اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سابق سفارتکار مسعود خان نےنجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کے کہنے پر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، انھوں نے کہا ایران کو یقین تھا امریکا اسرائیل کے ساتھ ملا ہوا ہے، یہ بات ثابت ہو گئی، سفارتکاری کو زیادہ موقع نہیں دیا گیا۔

سابق سفارتکار مسعود خان نےنجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی مسلسل کوشش تھی امریکا اس جنگ میں براہ راست شریک ہو، امریکا نے اسرائیل کے کہنے پر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، امریکا ایران کے خلاف متحارب قوم کےطور پر سامنے آیا ہے۔

مسعودخان نے کہا کہ ایران کو یقین تھا کہ اس جنگ میں امریکا اسرائیل کے ساتھ شامل ہے، اس حملے کے بعد اب یہ ثابت ہوچکا ہے، سفارکاری کو زیادہ موقع نہیں دیا گیا، امریکا اور ایران کے درمیان سفارت کاری کا آخری دور ہونا تھا، اس سے قبل ہی اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ اختلافات کے باوجود وہ کسی معاہدے کے قریب تھے، سفارتکاری کادوسرا دور جنیوا میں شروع ہوا، برطانیہ، فرانس، جرمنی کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے ممبران نے عراقچی سے مذاکرات کیے، تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے، ٹرمپ نے کہا کہ ایران یورپینزکے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا، ایران امریکا سے براہ راست بات کرنا چاہتا ہے۔

مسعود خان نے کہا کہ خدشات ہیں کہ جنگ زیادہ بڑھ سکتی ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان فضائی جنگ شدت نہ اختیار کر لے، کل آئی اے ای اے کا خصوصی اجلاس ہو رہا ہے، اجلاس میں ڈی جی آئی اے ای اے رافائل گروسی خطاب کریں گے، امریکا نے ایران کے 3 مراکز کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، امریکا نے ایران کی 3 جوہری تنصیبات فردو، نظنز اور اصفہان پر حملہ کیا۔

سابق سفارت کار نے مزید کہا کہ فردو کی بات کریں تو یہ معلوم نہیں کہ وہاں کون سا بم استعمال کیا گیا ہے، گورنر اصفہان اور مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ زیادہ تابکاری نہیں ہوئی، اگر یہ بیانات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ حملے بہت شدید نہیں تھے، بنکر بسٹر جس کا وزن تقریباً 14 ہزارکلو کے قریب ہوتا ہے وہ استعمال نہیں ہوا۔

مسعودخان نے کہا کہ ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام جوہری تنصیبات پہلے ہی منتقل کر دی تھیں، کیا سب کچھ اسرائیل کے پہلے حملے سے پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا؟ کیونکہ ایک ہفتے کے اندر ہزاروں سینٹری فیوجزاور یورینیم کو منتقل کرنا ممکن نہیں، اس وقت متضاد صورتحال اور بیانات سامنے آ رہے ہیں، ایرانی قیادت کے بیانات ہیں کہ امریکا اگر جنگ میں ملوث ہوا تو ان کے مراکز پر حملہ کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ امریکا کے عسکری مراکز کی تعداد 30 ہے، بیشتر مراکزعراق، شام، اردن سمیت دیگر خلیجی ممالک میں ہیں، امریکا کے اثاثے بحیرۂ احمر اور بحیرۂ عرب میں بھی ہیں، خیال ہے کہ ایران عرب ممالک میں موجود مراکز پر براہ راست حملے نہیں کرے گا، ان ممالک میں حملوں کی صورت میں ایران کے تعلقات عرب دنیا سے خراب ہو سکتے ہیں، حالیہ جنگ میں خلیجی ممالک نے اصولی سطح پر ایران کا ساتھ دیا ہے۔

مسعودخان نے یہ بھی کہا کہ ایران آبنائے ہرمز کو مشروط کر سکتا ہے، جس سے عالمی معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے، اس صورتحال میں عالمی منڈی پر اس کا بہت بڑا اثر پڑ سکتا ہے، ایران خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ایران کو امریکا کے ردعمل کو بھی دیکھنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیل کے ایران کے حوالے سے تین اہداف ہیں، امریکا اور اسرائیل ایران میں سیاسی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں، اسرائیل ایران کے جوہری طاقت اور میزائل کے ذخائر کو تباہ کرنا چاہتا ہے، قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ یہ ایران کو لیبیا کی طرح تقسیم کرنا چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ایران کو علاقائی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔
مزیدپڑھیں:اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں، اسحاق ڈار

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جوہری تنصیبات کہا کہ ایران اسرائیل کے چاہتے ہیں کہ امریکا امریکا نے نے کہا کہ پر ایران ایران کے ایران کو ہیں کہ

پڑھیں:

فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پیرس: فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میکرون نے کہا کہ یورپی طاقتوں کی مذاکراتی کوششوں کو ایران نے سنجیدگی سے نہیں لیا، اسی لیے رواں ماہ کے آخر تک پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق میکرون نے واضح کیا کہ ایران کی حالیہ تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں،ایران پر دوبارہ سے  پابندیاں بحال ہو جائیں گی کیونکہ ایران نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

خیال رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای 3) نے اگست کے آخر میں 30 روزہ مذاکراتی عمل شروع کیا تھا۔ یورپی ممالک کی جانب سے ایران کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی فراہم کرے، افزودہ یورینیم کی تفصیلات سامنے لائے اور امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تو پابندیوں کے عمل کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہےکہ  ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نےکہا تھا کہ تہران نے یورپی یونین اور ای 3 کو ایک “عملی منصوبہ” فراہم کیا ہے تاکہ بحران سے بچا جا سکے، یورپی سفارت کاروں کے مطابق اس منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی پیش ہوئی تھی جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کی جا سکتی تھیں لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس اس قرارداد کو ویٹو کر دیں گے۔

یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکا اور اسرائیل نے ایران کے یورینیم افزودگی پلانٹس پر حملے کیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے، حالانکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے واضح کیا تھا کہ اس دعوے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

بعد ازاں صورتحال میں تبدیلی آئی اور امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے اس فیصلے کو بعض حلقوں نے خطے میں تناؤ کم کرنے کی کوشش قرار دیا، جبکہ ناقدین کے مطابق یہ اقدام مغربی پالیسیوں میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔

امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے پابندیوں کے خاتمے کو “درست اور مثبت قدم قرار دیا، امریکا نے بالآخر حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔

ایرانی حکام نے کہا کہ وہ اب بھی مذاکرات اور تعاون کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ مغربی ممالک سنجیدگی دکھائیں۔

متعلقہ مضامین

  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • حد سے بڑھتے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ایرانی صدر
  • اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
  • ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کیجانب سے آئی اے ای اے کیساتھ معاہدے کو معطل کرنیکا اعلان
  • حالات بدلنے کی طاقت ہے، حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ایرانی صدر
  • پابندیوں کی واپسی ہوئی تو ایران ان پر قابو پا لے گا، ایرانی صدر
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہوسکی
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان