Express News:
2025-09-23@01:22:27 GMT

پراکسی وار

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

’’پوری دنیا کے حالات خراب ہیں، پراکسیز چلا کر، پاکستان سے لے کر سعودیہ، شام، عراق، افغانستان، صومالیہ، لبنان اور بحرین تک کون دہشت گردی کروا رہا ہے؟‘‘

یہ اس کا کہنا تھا جو پاکستان سے دور سات سمندر پار رہتا ہے، اس سے پہلے بھی پراکسی وار کے بارے میں وہ عام سا، سیدھا سادہ کام کرنے والا بندہ اسی طرح کی باتیں کرتا تھا۔ فلسطین کے حوالے سے بھی اس کی رائے اسی طرح کی تھی۔ پاکستان سے باہر لوگ سیاست اور عالمی سیاست کے حوالے سے جو باتیں کرتے ہیں وہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہیں۔

ہم پاکستانی فطرتاً جذباتی اور جوشیلے لوگ ہیں، ہم دنیا والوں کے ان ہتھکنڈوں سے باخبر تو ہیں پر مانتے نہیں یا ماننا نہیں چاہتے، ہماری نظر میں جو بھی اسلامی ممالک کے خلاف کچھ کر رہا ہے وہ ہمارا بھی دشمن ہے۔ ہم اس کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھ کر آتے ہیں، پر یہ بھی ایک بڑی مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے چھوٹی طاقتوں پر براہ راست سختی کر کے، وار کرکے اپنا ہدف حاصل نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ساتھ لگا کر رکھنے والی غنڈہ قسم کی ریاستوں کو اس قسم کے کاموں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اب چاہے اس میں دہشت گردی کا عنصر ہو یا مذہبی انتہا پسندی۔

 آپ حالیہ چند بڑے دہشت گردی یا جنگی حملوں کی گہرائی کو دیکھیں تو آپ کو اس میں پراکسی وار کی تحریک نظر آئے گی۔ بڑی ریاستیں ان غنڈہ ٹائپ کی ریاستوں کو شکر بھر بھر کرکھلاتے ہیں جس سے انھیں طاقت کا ایسا نشہ چڑھتا ہے کہ وہ اپنے آقاؤں کو ہی سب کچھ سمجھ کر ان کے احکامات پر عمل کرنے چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس میں ہر طرح کی مراعاتی اور سیاسی مدد شامل ہے۔ ان کی اس طرح کی پراکسی وار میں مظلوم عوام کا بے انتہا نقصان ہوتا ہے اور ہو رہا ہے۔

پراکسی کا مطلب ہے سادہ الفاظ میں کہ کسی دوسرے کے ذریعے اپنا کام کروانا، لہٰذا پراکسی وار کا مطلب ہوا کہ اپنی جنگ دوسروں کے ذریعے لڑنا، اس میں لڑنے والا اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر اپنے آقا کا حکم اوکے کرتا ہے، اب اس میں اسے ہار ہوتی ہے یا جیت، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس جنگ میں دو ریاستیں نقصان اٹھاتی ہیں لیکن تیسری چھپی ہوئی طاقت یا ریاست محفوظ رہ کر اپنا مقصد حاصل کرلیتی ہے۔

آج کل پراکسی وار کے ماخذ کو جاننا یا پہچاننا مشکل نہیں رہا ہے، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر کوئی اپنی رائے، تبصرے اور متعلقہ وڈیوز شیئر کر کے اپنی جانب سے تو اپنی عقل مندی کا حق ادا کر کے داد وصول کر ہی رہا ہے، وہیں بہت سے خاموش بڑے سرکاروں کو سوچنے کے نئے انداز اور خیال فراہم کر رہا ہے۔

بہرحال دنیا میں ہونے والی آفات جن کا تعلق قدرت سے ہے، ہم اس پر واویلا کرتے ہیں لیکن انسانی ذہنوں کی سوچ سے ترتیب دی گئی آفات پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں کہ کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ براہ راست اسے روک دے۔ یہ نہ روکنے والا عمل کیسا ہے، کیا یہ بھی کسی پراکسی کا حصہ ہے اور ساتھ ساتھ چلنے والی قدرتی آفات، کیا ہمارے لیے الارم نہیں بجا رہیں کہ انسان زمین پر کس طرح فساد پھیلا رہا ہے، رک جا، باز آ جا، ہر انسان کی سوچ بس یہیں آ کر رک جاتی ہے۔

یہ پراکسی وار پاکستان ایک طویل عرصے سے برداشت کرتا آ رہا ہے جسے ہم افغانستان کی بربادی کے نام سے بھی پہچان سکتے ہیں، روس اور امریکا کے درمیان آمنے سامنے کی جنگ کے لیے میدان افغانستان کا چنا گیا تھا جس پر ایک عرصے سے روس کی نظریں تھیں،گرم پانیوں تک پہنچنے کی رسائی کی دوڑ نے انسانی اذیتوں کا ایک عہد لکھ ڈالا جو اس کے بعد سے آج تک رکا نہیں بلکہ کسی نہ کسی حوالے سے چل ہی رہا ہے۔

گزشتہ صدی سے جاری اس پراکسی وار کے اصل ہاتھ کون تھے، سب جانتے ہیں، پر چند ذہنوں کی زہریلی سوچ اور سیاست نے دنیا میں جو افراتفری اور ہنگامے اور قتل و غارت گری کی، نسلوں نے دکھ برداشت کیے، پاکستان کی سرزمین پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا ذمے دار کون ہے؟

حالیہ فلسطین کے حالات کے بارے میں پراکسی وار بظاہر جچتا نہیں کیونکہ یہ تنازعہ آج کا نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے چل رہا ہے، بہرحال انسانی المیہ اس قدر بڑھا کہ دنیا دہل کر رہ گئی لیکن قلیل فوج والے اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑا، اس کی پیٹھ تھپتھپائی گئی کیوں کہ قیمتی انبیائے کرام کی اس سرزمین کا مسئلہ عیسائی، یہود اور مسلمانوں کے درمیان جس مذہبی جذباتی نوعیت سے ابھرا تھا، بظاہر اسے پراکسی کا نام دینا درست نہیں لیکن قیامت کے آثار سمجھ آ رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی کا نتیجہ واضح ہے۔

پہلی جنگ عظیم طاقت کی خرمستی کی جنگ تھی، یہ کسی پراکسی کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ کھل کر آسٹریا، ہنگری، جرمنی، برطانیہ، روس، سربیا، فرانس نے لڑی، دوسری جنگ عظیم بھی ایسی ہی سرکش طاقت کی خام خیالی تھی۔ اس نے دنیا کو ایک نئے زاویے پر مرکوزکیا جس کے اثرات آج کی دنیا میں نظر آ رہے ہیں۔

ماضی کی بڑی جنگوں نے بڑی طاقتوں کو سکھایا کہ سامنے رہ کر وار کرنے اور سہنے سے بہتر ہے کہ پیچھے رہ کر چھوٹے چھوٹے پتوں سے کام چلایا جائے اور ایسا ہو رہا ہے۔ یہ کب تک چلتا رہے گا۔ کیا یہ پراکسی وارز ایک ملغوبہ سا بن کر کسی بڑے خطرے کا سگنل نہیں بجا رہا۔

یوکرین اور روس، اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی ایک جنگی صورت حال دنیا میں مختلف مقامات پر سلگا کر کسی خاص جانب اشارہ کیا جاتا رہا ہو یا نہیں پر ساری وہ نشانیاں واضح ہوتی جا رہی ہیں جو انسان کو بڑی تباہی کی جانب دھکیل رہی ہیں، جو قرآن مجید میں تحریر ہے۔

آزمائش اور سزا کے درمیان کیا رشتہ ہے، گہرائی میں جائیں تو دل دہل جاتا ہے۔ انسانی طاقت کا نشہ کس قدر عظیم ہو، قدرت کے فیصلے سے سرتابی نہیں کر سکتا۔ ساری دنیا اس اعلیٰ مرتبت ہستی کو جانتی ہے، مانتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے طریقے الگ الگ ہیں، سب اپنے تئیں اپنے آپ کو بالکل درست سمجھتے ہیں اور اسی اعلیٰ مرتبت کے احکامات سے منحرف ہو کر دنیا میں فساد ڈالنے والوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پراکسی وار پراکسی کا کے درمیان دنیا میں رہا ہے طرح کی کے لیے

پڑھیں:

سعودی عرب کیساتھ معاہدہ دنیا میں امن کا ضامن بنے گا: طاہر محمود اشرفی

چیئرمین پاكستان علماء كونسل حافظ طاہر محمود اشرفی—فائل فوٹو

چیئرمین پاكستان علماء كونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ پوری دنیا میں امن کا ضامن بنے گا، یہ اعزاز اللّٰہ تعالیٰ نے صرف پاکستان کو دیا ہے۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طاہر محمود اشرفی نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ بہت واضح ہے، اگر پاکستان پر حملہ ہو گا تو سمجھا جائے گا کہ حملہ سعودی عرب پر ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج سعودی عرب کے ساتھ مل کر حرمین شریفین کا دفاع کرے گی، جن لوگوں کو اس معاہدے سے تکلیف ہور ہی ہے ان کو کیا مسئلہ ہے، وہ اس قوم کو ایک ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔

حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ قطر کے اوپر بھی بمباری ہو جائے گی، جب بھارت نے ہم پر حملہ کیا تو دنیا خاموش تھی، پاکستان پر بھارت اور اسرائیل نے مل کر حملہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم فلسطین کانفرنس میں امت کا مؤقف پیش کریں گے، فلسطین کا وفد امریکا نہیں جا سکتا تو شہباز شریف فلسطین کا وفد ہیں۔

حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ نے کہا کہ افغانستان ہمارا بھائی ہے لیکن ان سے شکوہ تو کرنا بنتا ہے، افغانستان کی سر زمین سے آ کر کوئی خون بہائے تو گلہ تو بنتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین،دو ریاستی حل کے لیے ممکنہ راہیں
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر
  • ٹرمپ کے علاوہ دنیا میں ہمارا کوئی مددگار نہیں، صیہونی میڈیا
  • چوکیدار  
  • سعودی عرب کیساتھ معاہدہ دنیا میں امن کا ضامن بنے گا: طاہر محمود اشرفی
  • معاہدہ اور رومانوی دنیا!
  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • بجٹ خسارے کی کہانی
  • غزہ تباہی کی بدترین سطح پر، دنیا کو اسرائیل سے ڈرنا نہیں چاہیے: اقوام متحدہ