ٹرمپ پاک بھارت جنگ رکوانے پر نوبل انعام کے خواہاں
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ رکوانے پر نوبل انعام ملنے کی خواہش کردی۔انہوں نے کہا ہے کہ ایران سے بات کریں گے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
امریکا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی فریق جیت رہا ہو اور دوسرا ہار رہا ہو، تو معاملہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہو جاتا ہے، لیکن ہم تیار اور رضامند ہیں اور ایران سے بات چیت کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ٹھیک جا رہا ہے لیکن ایران کم اچھا جا رہا ہے، یہ بہت مشکل ہے کہ کسی کو روکا جائے۔امریکی صدر نے کہا کہ اایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں یورپ زیادہ مدد نہیں کر سکے گا،۔
صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ ایک تجویز ہے کہ اگر آپ ایران اور اسرائیل کے درمیان ڈیل کرواتے ہیں تو جوہری انسپکٹرز دونوں ممالک میں جاتے ہیں تو آپ امن کا نوبل انعام جیتے سکتے ہیں، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجھے روانڈا، کانگو، سربیا، کوسو، اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرانے پر نوبل انعام ملنا چاہیے،مگر یہ مجھے نوبل انعام نہیں دینگے کیونکہ یہ انعام لبرلز کو دیتے ہیں
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھارت نے ایران کا ساتھ چھوڑ دیا
نئی دہلی(ویب ڈیسک ) بھارت، جو خود کو ایران کا اسٹریٹجک شراکت دار ظاہر کرتا رہا، اسرائیل- ایران تنازع کے دوران تہران کی حمایت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی خاموشی اور خفیہ سرگرمیوں نے اس نام نہاد دوستی کی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کر دیا۔
بھارت کی ایران کے ساتھ قربت کبھی حقیقی شراکت پر مبنی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی ایک چال تھی۔ بھارت نے چابہار بندرگاہ اور دیگر منصوبوں میں شراکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، مگر جب ایران پر دباؤ آیا تو خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
اسرائیل کے ایران پر حملوں کے دوران بھارت نے یکجہتی کے بجائے خاموشی اختیار کی اور تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی۔ بھارت کا اسرائیلی حملے کی مذمت سے گریز اس کے مغربی-اسرائیلی بلاک کی جانب واضح جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے، جس سے مسلم دنیا میں اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔
ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی ” را” کے تعاون کی اطلاعات بھارت کی نیتوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔ ایران نے 72 بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کیا ہے جو اسرائیل کو حساس معلومات فراہم کرنے کے شبہ میں زیر تفتیش ہیں — یہ ایک گہرے دھوکے کا ثبوت ہے۔
ایرانی سیکیورٹی اداروں نے بھارت کی جاسوسی سرگرمیوں کو اسرائیلی اہداف کے تعین سے جوڑا ہے۔ ایران کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کا خفیہ کردار ظاہر کرتا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی اصولوں پر نہیں بلکہ مفادات پر مبنی ہے۔
ایران- اسرائیل بحران پر G7 اجلاسوں میں بھارت کی مکمل غیر موجودگی اس کی عالمی سطح پر غیر متعلق حیثیت کو ظاہر کرتی ہے۔
ایران کو بھارت سے تعلقات پر از سر نو غور کرنا چاہیے، جس نے بار بار تہران کو پاکستان مخالف ایجنڈے میں ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ بھارت کی دوغلی پالیسی ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی بھی خودمختار اور وفادار شراکت دار کے لیے قابلِ اعتماد ملک نہیں۔
مزیدپڑھیں:ایران اسرائیل جنگ : ملک میں ایل پی جی کے سنگین بحران کا خدشہ