روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ روس نے امریکہ کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں شامل نہ ہو، یہ انتباہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ کے اس جنگ میں کودنے کے بارے میں مختلف خبریں اور موقف پیش کیے جارہے ہیں۔ روس ایران کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے، دونوں ملکوں کے درمیان گہرا تزویراتی اور فوجی تعاون و شراکت داری موجود ہے، ایران پر اسرائیلی حملوں کے باوجود روس نے اس تناظر میں ایران کو بظاہر کوئی مدد نہیں دی ہے، ولادی میر پیوٹن خود کو ایک ایسے ثالث کے طور پیش کر رہے ہیں جو خود جنگ کا حصہ بنا ہو۔ اب روس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جنگی ماحول میں نہ شامل ہو۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہروف نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ اس سے قبل ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے روسی ثالثی کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، ٹرمپ کا یہ ثالثی مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس پہلے اپنا یوکرین کے ساتھ جھگڑا ختم کرے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ٹرمپ کے روسی ثالثی کی تجویز مسترد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ پیش کش تو ان ملکوں کو کی گئی تھی جو اس جنگ کے براہ راست فریق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق میڈیا رپورٹس صرف قیاس آرائیاں ہیں، لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ ایک تباہ کن پیش رفت ہوگی۔

یاد رہے کہ روس کی طرف سے یہ انتباہ پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے فون پر اس معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران کیا ہے اور دونوں راہنماؤں نے اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کی ہے۔صدر پیوٹن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو دونوں راہنماؤں کی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد بریف کیا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ دشمنی کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی طریقوں سے کیا جانا چاہئے۔

صدر پیوٹن کا رات گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی معاہدات ہونے کے باوجود ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد بھی روس سے کوئی فوجی مدد نہیں مانگی ہے، ہمارے ایرانی دوست نے اس بارے میں ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اس سوال پر کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کیا جاتا ہے تو روس کا کیا رد عمل ہو گا، پیوٹن نے کہا کہ میں اس امکان کے بارے بات بھی نہیں کرنا چاہتا، اگر ایران نے انسانی بنیادوں پر روس سے کوئی مدد مانگی تو میں ضرور بھیجوں گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ کو ایران کے

پڑھیں:

امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایران کی چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے نئی دہلی کو پابندیوں سے متعلق جو رعایات دی گئی تھیں، انہیں وہ واپس لے رہی ہے۔

ایران کی چابہار بندرگاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم ہے اور جب چین کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ ڈیولپ کرنے کا عمل شروع ہوا تو بھارت نے اسی تناظر میں ایران کی اس بندرگاہ کو لے کر کام شروع کیا تھا۔

چونکہ ایران کے حوالے سے امریکہ نے بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اس لیے مودی کی درخواست پر سن 2018 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے اس بندرگاہ کے آپریشنز کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیا تھا، جسے اب واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ پابندیاں آج سے تقریباً 10 دن بعد یعنی 29 ستمبر سے نافذ العمل ہو جائیں گی اور کہا جا رہا ہے کہ تہران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" بنانے کے لیے واشنگٹن نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ نے کیا کہا؟

امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان تھامس پگوٹ نے ایک بیان میں کہا، "ایرانی حکومت کو الگ تھلگ کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مطابق، وزیر خارجہ نے 2018 میں ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرولیفریشن ایکٹ کے تحت جاری کردہ پابندیوں کی استثنٰی کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ، 29 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔

"

منسوخی کے فیصلے کے نفاذ کے بعد وہ تمام افراد جو چابہار بندرگاہ کو چلاتے ہیں یا دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہیں، وہ سب کے سب امریکی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔

بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا

ماہرین کے مطابق گرچہ اس اقدام کے ذریعے ایران کو نشانہ بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، تاہم اس کے بھارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

نئی دہلی اس بندرگاہ (شاہد بہشتی ٹرمینل، چابہار پورٹ) کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے تیار کر رہا ہے۔

بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ کو جس طرح تعمیر کیا ہے، اس تناظر میں یہ فیصلہ چابہار کو ترقی دینے کے بھارتی منصوبوں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔

استثنیٰ کی منسوخی بھارت کو ایک مشکل مقام پر ڈالتی ہے۔

13 مئی 2024 کو، نئی دہلی نے اپنے پہلے طویل مدتی ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ایران کی بندرگاہ اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت میں چابہار کو چلانے کے لیے 10 سال کی ڈیل کی گئی تھی۔

بھارت کے لیے چابہار صرف ایک تجارتی مرکز نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے بہت اہم ہے۔ نئی دہلی نے سب سے پہلے سن 2003 میں چابہار کو ترقی دینے کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ یہ پاکستان پر بھروسہ کیے بغیر افغانستان اور وسطی ایشیا کو راستہ فراہم کرتی ہے اور یہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور سے بھی مربوط ہے، جو بھارت کو روس اور یورپ سے ملاتا ہے۔

بھارت اس بندرگاہ کو پہلے ہی افغانستان کو گندم کی امداد اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے استعمال کر چکا ہے۔

امریکہ نے 2018 میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے افغانستان کے لیے اچھی کھیپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم ایرانی بندرگاہ

چابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔

یہ بھارت کے لیے سب سے قریبی ایرانی بندرگاہ ہے اور کھلے سمندر میں واقع ہے، جو بڑے کارگو جہازوں کے لیے آسان اور محفوظ رسائی فراہم کرتی ہے۔

مئی 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ تہران کے دوران بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور (چابہار معاہدہ) کے قیام کے لیے بھارت، ایران اور افغانستان نے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بھارت نے اب تک 25 ملین امریکی ڈالر مالیت کی چھ موبائل ہاربر کرینیں اور دیگر سامان چابہار کو فراہم کیا ہے۔ بھارتی کمپنی، انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) نے اپنی ایک ذیلی کمپنی انڈیا پورٹس گلوبل چابہار فری زون کے ذریعے، 24 دسمبر 2018 میں چابہار بندرگاہ کے آپریشنز کو سنبھالا تھا۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو
  • امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس
  • جماعت اسلامی کا فلسطینی بچوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی چلڈرن غزہ  مارچ 
  • آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، سید عباس عراقچی
  • جماعت اسلامی کا کراچی میں غزہ چلڈرن مارچ، طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘