سوڈان میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، وولکر ترک کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کے علاقے شمالی ڈارفر اور کردفان میں جنگ شدت اختیار کر رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان، جنسی تشدد، اغوا اور لوٹ مار کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ان علاقوں میں ملک کے متحارب عسکری دھڑوں اور ان کی حامی ملیشیاؤں کے مابین حالیہ لڑائی کے نتیجے میں اس سفاکانہ اور مہلک تنازع میں مزید شدت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
Tweet URLسوڈان کی مسلح افواج اور اس کی مخالف نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے مابین اپریل 2023 سے جاری لڑائی کے باعث ملک میں نقل مکانی کے بہت بڑے بحران نے جنم لیا ہے جس کی فی الوقت دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
(جاری ہے)
اس عرصہ میں ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ اندرون و بیرون ملک بے گھر ہوئے ہیں جن کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔پناہ گزین کیمپوں کا محاصرہشمالی ڈارفر کا دارالحکومت الفاشر ایک سال سے 'آر ایس ایف' کے محاصرے میں ہے۔ سوموار کو شہر اور اس کے قریب پناہ گزینوں کے کیمپوں پر نیا حملہ کیا گیا جبکہ علاقے میں بچوں کو بھی جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کارروائی نے دو ماہ قبل شہر کے قریب زمزم پناہ گزین کیمپ پر 'آر ایس ایف' کے حملے کی ہولناک یاد تازہ کر دی ہے جس میں سیکڑوں شہری ہلاک ہوئے، بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب کیا گیا اور علاقے میں شدید انسانی بحران نے جنم لیا۔
اطلاعات کے مطابق، 10 اور 13 اپریل کے درمیان آر ایس ایف نے الفاشر کے قریبی علاقوں میں 100 سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔
جنگ میں پھنسے شہریریاست جنوبی کردفان میں متحارب فریقین تزویراتی اہمیت کے حامل علاقے الدبیبات پر قبضے کے لیے لڑ رہے ہیں جہاں ہزاروں شہری پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، 'آر ایس ایف' نے شمالی کردفان کے شہر العبید کا محاصرہ کر لیا ہے جس پر اس وقت ملکی افواج اور اس کے اتحادی گروہوں کا قبضہ ہے۔
'آر ایس ایف' کے کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ ان کے دستے آئندہ دنوں میں شہر پر حملہ کر سکتے ہیں۔
وولکر ترک نے کہا ہے کہ مزید کشیدگی کے نتیجے میں انسانی بحران بھی شدت اختیار کر جائے گا۔ دنیا طویل عرصہ سے سوڈان میں پیش آنے والے ہولناک واقعات کو دیکھ رہی ہے۔ جنگ میں شہریوں کو ہر صورت تحفظ ملنا چاہیے۔
ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا مطالبہہائی کمشنر نے متحارب فریقین سے کہا ہے کہ وہ شہریوں کو الفاشر، الدبیبات، العبید اور دیگر جنگ زدہ علاقوں سے بحفاظت نکلنے کی ضمانت دیں۔
تمام فریقین شہریوں اور شہری تنصیبات پر حملوں سے باز رہیں اور ہتھیار رکھ کر امن قائم کریںاقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے سوڈان کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ملکی تنازع کا پائیدار سیاسی حل نکالنے اور فریقین کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام یقینی بنانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آر ایس ایف
پڑھیں:
امریکا، ایران اسرائیل جنگ کا حصہ نہ بنے: روس کا ایک بار پھر انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس نے امریکہ کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں شامل نہ ہو۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ انتباہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ کے اس جنگ میں کودنے کے بارے میں مختلف خبریں اور موقف پیش کیے جارہے ہیں۔
روس ایران کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے، دونوں ملکوں کے درمیان گہرا تزویراتی اور فوجی تعاون و شراکت داری موجود ہے، ایران پر اسرائیلی حملوں کے باوجود روس نے اس تناظر میں ایران کو بظاہر کوئی مدد نہیں دی ہے، ولادی میر پیوٹن خود کو ایک ایسے ثالث کے طور پیش کر رہے ہیں جو خود جنگ کا حصہ بنا ہو۔
اب روس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جنگی ماحول میں نہ شامل ہو۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہروف نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
اس سے قبل ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے روسی ثالثی کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، ٹرمپ کا یہ ثالثی مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس پہلے اپنا یوکرین کے ساتھ جھگڑا ختم کرے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ٹرمپ کے روسی ثالثی کی تجویز مسترد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ پیش کش تو ان ملکوں کو کی گئی تھی جو اس جنگ کے براہ راست فریق ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق میڈیا رپورٹس صرف قیاس آرائیاں ہیں، لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ ایک تباہ کن پیش رفت ہوگی۔
یاد رہے کہ روس کی طرف سے یہ انتباہ پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے فون پر اس معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کی ہے۔
صدر پیوٹن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو دونوں رہنماؤں کی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد بریف کیا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ دشمنی کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی طریقوں سے کیا جانا چاہئے۔
صدر پیوٹن کا رات گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھاکہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی معاہدات ہونے کے باوجود ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد بھی روس سے کوئی فوجی مدد نہیں مانگی ہے، ہمارے ایرانی دوست نے اس بارے میں ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
اس سوال پر کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کیا جاتا ہے تو روس کا کیا رد عمل ہو گا، پیوٹن نے کہا کہ میں اس امکان کے بارے بات بھی نہیں کرنا چاہتا، اگر ایران نے انسانی بنیادوں پر روس سے کوئی مدد مانگی تو میں ضرور بھیجوں گا۔