یورپ کو ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ:ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس تصادم نے مزید شدت اختیار کی تو اس کے سنگین نتائج یورپ کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔
اردگان نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ بھڑکنے کی صورت میں یہ آگ صرف خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے شعلے یورپ تک پہنچیں گے اور یورپی ممالک کو اس کا بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ کو چاہیے کہ وہ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ جنگ کا دائرہ مزید نہ پھیلے۔
ترکی کے صدر نے عالمی برادری، بالخصوص یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ تنازع عالمی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بن جائے گا۔ اردگان نے کہا کہ اگر اسرائیل نے اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھی اور ایران کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی تو اس کے نتائج پوری دنیا کے لیے خطرناک ہوں گے۔
انہوں نے ایران پر حملے یا اس کے خلاف کسی بڑے فوجی اقدام کو تباہ کن قرار دیا اور کہا کہ ترکی خطے میں امن اور استحکام کے لیے ہر ممکن سفارتی کوشش جاری رکھے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
ابوظہبی: یو اے ای کی جانب سے اس بات کاعندیہ دیا گیا ہے کہ اگرغزہ کے مغربی کنارے کو ضم کیا جا ئے گا تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ماند پڑ سکتے ہیں۔
عرب نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے پر متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ اس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ماند پڑسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ابوظہبی نے اسرائیلی وزیراعظم نییتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ویسٹ بینک کے کسی بھی حصے کی ضم کاری ریڈ لائن ہوگی مگر انہوں نے یہ وضاحت نہیں دی ہے کہ اس کے بعد کیا اقدامات ہونے جائیں گے۔
یو اے ای نے 2020ءمیں ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اورموجودہ ردعمل میں اپنا سفیر واپس بلانے پر غور کر رہا مگر یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ یو اے ای کے اب اسرائیل سے رسمی تعلقات ہیں اور تعلقات کم کرنا بھی ابراہیمی معاہدوں کے لیے بڑا دھچکا ہو گا جو امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کی اہم خارجہ پالیسی تھی۔
رپورٹ کے مطابق دوسری طرف اسرائیل نے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ یو اے ای نے دبئی ائرشو میں اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کی شرکت کو روک دی تھی، جس سے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اشارہ ملتا ہے۔
جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس ماہ اعلان کیا کہ وہ کبھی بھی فلسطینی ریاست قائم نہیں کریں گے یہ صورتحال خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی پیدا کر سکتی ہے۔