اسلام آباد:

اپنے دوسرے سال میں ایس آئی ایف سی کی کاوشوں سے زراعت اور لائیو اسٹاک میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی کو فروغ دیا گیا۔

بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے عزم کے تحت دو لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر زمین کی بحالی عمل میں لائی گئی۔ کاشتکاروں کی رہنمائی کے لیے ”لِمز پاکستان” ویب سائٹ اور سیٹلائٹ سے فصل کی نگرانی کا جدید نظام متعارف کرایا گیا۔

"گرین پاکستان انیشیٹو” کے ذریعے جدید تحقیق، ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور لائیو اسٹاک لیب کے ذریعے اسمارٹ اور پائیدار زراعت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ 

مقامی اور عالمی سرمایہ کاروں سے اشتراک، وفاقی حکومت کی نگرانی میں "بی ٹو بی” ماڈل سے زراعت میں براہ راست سرمایہ کاری ممکن بنائی جارہی ہے۔

پچاس ہزار کینال کلومیٹر نہروں کی مرمت اور 15,300 میل طویل آبپاشی کے نیٹ ورک کی صفائی سے پانی کی منصفانہ ترسیل ممکن بنائی گئی۔ چھوٹے کسانوں تک براہ راست مالی رسائی ممکن بنانے کیلئے 1880 ارب روپے کے آسان زرعی قرض جاری کیے گئے۔

لائیو اسٹاک اور فشریز میں "جی سی ایل آئی” کے تحت جدید ٹیکنالوجی، آئی وی ایف، جینیاتی بہتری اور آبی زراعت کے منصوبے شروع کیے گئے جس میں چار سو ارب روپے کا زرعی ترقیاتی پیکج، کسان کارڈ، گرین ٹریکٹر، سولر پروجیکٹس اور 5 ارب کی جدید مشینری اسکیم شامل ہیں۔

اسمارٹ ایگری فارمز، گرین مالز اور ماڈل فارمز کا باقاعدہ افتتاح، ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور پریسیژن فارمنگ متعارف کرائی گئی۔ گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن، 250 ای روزگار مراکز، اور بلیو اکانومی سے 10 بلین ڈالر سالانہ آمدن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

 ایس آئی ایف سی کی موثر حکمت عملی سے پاکستان زرعی، لائیوسٹاک اور بلیو اکانومی میں جدید، خود کفیل اور برآمدات پر مبنی معیشت کی جانب گامزن ہورہا ہے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان

پڑھیں:

انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟

سندھ کے علاقے کھاروچھان کے گاؤں عبداللہ میر بہر سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ کھٹی اپنی والدہ کی قبر پر آخری دعا کرنے پہنچے تو ان کے قدموں تلے نمک کی سفید تہہ چٹخنے لگی۔ وہ اور ان کے اہلِ خانہ اب اس بنجر اور دلدلی زمین کو خیر باد کہنے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی عدم توجہی یا مافیا کا راج، کراچی میں ماحول دوست مینگرووز کا تیزی سے خاتمہ کیوں ہو رہاہے؟

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ڈیلٹا کا علاقہ، جہاں دریائے سندھ بحیرہ عرب سے جا ملتا ہے، تیزی سے سمندری پانی کے رحم و کرم پر آتا جا رہا ہے۔ زمین کھاری ہو چکی ہے، پانی پینے کے قابل نہیں رہا اور ایک قدیم طرز زندگی جو زراعت اور ماہی گیری سے جڑی تھی، قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔

حبیب اللہ کھٹی کہتے ہیں کہ ہم چاروں طرف سے کھارے پانی میں گھر چکے ہیں۔ کھاروچھان کبھی 40 کے قریب گاؤں پر مشتمل ہوا کرتا تھا مگر اب ان میں سے بیشتر سمندر کی نذر ہو چکے ہیں۔ سنہ 1981 میں یہاں کی آبادی 26 ہزار تھی جو 2023 میں صرف 11 ہزار رہ گئی۔

انسانی المیہ: لاکھوں لوگ بے گھر

پاکستان فشر فولک فورم کا کہنا ہے کہ اب تک ہزاروں خاندان انڈس ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ جِناح انسٹیٹیوٹ کی سنہ 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں میں 12 لاکھ سے زائد افراد اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

کھاروچھان اور کیٹی بندر جیسے علاقوں کے باسی اب کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں پہلے ہی معاشی مہاجرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

پانی کی کمی، زمین کی بربادی

دریائے سندھ کا پانی سنہ 1950 کے بعد سے 80 فیصد کم ہو چکا ہے جس کی بڑی وجوہات نہری نظام، پن بجلی کے منصوبے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے میں کمی ہیں۔

ایک امریکی-پاکستانی تحقیق کے مطابق سنہ 1990 کے بعد سے علاقے کے پانی میں نمک کی مقدار 70 فیصد تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کھیتی باڑی ناممکن ہو گئی ہے بلکہ جھینگے اور کیکڑے جیسی آبی حیات بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: تھرپارکر میں آسمانی بجلی اتنی زیادہ کیوں گرتی ہے؟

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مقامی ماہر محمد علی انجم نے کہا کہ ’ڈیلٹا اب ڈوب بھی رہا ہے اور سکڑ بھی رہا ہے‘۔

سفید نمک کی تہہ اور نایاب میٹھا پانی

کیٹی بندر میں زمین پر نمک کی سفید تہہ جمی ہوئی ہے۔ پینے کا پانی کئی کلومیٹر دور سے کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور لوگ اسے گدھوں پر گھر لے کر جاتے ہیں۔

حاجی کرم جت کاکہنا ہے کہ کون اپنی سرزمین چھوڑتا ہے؟ انہوں نے نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ’جن کا گھر سمندر کی بڑھتی سطح نگل چکا ہے اب وہ اندرون ملک ایک نئی جگہ بس چکے ہیں اور دوسروں کو بھی وہی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘۔

قدیم طرز زندگی کا خاتمہ

موسمیاتی کارکن فاطمہ مجید کہتی ہیں کہ انڈس ڈیلٹا کے ساتھ صرف زمین نہیں بلکہ ایک ثقافت بھی ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین جو نسلوں سے ماہی گیری کے جال بُنتی اور مچھلیاں صاف کرتی تھیں، اب شہروں میں روزگار کے لیے تگ و دو کرتی نظر آتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

فاطمہ نے کہا کہ ہم نے صرف زمین نہیں کھوئی، ہم نے اپنا رنگ، رسم اور رشتہ بھی کھو دیا ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ جن کا خاندان کھاروچھان سے کراچی کے مضافات میں منتقل ہو چکا ہے۔

سیاسی و عالمی خطرات

دریائے سندھ کا پانی صرف قدرتی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ بھارت، جس نے سنہ 1960 کا انڈس واٹر ٹریٹی ’منسوخ‘ کرنے کا اعلان کیا ہے، اوپری علاقوں میں ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو اعلان جنگ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پانی کی فراہمی مزید متاثر ہوگی۔

بحالی کی کوششیں: امید کی کرن؟

ماحولیاتی تباہی کے باوجود کچھ اقدامات بھی جاری ہیں۔ سال 2021 میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے ’لِونگ انڈس انیشیٹو‘ کا آغاز کیا جس کا مقصد انڈس بیسن کو بچانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مٹی کی زرخیزی بہتر بنانے، زراعت کو سہارا دینے اور ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کیا جا رہا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے مینگروو جنگلات کی بحالی کا ایک الگ منصوبہ بھی جاری ہے جو سمندری پانی کے خلاف قدرتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ایک طرف جنگلات لگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف لینڈ مافیا اور رہائشی منصوبے ان قیمتی علاقوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

انجام کے دہانے پر ایک خزانہ

دریائے سندھ جو تبت سے شروع ہو کر کشمیر اور پھر پاکستان کے طول و عرض سے گزرتا ہے، ملک کی 80 فیصد زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ اسی کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد کی زندگیاں، روایات اور روزگار اس دریا سے جڑے ہیں۔ مگر اب یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی بحران نہیں، بلکہ ایک قومی سانحہ بن جائے گا۔

ماہرین کے مطابق اگر پانی کی منصفانہ تقسیم، زمین کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی سانحہ نہیں بلکہ خطے کے استحکام کے لیے خطرہ بن جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈس ڈیلٹا ختم ہوتے گاؤں سمندر کھاروچھان کیٹی بندر

متعلقہ مضامین

  • جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا تسلسل
  • مخصوص نشتوں پر بحال ہونے والے 18 اراکان قومی اسمبلی کی لاٹری ؛71 لاکھ روپے ملنے کا امکان
  • زراعت شماری 2024: جدید ٹیکنالوجی اور شفافیت کے ساتھ 14 سال بعد تاریخی واپسی
  • مخصوص نشستوں پر بحال اراکین کو فی کس 58 لاکھ روپے ملنے کا امکان
  • مخصوص نشستوں پر بحال اراکین کو فی کس کتنے لاکھ روپے ملنے کا امکان ہے؟تفصیلات سب نیوز پر
  • ٹرمپ کی ٹیرف دھمکیاں؛ بھارت کی اسٹاک مارکیٹس زمین بوس
  • انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟
  • ایف اے او کا برطانیہ کے اشتراک سے افغانستان میں زرعی منصوبہ
  • دبئی کے معاشی مرکز میں پاکستان کو مفت زمین، پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی بھی معاف
  • آج زمین معمول سے زیادہ تیز گھومے گی! دُنیا میں تشویش کی لہر