ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے صوبائی آرگنائزر کا مذمتی بیان میں کہنا تھا کہ امریکی حملے سے صرف 27 گھنٹے پہلے پاکستان کی حکومت نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا، اب وہی صدر اپنے اقدامات کو "امن کی کوشش" قرار دے کر ایران پر تباہ کن حملہ کر چکے ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ فیصلہ پورے خطے میں ایک وسیع جنگ کی چنگاری بن سکتا ہے اور دنیا بھر میں سفارتکاری پر سے اعتماد کو مزید ختم کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے صوبائی آرگنائزر علامہ قاضی نادر حسین علوی نے کہا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے ایران جیسے خودمختار ملک پر بلاجواز اور غیرقانونی فوجی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، خاص طور پر نطنز، فردو اور اصفہان میں واقع جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ایک نہایت سنگین اقدام ہے۔ یہ جارحیت بین الاقوامی قوانین اور ایران کی علاقائی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو بے شمار شہری جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے اور علاقائی و عالمی سلامتی کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ اس حملے کی غیرقانونی حیثیت پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد ممالک بارہا زور دے چکے ہیں۔

محفوظ جوہری تنصیبات کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک تباہ کن ریڈیائی ماحولیاتی تباہی کو جنم دے سکتا ہے، جس سے انسانیت اور ماحول دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کھلے تضاد سے مزید داغدار ہو گیا ہے۔ صرف چند روز قبل وہ سفارتی عمل کی حمایت کا دعوی کر رہے تھے اور دو ہفتے کی مہلت کا وعدہ کر رہے تھے، لیکن 48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ان کی انتظامیہ نے سفارتکاری کو خیرباد کہہ کر براہ راست جنگ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی وہ اسرائیلی فوجی منصوبہ بندی کی حمایت کر چکے تھے، جس سے ان کے کسی بھی امن منصوبے کی سچائی پر سنگین شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ حملے سے صرف 27 گھنٹے پہلے پاکستان کی حکومت نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا، اور اب وہی صدر اپنے اقدامات کو "امن کی کوشش" قرار دے کر ایران پر تباہ کن حملہ کر چکے ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ فیصلہ پورے خطے میں ایک وسیع جنگ کی چنگاری بن سکتا ہے اور دنیا بھر میں سفارتکاری پر سے اعتماد کو مزید ختم کر رہا ہے۔ میں پاکستان اور دنیا بھر کے تمام با ضمیر انسانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس غیر قانونی حملے کی کھل کر مذمت کریں۔ امریکہ، اسرائیل اور اس حملے میں شامل تمام عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سکتا ہے

پڑھیں:

اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی

9 ستمبر 2025 کو مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھرکشیدگی کی لہر دوڑگئی جب اسرائیل نے قطرکے دارالحکومت دوحہ میں فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے چند سینئر رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا، جن میں خلیل الحیہ کے بیٹے اور ان کے قریبی معاون بھی شامل تھے۔

اس واقعے نے خطے کے امن کو بری طرح متاثرکیا۔ اس واقعے کے سبب امریکا کے دہرے معیار اور سامراجی انداز پر انگلیاں اٹھیں۔ قطر نے اسرائیلی حملے کو قومی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا جو کہ سو فیصد درست ہے۔ قطری حکومت نے اسے کھلی ریاستی دہشت گردی قرار دیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدام پر فوری ایکشن لے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ اور الجزائر نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیلی حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ عرب لیگ نے اس حملے کو نہ صرف قطرکی خود مختاری پر حملہ بلکہ پوری عرب دنیا کے خلاف ایک جارحیت قرار دیا۔ 

اس سنگین صورتحال پر پاکستان نے ایک ذمے دار اور اصولی ملک کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور ایک خود مختار ریاست کی سالمیت کی پامالی کہا۔ وزیراعظم کا فوری دورہ قطر اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان، اسلامی ممالک کی خود مختاری اور سالمیت کے بارے میں ٹھوس موقف رکھتا ہے اور ان کے ساتھ قدم قدم پرکھڑا ہے۔ دوسری جانب یہ حملہ پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے کیونکہ اس میں امریکا کا دہرا معیار واضح ہوا ہے۔ امریکا، قطرکے ساتھ تجارتی معاہدات میں مصروف تھا جب کہ اسی دوران اسرائیل نے جارحیت دکھائی۔ جس پر دنیا کی سب سے بڑی ریاست کی نیت واضح ہوگئی ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ 

آج کل امریکا، پاکستان کی تعریفیں کرتا نہیں تھک رہا ہے۔ مسلسل پاکستان کے حق میں بیان دے رہا ہے، لٰہذا حالیہ واقعے سے پاکستان کو سبق لینا ہوگا کیونکہ امریکا جیسا نظرآتا ہے ویسا ہے نہیں۔ اس لیے پاکستان کو بہت محتاط ہوکر اپنے کارڈز کھیلنے ہوں گے،کیونکہ دھوکا دینا، امریکا کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور وہ اسے غیر اخلاقی بھی نہیں سمجھتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اس حملے کی مذمت ہوئی مگر امریکا نے اسرائیل کا نام لیے بغیر اس کی مذمت کی، جس سے دہری پالیسی کی نشاندہی ہوئی۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کو بلاجواز قرار دیا اور قطرکی خود مختاری کے حق میں موقف اختیار کیا، مگر عملی طور پر امریکا نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہے۔ 
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے قطر سے الجزیرہ نیوز چینل کی کوریج کو کم کرنے کی درخواست نے بھی امریکا کی دہری پالیسی پر سوالات اٹھا دیے۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ امریکا قطر کی داخلی آزادی میں مداخلت کر رہا ہے۔

قطرکی حیثیت خطے میں ایک معتدل ملک اور ثالث کے طور پر ہے جو حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے ساتھ رابطے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی حملے اور امریکا کے متضاد رویے نے قطر کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے جہاں وہ اپنے قومی مفادات اور علاقائی ذمے داریوں کے بیچ توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ مصر اور اردن نے خطے میں امن کی کوششوں کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا، جب کہ ایران نے اسرائیل اور امریکا کو خطے میں انتشار پھیلانے کا ذمے دار ٹھہرایا۔ عالمی برادری میں بھی اس حملے کے خلاف تشویش پائی گئی اورکئی ممالک نے اسرائیل سے اس کارروائی کی وضاحت کا مطالبہ کیا۔
یہ واقعہ عالمی طاقتوں کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔

اقوام متحدہ جیسے ادارے جب اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتے یا طاقتور ممالک کے دباؤ میں آ جاتے ہیں تو عالمی امن کے لیے خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نہ صرف خطے بلکہ عالمی معیشت اور توانائی کے ذخائر کو بھی سنگین نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

اسرائیل کا قطر پرحملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے دوسرے ممالک کی خود مختاری کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات عالمی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور امن کی کوششوں کو سبوتاژکرتے ہیں۔

عالمی دفاعی اور بین الاقوامی معاملات پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ پر حملہ ایک ’’ واضح پیغام‘‘ تھا کہ اسرائیل دوسرے عرب ممالک بالخصوص مصرکو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس تناظر میں مصری اپوزیشن رہنما طارق حبیب کا کہنا ہے کہ ریاض اور قاہرہ پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اسرائیل کھلی جارحیت پر آمادہ ہے اور امریکا اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ 

یہ صورتحال عالمی امن کے لیے مضر ہے۔ دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں انصاف، دوسرے ممالک کی خود مختاری اور امن کے اصولوں کو مقدم رکھیں، اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کو نظر اندازکیا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کے عمل کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے اور علاقے میں غیر یقینی صورتحال بڑھ سکتی ہے جو عالمی سطح پر سیاسی، اقتصادی اور انسانی بحران کو جنم دے گی۔
 

متعلقہ مضامین

  • وکلا کو وکیلوں کیخلاف کیسز میں نمائندگی سے روکنا آئین کی خلاف ورزی ہے، سندھ ہائیکورٹ
  • روسی جنگی طیارے 12 منٹ تک ہماری فضائی حدود میں رہے, اسٹونیا کا الزام
  • اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
  • روسی طیاروں نے 12منٹ تک فضائی حدود کی خلاف ورزی کی‘ اسٹونیا کا الزام
  • بھارتی حکومت کا سکھ یاتریوں کو روکنے کا اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار
  • حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیا رنہیں ڈالیں گے: ایرانی صدر کا ردعمل
  • ہندو اور سکھوں یاتریوں کو پاکستان آنے سے روکنے کا بھارتی اقدام مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار
  • آئی سی سی کا پی سی بی پر پروٹوکول کی خلاف ورزی کا الزام، معافی ویڈیو پر اعتراض
  • بھارت اکتوبر میں پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار؛ اعلامیہ جی سی سی اجلاس