WE News:
2025-09-19@19:33:19 GMT

جنگوں میں خواتین پر جنسی مظالم کیوں کیے جاتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

جنگوں میں خواتین پر جنسی مظالم کیوں کیے جاتے ہیں؟

مسلح تنازعات میں جنسی تشدد سے جنگی چال اور دہشت پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف متاثرین کی زندگی پر تباہ کن اثرات ہوتے ہیں بلکہ خاندانوں اور معاشروں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے جنم لینے والی تکلیف، شرمندگی اور بدنامی کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت میں ہر 17 منٹ میں جنسی زیادتی کا واقعہ، کیا ہم ہر 17 منٹ میں شرمندہ ہوں؟‘

اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ہی جنگوں میں جنسی تشدد (سی آر ایس وی) کے 4،500 واقعات سامنے آئے تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسے واقعات میں 93 فیصد متاثرین خواتین اور لڑکیاں تھیں۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت سی آر ایس وی جنگی اور انسانیت کے خلاف جرم ہے جو نسل کشی کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے طویل مدتی اثرات پائیدار امن قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ جنگوں میں جنسی تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا جو اس وحشیانہ فعل کے طویل مدتی اور بین نسلی اثرات کی جانب توجہ دلاتا ہے۔

جنسی تشدد: جنگی ہتھکنڈا

بہت سے مسلح تنازعات میں جنسی تشدد کو دانستہ طور پر دہشت پھیلانے، لوگوں کو سزا دینے اور ان کی توہین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کی رابطہ کار اسمیرالڈا الابرے نے سوڈان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے مسئلے پر یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہتھکنڈے سے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کی توہین کا کام لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے یہ نقصان متاثرین تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس سے معاشرے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس سے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، خوف پھیلتا ہے اور معاشی تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھیے: تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات کی وجہ کیا ہے؟

ہیٹی میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کی بانی پاسکل سولاجز نے بتایا کہ ملک میں مسلح جرائم پیشہ جتھوں نے لوگوں کو اپنی ہی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے جسم گویا میدان جنگ بن گئے ہیں۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے سماجی رشتوں کو تباہ کرنے کے لیے جنسی زیادتی کو بالادستی اور دوسروں پر قابو پانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ان جرائم کے متاثرین عمر بھر تکلیف، بدنامی اور تنہائی کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

نسل در نسل اثرات

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس دن پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جنگوں میں جنسی تشدد کے بہت سے متاثرین انتقامی کارروائی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ماضی کی ہولناکیوں کا اعتراف کرنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس جرم سے ہونے والی تکلیف گہرے اور دیرپا بین النسلی گھاؤ پیدا کرتی ہے اور تشدد کے اثرات آنے والی نسلوں پر محیط ہوتے ہیں۔

الابرے کا کہنا ہے کہ بہت سی متاثرین جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو اکیلے پالنے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ ان کے معاشرے ان بچوں کو قبول نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق

اس طرح گویا دنیا ان کی چیخیں نظرانداز کر دیتی ہے۔ متاثرین اور ان کے بچے عام طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع سے بھی محروم رہتے ہیں اور غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جنگوں میں جنسی تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار پرامیلا پیٹن نے کہا ہے کہ جب بندوقیں خاموش ہو جائیں تو بہت سی خواتین اور بچوں کے لیے جنگ اس وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ جنسی تشدد جنگوں میں جنسی تشدد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ جنگوں میں جنسی تشدد جنگوں میں جنسی تشدد اقوام متحدہ جنسی زیادتی جاتے ہیں تشدد کے کے لیے

پڑھیں:

کمبوڈیا میں پاکستانی شہریوں پر بہیمانہ مظالم اور انسانی اعضا کی فروخت, تہلکہ خیز کا انکشافات

جنوبی ایشائی ملک کمبوڈیا میں پاکستانی شہریوں پر بہیمانہ مظالم اور انسانی اعضا کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز اور انسانی حقوق نے ایک سال میں 18 ہزار پاکستانیوں کے کمبوڈیا جانے پر وزرات داخلہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا ایف آئی اے کمبوڈیا جانے والے افراد کی سہولت کاری کر رہا ہے۔اراکین نے کہا تھائی لینڈ اور ویتنام کی ہمسایہ ریاست میں پاکستانیوں کو یرغمال بنانے،کرنٹ لگانے،بھتہ لینے کی شکایات عام ہے جسمانی اعضا تک نکال لئے جانتے ہیں۔کمیٹی چیئرمین آغارفیع اللہ نے بڑے سوالات اٹھائے دیئے۔ کہا ڈی جی بیورو آف امیگریشن کا عہدہ خالی کیوں ہے؟ تمام اختیارات کیا قائم مقام ڈی جی کے پاس ہیں؟ وزارت خارجہ نے اگر 700 افراد ریسکیو کئے تو پھر ایک سال میں مزید 18 ہزار پاکستانی کمبوڈیا کیسے چلے گئے؟۔کمیٹی چیئرمین آغا رفیع اللہ نے کہا کہ جو کمبوڈیا میں لوگ فراڈ کے ذریعے لے کے جاتے ہیں وہاں پر جا کے ان کے مختلف اعضا بیچے جاتے ہیں، کمپلنٹس کافی آئی تھیں جس ایشو کو ہم نے اٹھایا اور وہاں پر لوگوں کو ریکور کروایا ایک سال کے اندر اندر 18 ہزار لوگ جا رہے ہیں، کمبوڈیا میں جہاں پر نہ کوئی سیاحت کی جگہ ہے نہ کوئی بزنس ہے نہ کچھ اور ہے ۔کمیٹی رکن مہرین بھٹو نے کہا ملک کے پڑھے لکھے پروفیشنلز نے اوورسیز جانا ہی  ترجیح بنا رکھا ہے جبکہ وزارت اوورسیز کے حکام نے بتایا 2024،25 میں پاکستانیوں نے بیرون ملک سے 38 ارب ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجیں۔

متعلقہ مضامین

  • کمبوڈیا میں پاکستانی شہریوں پر بہیمانہ مظالم اور انسانی اعضا کی فروخت, تہلکہ خیز کا انکشافات
  • جنسی درندگی کیس ، بند کمرہ عدالت کرروائی، بچیوں کے بیانات قلمبند
  • خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟
  • راولپنڈی؛ خاتون کو واٹس ایپ پر ہراساں، جنسی تعلقات پر مجبور کرنے میں ملوث ملزم گرفتار
  • غزہ میں خواتین سڑکوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • بھارتی کرکٹرز پر پاکستانی نیٹ بولرز کے ساتھ تصاویر پر بھی پابندی عائد