اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 جون 2025ء) مسلح تنازعات میں جنسی تشدد سے جنگی چال اور دہشت پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس سے ناصرف متاثرین کی زندگی پر تباہ کن اثرات ہوتے ہیں بلکہ خاندانوں اور معاشروں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے جنم لینے والی تکلیف، شرمندگی اور بدنامی کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ہی جنگوں میں جنسی تشدد (سی آر ایس وی) کے 4,500 واقعات سامنے آئے تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

ایسے واقعات میں 93 فیصد متاثرین خواتین اور لڑکیاں تھیں۔ Tweet URL

بین الاقوامی قوانین کے تحت 'سی آر ایس وی' جنگی اور انسانیت کے خلاف جرم ہے جو نسل کشی کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے طویل مدتی اثرات پائیدار امن قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

آج اقوام متحدہ جنگوں میں جنسی تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منا رہا ہے جو اس وحشیانہ فعل کے طویل مدتی اور بین نسلی اثرات کی جانب توجہ دلاتا ہے۔

جنسی تشدد: جنگی ہتھکنڈہ

بہت سے مسلح تنازعات میں جنسی تشدد کو دانستہ طور پر دہشت پھیلانے، لوگوں کو سزا دینے اور ان کی توہین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کی رابطہ کار اسمیرالڈا الابرے نے سوڈان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے مسئلے پر یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہتھکنڈے سے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کی توہین کا کام لیا جاتا ہے۔

لیکن، ان کا کہنا ہے یہ نقصان متاثرین تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس سے معاشرے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی کمزور پڑ جاتی ہے۔

اس سے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، خوف پھیلتا ہے اور معاشی تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے۔

ہیٹی میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کی بانی پاسکل سولاجز نے بتایا کہ ملک میں مسلح جرائم پیشہ جتھوں نے لوگوں کو اپنی ہی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے جسم گویا میدان جنگ بن گئے ہیں۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے سماجی رشتوں کو تباہ کرنے کے لیے جنسی زیادتی کو بالادستی اور دوسروں پر قابو پانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ان جرائم کے متاثرین عمر بھر تکلیف، بدنامی اور تنہائی کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

نسل در نسل اثرات

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس دن پر اپنے پیغام میں کہا ہےکہ جنگوں میں جنسی تشدد کے بہت سے متاثرین انتقامی کارروائی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ماضی کی ہولناکیوں کا اعتراف کرنا ہو گا۔ اس جرم سے ہونے والی تکلیف گہرے اور دیرپا بین النسلی گھاؤ پیدا کرتی ہے اور تشدد کے اثرات آنے والی نسلوں پر محیط ہوتے ہیں۔

الابرے کا کہنا ہے کہ بہت سی متاثرین جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو اکیلے پالنے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ ان کے معاشرے ان بچوں کو قبول نہیں کرتے۔ اس طرح گویا دنیا ان کی چیخیں نظرانداز کر دیتی ہے۔ متاثرین اور ان کے بچے عام طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع سے بھی محروم رہتے ہیں اور غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جنگوں میں جنسی تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار پرامیلا پیٹن نے کہا ہے کہ جب بندوقیں خاموش ہو جائیں تو بہت سی خواتین اور بچوں کے لیے جنگ اس وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔

احتساب کی ضرورت

انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ متاثرین کو ناصرف تحفظ اور مدد کے حصول کا حق ہے بلکہ انہیں انصاف اور ازالے کی فراہمی بھی ہونی چاہیے۔ تاہم، عموماً ان جرائم کے زمہ دار قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔

امدادی وسائل میں حالیہ کمی کے باعث متاثرین کو مدد کی فراہمی میں مشکلات حائل ہیں۔ اس طرح ناصرف ان کے لیے اپنے مجرموں کا احتساب یقینی بنانا مشکل ہو گیا ہے بلکہ ان جرائم کی روک تھام کی کوششیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

پرامیلا پیٹن بتاتی ہیں کہ متاثرین ان سے کہتے ہیں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اسے روکا جا سکتا تھا۔ امدادی وسائل کی قلت کے باعث مارچ میں ہی سوڈان میں 'یو این ایف پی اے' کے دفتر کو خواتین اور لڑکیوں کے لیے 40 محفوظ مراکز بند کرنا پڑے۔ اس طرح انہیں فوری اور طویل مدتی نگہداشت کی فراہمی کی کوششوں میں رکاوٹ آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر اقدامات، متاثرین اور ان کے بچوں کو مدد اور تعلیم کی فراہمی اور اس جرم کی روک تھام کے لیے قانونی پالیسی تشکیل دینے سے 'سی آر ایس وی' پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

خواتین متاثرین کی بحالی پر سرمایہ کاری میں کمی کے نتیجے میں تنازعات سے بحالی پر سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچے گا اور دنیا آنے والی نسلوں کے لیے مزید غیرمحفوظ ہو جائے گی۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگوں میں جنسی تشدد اقوام متحدہ خواتین اور کی فراہمی تشدد کے کے لیے اور ان

پڑھیں:

خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے جامع اور موثر قوانین وضع کیے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں مراد علی شاہ نے کہا کہ ہراسانی کے خلاف قانون کے اطلاق کیلئے صوبائی محتسب فعال کردار ادا کر رہا ہے، خواتین کو ترقی کے مساوی مواقع دینا سندھ حکومت کی اولین ترجیح ہے، معاشی و معاشرتی ترقی میں خواتین کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آج کا دن خواتین و بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے اور سماجی شعور اجاگر کرنے کی یاد دہانی ہے، اس سال کے عالمی تھیم متحد ہوں! خواتین و بچیوں پر تشدد کے خاتمے کیلئے انویسٹ کریں کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ تشدد کے خلاف آواز اٹھانا ایک اجتماعی، سماجی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، کسی بھی نوعیت اور کسی بھی صورت میں تشدد ناقابل برداشت اور قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام میں معاشرے کے تمام طبقات کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا، سندھ حکومت نے خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے جامع اور موثر قوانین وضع کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خواتین  کو محفوظ  بنانے  کیلئے  پر عزم  ‘ تشدد ہراسانی برداشت  نہیں  : مریم  نواز 
  • اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر گہری تشویش,دوران حراست تشدد کی مذمت
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام
  • خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے جامع اور موثر قوانین وضع کیے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • وزیراعظم شہباز شریف کا خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام
  • ہر عورت کو خوف و تشدد سے آزاد زندگی ملنی چاہیے، صدر مملکت کا پیغام
  • ہر عورت کو خوف و تشدد سے پاک زندگی ملنی چاہیے، صدر مملکت کا عالمی دن پر پیغام
  • وزیراعظم کا خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر اہم پیغام
  • دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن آج منایا جا رہا ہے