افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قرآنی ریاستی راہنمائی
جائز اور صحیح نوعیت کی ’خلافت‘ کا حامل کوئی ایک شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں ہوتا بلکہ اہل ایمان کی جماعت کا ہر فرد ’خلافت‘ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ کسی شخص یا طبقے کو عام مومنین کے اختیاراتِ خلافت سلب کرکے انھیں اپنے اندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے، نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
یہی چیز ’اسلامی خلافت‘ کو ملوکیت، طبقاتی حکومت اور تھیاکریسی (Theocracy) سے الگ کرکے اسے جمہوریت کے رُخ پر موڑتی ہے۔ لیکن اس میں اور مغربی تصورِ جمہوریت میں اصولی فرق یہ ہے کہ مغربی تصور کی جمہوریت عوامی حاکمیت (Popular Sovereignty) کے اصول پر قائم ہوتی ہے، اور اس کے برعکس اسلام کی جمہوری خلافت میں خود عوام، خدا کی حاکمیت تسلیم کرکے اپنے اختیارات کو برضا و رغبت، قانونِ خداو ندی کے حدود میں محدود کرلیتے ہیں۔
اس نظامِ خلافت کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہوگی، عوام اس کی صرف اطاعت فی المعروف کے پابند ہوں گے، معصیت (قانون کی خلاف ورزی) میں نہ کوئی اطاعت ہے اور نہ تعاون۔
٭…٭…٭
’منتظمہ‘ کے اختیارات لازماً حدود اللہ سے محدود اور خدا اور رسولؐ کے قانون سے محصور ہوں گے، جس سے تجاوز کرکے وہ نہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرسکتی ہے، نہ کوئی ایسا حکم دے سکتی ہے جو معصیت کی تعریف میں آتا ہو۔ کیونکہ اس آئینی دائرے سے باہر جاکر اسے اطاعت کے مطالبے کا حق ہی نہیں پہنچتا۔ علاوہ بریں یہ منتظمہ لازماً شوریٰ، یعنی انتخاب کے ذریعے سے وجود میں آنی چاہیے اور اسے شوریٰ، یعنی باہمی مشاورت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ لیکن انتخاب اور مشاورت، دونوں کے متعلق قرآن قطعی اور متعین صورتیں مقرر نہیں کرتا بلکہ ایک وسیع اصول قائم کرکے اس پر عمل درآمد کی صورتوں کو مختلف زمانوں میں معاشرے کے حالات اور ضروریات کے مطابق طے کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
٭…٭…٭
’مقننہ‘ لازماً ایک ’شورائی ہیئت‘ (Consultative Body) ہونی چاہیے، لیکن اس کے اختیاراتِ قانون سازی بہرحال ان حدود سے محدود ہوں گے۔ جہاں تک ان اُمور کا تعلق ہے جن میں خدا اور رسولؐ نے واضح احکام دیے ہیں یا حدود اور اصول مقرر کیے ہیں۔ یہ مقننہ ان کی تعبیر وتشریح کرسکتی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے ضمنی قواعد اور ضابطۂ کارروائی تجویز کرسکتی ہے، مگر ان میں رَدّ وبدل نہیں کرسکتی۔ رہے وہ اُمور جن کے لیے بالاتر قانون ساز نے کوئی قطعی احکام نہیں دیے ہیں، نہ حدود اور اصول معین کیے ہیں، ان میں اسلام کی اسپرٹ اور اس کے اصولِ عامہ کے مطابق مقننہ ہر ضرورت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں کوئی حکم نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان کو اہل ایمان کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔
٭…٭…٭
’عدلیہ‘ ہر طرح کی مداخلت اور دبائو سے آزاد ہونی چاہیے، تاکہ وہ عوام اور حکام سب کے مقابلے میں قانون کے مطابق بے لاگ فیصلہ دے سکے۔ اسے لازماً ان حدود کا پابند رہنا ہوگا۔ اس کا فرض ہوگا کہ اپنی اور دوسروں کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر، ٹھیک ٹھیک حق اور انصاف کے مطابق معاملات کے فیصلے کرے۔
(قرآن کی سیاسی تعلیمات، ترجمان القرآن، نومبر، دسمبر 1964)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کرسکتی ہے کے مطابق نہ کوئی کے لیے
پڑھیں:
واہ کیا بات ہے!
بے لگام / ستار چوہدری
ایک تھا فرعون ،جو ہوس اقتدارمیں بنی اسرائیل کے بچے تک قتل کرادیتا تھا۔۔۔ لیکن ۔۔۔ پروگرام تو رب کا چلتا ہے ۔ سب خواہشیں، سب منصوبے ،سب ارادے سمندرمیں ڈوب گئے ۔ ایک تھا معاویہ بن یزید ،اکیس سال کا نوجوان،کئی براعظموں تک پھیلی حکومت،صرف تین ماہ بعد اقتدارکو یہ کہہ کر ٹھوکرماردی، مجھ سے اقتدارکابوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔ایسی حکومت پرلعنت،جس کی بنیادوں میں اہل بیت کا خون ہو۔
انسان مر جاتے ہیں،کردارزندہ رہتے ہیں،فرعون ہویا نمرود،ہلاکو خان ہویا ہٹلر،یزید بن معاویہ ہویا معاویہ بن یزید، یہ ہر دور کے کردار ہیں۔۔ منموہن سنگھ نے بطوروزیراعظم آخری پریس کانفرنس میں تاریخی جملہ بولا تھا،ہرآدمی کے کردارکا فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی،معاویہ بن یزید صرف تین ماہ حکومت کرکے اپنا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھوا گئے ،یزید بن معاویہ ان کا باپ تھا،تین سال حکومت کرکے تاقیامت لعنتیں سمیٹ لیں،باپ،بیٹا تھے ،خونی رشتہ ،لیکن کردار اپنا اپنا،ذات پات سے کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا، آخری خطبے میں نبی مہربان ۖ نے واضح فرما دیا تھا،کسی کو کسی پرکوئی برتری حاصل نہیں،سوائے پرہیزگاری کے ۔کوئی نمازی ہے ،حافظ ہے ،الحاج ہے ،کیا فرق پڑتا ہے ؟یہ اس کے ذاتی معاملات ہیں،دیکھا کیا جاتا ہے ۔۔۔؟ اللہ کے بندوں کے ساتھ اس کے کیسے معاملات ہیں،حافظ تو حجاج بن یوسف بھی تھا، نمازی تواورنگزیب عالمگیر بھی تھا،حجاج نے ہزاروں انسانوں کو مارڈالا،اورنگزیب نے توبھائی بھی قتل کردیے تھے ۔۔۔کافی دنوں سے کچھ لکھ نہیں پایا،نہ جانے کیوں کبھی کبھی لفظوں کا قحط پڑجاتا ہے ،بلاوجہ اداسی،جیسے کچھ کھو گیاہو، یا کسی کی تلاش ہو،یہ انسانی فطرت ہے ،خاموشی کے ان دنوں میں بہت کچھ ہوتا رہا،میرے دوست میڈیا والے صرف اسی بات پر بحث کرتے رہے، بانی چیئرمین کے بیٹے سلمان،قاسم پاکستان آئیں گے یا نہیں۔۔۔ ؟ کیا انہیں پاکستان آنے پرگرفتار کرلیا جائے گا؟ میڈیا ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتا رہا،حکومت اپنے ٹارگٹ پورے کرتی رہی،80روپے والی چینی 200میں بک رہی۔۔۔چھوڑو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بارایک وزیرخارجہ کا شوگر ایڈوائزی بورڈ کا بھی چیئرمین بننے کا انکشاف ہوا۔کیا فرق پڑتا ہے ۔پاکستان امریکا سے تیل خریدے گا۔واہ،کمال،زبردست۔۔ایک وقت آئے گا،پاکستان بھارت کو تیل فروخت کرے گا۔چلو اٹھو !! بھنگڑے ڈالیں،بلاؤ ڈھول والے کو۔۔۔ جوبائیڈن تو عمران خان کا فون ہی نہیں سنتا تھا نہ ہی کرتا تھا،لیکن ٹیرف10فیصد تھا،ٹرمپ تو دوماہ سے ہماری تعریفیں ہی کیے جا رہا،گھر بلا کر کھانا بھی کھلوایا،ہماری خوشنودی کیلئے ہمارے دشمن کی آئے روزبے عزتی بھی کررہا ہے،لیکن ٹیرف19فیصد کردیا۔۔۔ خیر! کیا فرق پڑتا ہے ،ہم آنے والے دنوں میں کھربوں ڈالر کے مالک بننے والے ہیں۔۔۔نئی ریٹنگ تلاش کررہا تھا،غالباً ابھی جاری نہیں ہوئی،9مئی کے فیصلوں کے بعد امید ہے ہمارے عدالتی نظام کی بہت زیادہ ” ترقی” ہوگئی ہوگی،امید نہیں ،یقین ہے ،148سے 200 ہوگی۔۔۔کتنی خوشی کی بات ہے ،مٹھائیاں تقسیم کی جانی چاہئیں۔۔۔یہ بھی سنا ہے ،بڑے میاں کے چھوٹے داماد نے کچھ پاکستانیوں،کچھ عربوں کے اربوں ڈبو دیے ہیں،ویسے دیکھا جائے تو،منی لانڈرنگ ہو یا کہیں کک بیکس کی کہانی،کمیشن لینے کا ہو یا قیمتیں بڑھانے کا قصہ، کھرا شریفوں کے گھر ہی کیوں جاتا ہے ۔۔۔؟
شہراقتدار سے خبرموصول ہوئی ہے ،وزیراعظم کی ” مدت” پوری ہوگئی ہے ،نیا ”دولہا شیروانی لینے کیلئے چپکے چپکے انکل سام” کے پاس گئے ہوئے ہیں،بڑے میاں اور پنجاب کی ملکہ کوتین روز قبل دوست ملک کے سفیر نے بتادیا،پیغام پہنچایا ہے ”میاں صاحب !! کچھ تبدیلی کر رہے ہیں، بس آپ نے خاموش ہی رہنا ہے ” ۔۔۔۔پوری دنیا کا میڈیا تنازع فلسطین پرمباحثے کررہا،فلسطینی بچے بھوک سے مررہے ، اسرائیل ان بھوکوں بچوں کو ہی مارے جارہا لیکن ہمیں کیا۔۔۔؟ہمیں توبس یہ فکر لگی ہے ،عمران خان کے بچے پاکستان آئیں گے یا نہیں۔۔؟ تاریخ تو ہماری بھی لکھی جارہی،حکمرانوں سے لے کر میڈیا تک،عدالتوں سے لیکر سکیورٹی اداروں تک۔۔ اور تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی،کوئی تین ماہ حکومت کرکے امرہوجاتے ہیں،کوئی سالوں اقتدار میں رہ کرگندگی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔۔دنیا میں وقت گزرجاتا ہے ۔۔۔ لمحے بدل جاتے ہیں۔۔۔ منظر دُھندلا جاتے ہیں۔۔۔ رونقیں ویسے ہی قائم رہتی ہیں۔۔۔ فرق صرف کل اورآج میں ہوتا ہے ۔۔۔ کل جہاں آپ تھے ،آج وہاں کوئی اورہوگا۔۔۔ یہی زندگی ہے ،پرانے لوگ جاتے ہیں، نئے لوگ آتے ہیں۔۔۔ کہیں کوئی خلا باقی نہیں رہتا۔۔۔ یہی قانون قدرت ہے ۔۔۔اوراس پر کائنات چل رہی ہے ۔۔۔ زندگی نہیں رکتی، کبھی بھی۔۔۔ وہ گزر جاتی ہے ،آپ جیسے بھی گزاریں۔۔۔ہمیشہ یاد رکھیں !! جو ہجوم آپ کی تاجپوشی پر تالیاں بجاتا ہے ، وہی ہجوم آپ کے سر قلم کرنے پر بھی تالیاں بجاتا ہے ، لوگ تماشے کو پسند کرتے ہیں۔۔۔اور کہتے ہیں !!”واہ کیا بات ہے ” ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔