data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیند کو عام طور پر جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، لیکن ہنگری میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ دیر تک سونا، کم سونے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Semmelweis یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق روزانہ 9 گھنٹے سے زیادہ سونا آپ کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اس سے موت کا خطرہ 34 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ 7 گھنٹے سے کم سوتے ہیں ان میں موت کا خطرہ 14 فیصد بڑھتا ہے۔

یہ تحقیق 21 لاکھ افراد پر کی گئی 79 الگ الگ مطالعات کا مجموعہ ہے، جس میں نیند کے دورانیے اور صحت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ کم نیند کا اثر مردوں پر زیادہ جبکہ زیادہ نیند کا اثر خواتین پر زیادہ ہوتا ہے۔ محققین کا ماننا ہے کہ اس فرق کی وجہ مرد و خواتین کے ہارمونی نظام میں فرق ہو سکتا ہے، تاہم اس پہ مزید تحقیق درکار ہے۔

موجودہ دور میں نیند کی کمی کا مسئلہ بھی عام ہو چکا ہے، خاص طور پر موبائل اسکرینز اور سوشل میڈیا کے استعمال نے قدرتی نیند کا توازن بگاڑ دیا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ 5-6 گھنٹے سونے والے افراد میں فالج کا خطرہ 29 فیصد اور 8 گھنٹے سے زیادہ سونے والوں میں یہ خطرہ 46 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے، فالج دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

لہٰذا نہ بہت کم نیند صحت مند ہے، نہ ہی بہت زیادہ۔ متوازن نیند — تقریباً 7 سے 8 گھنٹے ہی بہترین ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) گزشتہ سال جنگوں میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں سمیت 48,384 شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ مسلح تنازعات میں بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 2023 اور 2024 کے درمیانی عرصہ میں جنگوں کے دوران 21,480 خواتین اور 16,690 بچے ہلاک ہوئے۔

ان میں 70 فیصد خواتین اور 80 فیصد بچوں کی ہلاکتیں غزہ میں ہوئیں۔ Tweet URL

گزشتہ سال مسلح تنازعات میں انسانی حقوق کے 502 محافظ ہلاک اور 123 لاپتہ ہوئے۔

(جاری ہے)

ایسے بیشتر واقعات جن ممالک میں پیش آئے ان میں زیادہ تر مغربی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے ممالک میں ہوئیں اور بیشتر متاثرین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔

ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد 10 فیصد تھی تاہم انسانی حقوق کے لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں ان کا تناسب 20 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

لاطینی امریکہ، غرب الہند، یورپ اور شمالی امریکہ میں ایسے واقعات کی تعداد دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ رہی۔گزشتہ سال 82 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2023 میں ان کی تعداد 74 فیصد تھی۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں ایسے علاقوں میں ہوئیں جہاں مسلح تنازعات جاری ہیں۔بڑھتی ہوئی تفریق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ایسے تمام اعدادوشمار کے پیچھے دردناک داستانیں ہیں۔

ان سے زمانہ امن و جنگ میں کمزور ترین لوگوں کو تحفظ کی فراہمی میں ناکامی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک یا تفریق کی صورتحال میں بھی مزید بگاڑ آیا ہے اور ایسے لوگ اس مسئلے سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی پسماندہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جسمانی معذوری کا شکار تقریباً ایک تہائی (28 فیصد) لوگوں نے بتایا ہے کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہو چکا ہے جبکہ جسمانی طور پر صحت مند افراد میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔ صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنے والے خواتین کی تعداد مردوں سے دو گنا زیادہ ہے۔ تفریق غریب ترین گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی اور غربت و نابرابری کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 15 تا 29 سال عمر کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنی مہاجرت، نسل، مذہب اور جنسی میلان کی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے عمر، معذوری اور طبی صورتحال کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

حقوق کے درست جائزے کا اہتمام

مضبوط اداروں اور معلومات کے حصول کا بہتر انتظام دستیاب ہونے کے نتیجے میں اب انسانی حقوق کے غیرجانبدار قومی ادارے (این ایچ آر آئی) دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی میں حقوق کی صورتحال کے بارے میں درست اطلاعات مہیا کرنے کے قابل ہیں۔

اس طرح اب 119 ممالک میں تفریق کے حوالے سے معلومات سامنے آئی ہیں جبکہ 2015 میں یہ تعداد 15 تھی۔ 32 فیصد 'این ایچ آر آئی' انسانی حقوق کے محافظوں پر حملوں کے حوالے سے معلومات جمع کر رہے ہیں۔

وولکر ترک نے کہا ہے کہ امتیاز یا تفریق کوئی الگ واقعہ نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کی تفریق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جسمانی معذور افراد ناصرف اپنی معذوری کی بنا پر امتیازی سلوک کا سامان کرتے ہیں بلکہ انہیں دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تفریق کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماہرین کا چیٹ جی پی ٹی اور دیگر سے متعلق ہوشربا انکشاف!
  • جرمن عوام نے اسرائیل کو امن کا خطرہ قرار دے دیا
  • حماس اور ایران کے حملے، نیند کا بحران اور ذہنی دباؤ: اسرائیلیوں پر تحقیقاتی رپورٹ جاری
  • غزہ: امدادی اداروں کے خدشات گھنٹوں میں حقیقت بننے کا خطرہ
  • وائزمین انسٹی ٹیوٹ تباہ ہونے سے 540 ملین ڈالر کا نقصان، نایاب نمونے، تحقیقی مواد ضائع، اسرائیلی اخبار کا اہم انکشاف
  • اسرائیل کے غزہ پر حملے نہ رکے، 24 گھنٹوں میں مزید 67 سے زیادہ فلسطینی شہید
  • مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ
  • چیٹ جی پی ٹی دماغی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے، ایم آئی ٹی کی تحقیق کا انکشاف
  • پاکستان میں پہلی مون سون بارش کب ہوگی، پہلا اسپیل کب تک چلے گا؟