کانگریس لیڈر نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت کے وزیراعظم اور وزارت خارجہ کی باتوں میں اتنا بھی وزن نہیں کہ وہ امریکی صدر سے بات کر کے ملک کا مؤقف واضح کر سکیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ بیان پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سخت سوال اٹھائے ہیں۔ پارٹی کے سینیئر لیڈر پون کھیڑا نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ نریندر مودی کو ٹرمپ کے دعووں کی کھلے عام تردید کرنی چاہیئے تاکہ ملک کی خارجہ پالیسی پر اٹھنے والے سوالات کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ پون کھیڑا نے یاد دلایا کہ کل ہی ہندوستان کے خارجہ سکریٹری نے ایک باضابطہ بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم مودی نے ٹرمپ سے فون پر بات چیت کے دوران واضح کر دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے اور موجودہ سیز فائر دو طرفہ مفاہمت کے تحت عمل میں آیا ہے۔ تاہم پون کھیڑا کے مطابق اسی بیان کے چند گھنٹوں بعد ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی، جنگ رکوائی اور دباؤ ڈال کر سیز فائر کرایا۔ پون کھیڑا نے کہا کہ یہ دعویٰ خارجہ سکریٹری کے بیان سے براہ راست متصادم ہے۔

کانگریس لیڈر نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت کے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کی باتوں میں اتنا بھی وزن نہیں کہ وہ امریکی صدر سے بات کر کے ملک کا مؤقف واضح کر سکیں۔ پون کھیڑا نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ امریکی صدر بار بار وہی دعویٰ دہرا رہے ہیں اور ہندوستانی وزیراعظم مسلسل خاموش ہیں۔ پون کھیڑا نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے بیانات نے ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدے کو پاکستان کے آرمی چیف کے برابر لا کھڑا کیا ہے جو ملک کے وقار کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا عہدہ ایک وقار رکھتا ہے اور ٹرمپ انہیں ایک آرمی جنرل کے برابر رکھ رہے ہیں، یہ ہماری خودمختاری اور خارجہ پالیسی کے لئے شرمناک ہے۔ پون کھیڑا کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک مہینے میں ٹرمپ 13 سے 14 مرتبہ اس قسم کے دعوے کر چکے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم مودی خود سامنے آ کر عوامی سطح پر اس کی سختی سے تردید کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی صدر پاکستان کے ٹرمپ کے

پڑھیں:

امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟

گزشتہ روز برطانیہ کے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا، ’ہم بگرام ائر بیس کو طالبان حکومت سے واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ چین کے اُس مقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ

اُسی پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بائیڈن کے دورِ حکومت میں امریکا افغانستان سے شرمناک طریقے سے نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ائربیس واپس چاہیے کیونکہ طالبان حکومت کو بھی ہم سے کچھ چیزیں چاہئیں۔

بگرام ائر بیس کی اہمیت کیا ہے؟

بگرام ائر بیس افغانستان کا سب سے بڑا اور سب سے اسٹریٹیجک فوجی اڈہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کئی حوالوں سے ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ مقام کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہاں سے وسطی ایشیا، چین، ایران اور پاکستان تک فوجی آپریشنز کی کڑی نگرانی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا

امریکی فوج کے افغانستان پر قبضے کے دوران یہ اُن کی فوجی طاقت کا مرکز تھا؛ یہ بیس امریکی اور نیٹو افواج کے لیے افغانستان میں کمانڈ، لاجسٹکس اور ایئر آپریشنز کا بنیادی ہیڈکوارٹر تھا۔ یہاں سے لڑاکا طیارے، ڈرون اور ہیلی کاپٹر اڑان بھرتے تھے جو افغانستان کے اندرونی حصوں اور سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے رہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق یہ خفیہ سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ بگرام پر قید خانہ اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے مراکز بھی قائم تھے جہاں اہم طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو رکھا جاتا رہا۔ بگرام ائر بیس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس بیس سے امریکا نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، پاکستان، وسطی ایشیا اور چین کے مغربی حصوں پر بھی نظر رکھ سکتا تھا۔

جو بائیڈن کی غلطی

امریکا نے 15 اگست 2021 کو، سابق صدر جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں، افغانستان سے انخلا کے دوران یہ بیس خالی کر دیا تھا جس پر طالبان نے قابو پالیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے سب سے بڑی غلطی قرار دیا اور اب اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کا ردعمل: کشیدگی بڑھانے والے بیانات سے گریز کیا جائے

امریکی صدر کے بیان پر چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور کسی بھی ملک کو وہاں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

چینی ترجمان نے مزید کہا کہ خطے میں استحکام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ فریقین ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو کشیدگی بڑھائیں۔

امریکی عہدیداران بھی مخالف

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بگرام ائربیس کو فوجی طاقت کے ذریعے واپس لینے کی کوئی فعال منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ اس عہدیدار کے بقول، یہ اڈہ 2021 میں چھوڑ دیا گیا تھا اور دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک بڑی مہم ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟

ان کے مطابق بگرام ائربیس کو قبضے میں لینے اور برقرار رکھنے کے لیے دس‌ ہزار فوجیوں کی ضرورت ہوگی، اڈے کی مرمت پر بھاری اخراجات آئیں گے، اور رسد کی فراہمی کے لیے ایک لازمی مگر مشکل لاجسٹک کام کرنا پڑے گا۔ چاہے امریکی فوج اس بیس کا کنٹرول حاصل بھی کر لے، تب بھی اس کے گرد پھیلے ہوئے وسیع علاقے کو صاف اور محفوظ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا تاکہ وہاں سے امریکی افواج پر راکٹ حملے نہ کیے جا سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان بگرام ایئر بیس ڈونلڈ ٹرمپ

متعلقہ مضامین

  • امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟
  • فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے برطانوی فیصلے سے متفق نہیں ہوں، ٹرمپ 
  • پاکستان سعودی عرب میں معاہدہ: بھارتی وزیراعظم مودی تنقید کی زد میں آگئے
  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • عائشہ عمر نے ریئلٹی شو ’لازوال عشق‘ کو ڈیٹنگ شو قرار دینے کی خبروں کی تردید کردی
  • ٹرمپ کا دبائو برطرف، دو طرفہ تعلقات کو بڑھائیں گے ، پیوتن اور مودی کا اتفاق
  • جون کے بعد ٹرمپ کا مودی کو پہلا فون، سالگرہ پر مبارکباد دی
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • ’’یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ رویش کمار نے ارنب گوسوامی کا پردہ چاک کر دیا
  • نریندر مودی کی 75ویں سالگرہ پر ٹرمپ کی مبارکباد، مودی کا اظہار تشکر