عینا آصف کو ثمر جعفری کے ساتھ جوڑی بنائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
ابھرتی ہوئی نوجوان اداکارہ و ماڈل عینا آصف نے کہا ہے کہ انہیں اپنے ساتھی اداکار ثمر جعفری کے ساتھ اسکرین پر جوڑی بنائے جانے پر کوئی پریشانی نہیں، کیونکہ وہ ان کے قریبی دوست ہیں۔
اداکارہ نے یہ گفتگو حال ہی میں صحافی حسن چوہدری کے شو میں شرکت کے دوران کی، جہاں انہوں نے فنی سفر، دوستی اور اپنی حالیہ کامیابیوں پر کھل کر بات کی۔
ڈراما سیریل ’پرورش‘ میں اپنی اداکاری پر گفتگو کرتے ہوئے عینا نے کہا کہ اس ڈرامے میں انہیں جو پذیرائی مل رہی ہے، اس کا اصل کریڈٹ ہدایتکار میثم نقوی کو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈراما ’مائے ری‘ کے دوران ہی میثم نقوی نے انہیں یہ سکھایا کہ ایک اچھا اداکار وہی ہوتا ہے جو اپنی ذاتی شخصیت سے ہٹ کر کردار میں مکمل طور پر ڈھل جائے، اور یہی بات انہوں نے ’پرورش‘ میں لاگو کی۔
عینا آصف نے وضاحت کی کہ ڈراما ’پرورش‘ بالخصوص Gen Z ناظرین میں مقبول ہورہا ہے کیونکہ اس کی کہانی نوجوانوں کے مسائل سے جڑی ہوئی ہے، جس سے نئی نسل خود کو جُڑا ہوا محسوس کرتی ہے۔
ثمر جعفری سے دوستی پر گفتگو کرتے ہوئے عینا نے بتایا کہ دونوں کے درمیان گہری دوستی ہے، جو صرف اسکرین تک محدود نہیں بلکہ ان کی فیملیز کے پرانے تعلقات پر بھی مبنی ہے۔ ان کے مطابق ان کی والدہ اور ثمر کی والدہ ایک ہی کالج کی طالبات رہ چکی ہیں، جس کی وجہ سے یہ تعلق مزید مضبوط ہے۔
عینا آصف نے کہا کہ اگر ان کی جوڑی کسی ایسے اداکار کے ساتھ بنائی جائے جس سے ان کی ذاتی سطح پر شناسائی نہ ہو، تو انہیں قدرے بے آرامی محسوس ہوتی ہے، مگر ثمر کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
ٹرمپ کے دباؤ کے آگے مودی حکومت بے بس ہے، ملکارجن کھڑگے
کانگریس کمیٹی کے صدر نے کہا کہ مودی حکومت کے پاس نہ کوئی حکمت عملی ہے، نہ کوئی پالیسی اور نہ ہی بحران سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستانی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان پر وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایکس پر جاری اپنے تفصیلی بیان میں ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ہندوستان کے قومی مفادات سب سے مقدم ہیں اور جو ملک ہماری اسٹریٹیجک خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، وہ دراصل اس فولادی مزاج کو نہیں سمجھتا جس سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ہندوستان نے غیر وابستہ تحریک کے نظریے کو ہمیشہ اپنایا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی خودمختاری کو قربان کئے بغیر بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو سنبھالا ہے۔ چاہے وہ امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کی دھمکی ہو یا ایٹمی تجربات کے بعد اقتصادی پابندیاں، ہندوستان نے ہر بار وقار اور خودداری کے ساتھ ان چیلنجوں کا سامنا کیا لیکن آج، جب ٹرمپ نے ہمارے اہم برآمداتی شعبوں پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے، تو مودی حکومت کی سفارتی ناکامی صاف نظر آ رہی ہے۔
ملکارجن کھڑگے نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر الزام لگایا کہ وہ امریکی دباؤ کے سامنے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق نومبر 2024ء میں جب ٹرمپ نے برکس ممالک پر 100 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دی اور برکس کو "ختم شدہ اتحاد" قرار دیا، اس وقت بھی مودی محض مسکراتے رہے۔ ملکارجن کھڑگے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹرمپ گزشتہ کئی مہینوں سے جوابی کی تیاری کر رہے تھے لیکن حکومت نے اس سنگین خطرے کے پیش نظر بجٹ میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔
کانگریس کمیٹی کے صدر نے نشاندہی کی کہ حکومت کے کئی وزراء امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے کرنے کے لئے مہینوں سے کوشش کرتے رہے، کئی مرتبہ واشنگٹن میں موجود رہے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ چھ ماہ کا وقت ملنے کے باوجود حکومت امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے میں ناکام رہی اور اب جب ٹرمپ کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں تو بھارتی وزیراعظم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملکارجن کھڑگے نے اعداد و شمار کے ساتھ بتایا کہ 2024ء میں ہندوستان نے امریکہ کو تقریباً 7.51 لاکھ کروڑ روپے کی مصنوعات برآمد کیں۔ اگر ان پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہوتا ہے تو یہ تقریباً 3.75 لاکھ کروڑ روپے کا اضافی مالی بوجھ ہوگا، جس کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، زرعی شعبے، دودھ، الیکٹرانکس، زیورات، دوا سازی، پٹرولیم مصنوعات اور کپڑوں کی برآمدات پر پڑے گا۔
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ مودی حکومت کے پاس نہ کوئی حکمت عملی ہے، نہ کوئی پالیسی اور نہ ہی بحران سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ کانگریس صدر کا کہنا تھا کہ اب مودی حکومت 70 سال پرانی کانگریس کو اس ناکامی کا موردِ الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتی، کیونکہ یہ خالصتاً موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت امریکی دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے اور اس سے ہندوستان کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔