سعودی ریگولیٹر کا سخت ردعمل، جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سعودی عرب نے سویلین نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سعودی نیوکلیئر اینڈ ریڈیولاجیکل ریگولیٹری کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے حملے عالمی سلامتی اور قوانین کی بنیادی روح کے خلاف ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے ایران کے خندب ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر سمیت متعدد جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے مطابق، خندب ری ایکٹر کو ہونے والے حملے میں اگرچہ کوئی جوہری مواد موجود نہیں تھا کیونکہ یہ جگہ ابھی زیرِ تعمیر تھی، تاہم اہم عمارتوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔
اسرائیل اس سے قبل بھی ایران کے اہم نیوکلیئر مقامات جیسے نتنز اور فوردو پلانٹ پر حملے کر چکا ہے، جو کہ زمین کے نیچے واقع ہیں۔ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق، حالیہ حملوں میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، ان حملوں میں خصوصی طور پر ری ایکٹر کی “کور سیل” کو نشانہ بنایا گیا، جو پلوٹونیم پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نے نطنز میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے مرکز اور بیلسٹک میزائل کے پرزے بنانے والی فیکٹریوں کو بھی تباہ کیا ہے۔
یہ واقعات مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھا سکتے ہیں، اور سعودی عرب جیسے دیگر ممالک نے جوہری تنصیبات کی سلامتی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر زور دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ری ایکٹر
پڑھیں:
اسرائیلی حملوں سے ایرانی ایٹمی پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا اور اس سے عوام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کے حالیہ حملوں میں نطنز، فردو اور اصفہان سمیت کئی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے وقتی نقصان ضرور ہوا ہے، تاہم ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ناکارہ بنانا اسرائیل کے لیے ممکن نہ تھا۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق، سیٹلائٹ تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ نطنز کے جوہری مرکز کے زیر زمین حصے کو ممکنہ طور پر براہ راست نقصان پہنچا ہے۔ وہاں ہزاروں سینٹری فیوجز نصب تھے۔ زمین کے اوپر موجود بجلی کا بنیادی نظام بھی تباہ ہو چکا ہے۔
فردو میں واقع زیرزمین افزودگی کا پلانٹ، جو ایران کی یورینیم افزودگی کا دوسرا بڑا مرکز ہے، کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہا ہے۔
اصفہان میں، آئی اے ای اے کے مطابق، چار اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے: مرکزی کیمیکل لیبارٹری، یورینیم کنورژن پلانٹ، تہران ری ایکٹر فیول مینوفیکچرنگ پلانٹ، اور ایک زیر تعمیر میٹل پروسیسنگ یونٹ۔
اصفہان کے جوہری کمپلیکس کے آس پاس بڑی مقدار میں افزودہ یورینیم کے موجود ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ علی واعظ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے یہ مواد پہلے ہی کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے تو اسرائیلی کارروائی کا اثر محدود ہو سکتا ہے۔
اسرائیل نے بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر اور تہران ریسرچ ری ایکٹر کو نشانہ نہیں بنایا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے ایران کا جوہری پروگرام وقتی طور پر ضرور متاثر ہوا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم کرنا مشکل ہے۔ ایران کے مضبوط اور زیر زمین جوہری مراکز کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو ممکنہ طور پر امریکہ جیسی طاقت کی مدد درکار ہوگی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں کئی ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم ایران نے جو سائنسی تجربہ اور مہارت حاصل کر رکھی ہے، اسے ختم کرنا ممکن نہیں۔
آئی اے ای اے کے مطابق فی الوقت تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں ہوا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی موجودہ یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر حملے سے تابکاری پھیلنے کا امکان کم ہے، لیکن اگر بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر کو نشانہ بنایا گیا ہوتا تو اس کے ماحولیاتی اثرات شدید ہو سکتے تھے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے اسرائیلی حملوں کے بعد بیان میں کہا کہ جوہری تنصیبات کو کبھی بھی حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ ایسے اقدامات ایرانی عوام، خطے اور عالمی سطح پر خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔