اسرائیل باز نہ آیا تو ایران کا جواب مزید سخت اور شدید ہوگا،ایرانی صدر
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اسرائیل کشیدگی کی شدت میں وقت کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس صورتحال میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا تازہ بیان اہم ہے۔
ایرانی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائیاں بند نہ کیں تو ایران کی جانب سے اگلا ردعمل نہ صرف شدید بلکہ ناقابل برداشت ہوگا، جس کے نتائج دشمن کے لیے بہت بھاری ثابت ہوں گے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر مسعود پزشکیان نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ ایران نے ہمیشہ علاقائی امن، استحکام اور سفارتی حل کو ترجیح دی ہے، لیکن موجودہ حالات میں جب دشمن نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، تو خاموشی مزید تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ایران کی امن پسندی کو کمزوری سمجھنے والے عناصر کو اب یہ باور کرانا ہوگا کہ ایران اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔
ایرانی صدر نے زور دیا کہ خطے میں دیرپا امن صرف اس صورت میں ممکن ہے جب صہیونی ریاست اپنی فوجی جارحیت فوری طور پر اور بغیر کسی شرط کے بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی اشتعال انگیز پالیسیوں نے خطے کو ایک خطرناک دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اگر ان اقدامات کو روکا نہ گیا تو صورتحال مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ ایران نے بہت زیادہ بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ پرامن حل کا راستہ اپنایا، لیکن جب دشمن اپنی حدیں عبور کر لے اور مسلسل حملے کرے تو پھر خاموشی مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے۔ اسرائیل کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خطے میں امن چاہتا ہے یا تباہی، کیونکہ ایران کسی بھی قسم کی مداخلت یا حملے کا انتہائی سخت انداز میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ تہران کی جانب سے یہ سخت موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر حملے اور جوابی کارروائیاں ہو چکی ہیں، جنہوں نے نہ صرف ان دو ممالک بلکہ پورے خطے کو ممکنہ جنگ کے خدشے سے دوچار کر دیا ہے۔
دریں اثنا صدر مسعود پزشکیان کے بیان کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ جب تک اسرائیلی بمباری اور حملے جاری رہیں گے، ایران کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنے گا۔
عباس عراقچی کے مطابق ایران کا دفاعی ردعمل بہت واضح اور مؤثر تھا اور اس کے بعد بہت سے علاقائی ممالک کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ صہیونی اتحاد کی جارحیت کا ساتھ دینا خود ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں کا منطقی انجام یہی ہوگا کہ وہ خود عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائیں گے، کیونکہ دنیا امن و استحکام کی تلاش میں ہے، نہ کہ ایک ایسی ریاست کی پشت پناہی میں جو جارحیت اور دہشت گردی کی علامت بن چکی ہو۔
عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ کشیدگی کم نہ ہوئی تو مشرق وسطیٰ ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔ ان حالات میں ایران کی واضح اور سخت زبان میں دی گئی وارننگ نہ صرف اسرائیل بلکہ ان عالمی طاقتوں کے لیے بھی اشارہ ہے جو اس تنازع میں فریق بننے سے گریز نہیں کر رہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسعود پزشکیان ایرانی صدر کہ ایران انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
مودی کیلئے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ واپس لے لی
مودی کیلئے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ واپس لے لی WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
نئی دہلی(آئی پی ایس )امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنی ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنی ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنی رکھا تھا۔تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دبا برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنی ختم کیا جا رہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطی میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دبا کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفینٹانل بنانے والے اجزا کی اسمگلنگ: امریکا نے بھارتی کاروباری افراد کے ویزے منسوخ کردیے فینٹانل بنانے والے اجزا کی اسمگلنگ: امریکا نے بھارتی کاروباری افراد کے ویزے منسوخ کردیے اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے 4 روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ چمن میں پاک افغان بارڈر ٹیکسی اسٹینڈ پر دھماکا، 5 افراد جاں بحق پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ: کیا سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک بھی حصہ بنیں گے؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم