فیصد، تعلیم کے لیے 1.06 فیصد اور سماجی تحفظ کے لیے 1.1 فیصد بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
یہ اعداد نہ صرف اقوامِ متحدہ کے تجویز کردہ اہداف سے کم ہیں بلکہ ہمسایہ ممالک بھارت، بنگلا دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وزیر خزانہ کی جانب سے کم از کم اجرت میں اضافہ نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کیا جا رہا ہو، تو یہ عمل غریب عوام سے کھلا مذاق محسوس ہوتا ہے۔
کمیشن کے نائب صدر راجا اشرف نے کہا کہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمے داری ہے اور ان شعبوں میں عدم سرمایہ کاری مستقبل میں ملک کو مزید معاشرتی انتشار کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
ایچ آر سی پی کی سینئر منیجر فیروزہ بتول نے بجٹ کو خواتین دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب معاشی پالیسیوں میں پسماندہ طبقوں کو نظر انداز کیا جائے، تو سب سے زیادہ نقصان خواتین کو ہوتا ہے، جو پہلے ہی گھریلو، معاشی اور سماجی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر فہد علی نے نشاندہی کی کہ ملک کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ 88 فیصد افراد کی آمدنی 75 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے ۔ ایسے میں بجٹ میں معاشی انصاف کی عدم موجودگی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ایچ آر سی پی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مالی ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں اور ترقیاتی پالیسیوں کو صرف قرض دہندگان کی خوشنودی کے بجائے عوام کی بنیادی ضروریات کے مطابق ڈھالیں۔
کمیشن نے واضح کیا کہ جب تک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے شعبوں میں سنجیدہ اور مستقل سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی، اس وقت تک مساوی شہری حقوق کا تصور صرف ایک خوبصورت نعرہ ہی رہے گا۔