میزانیہ اور زائچہ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 June, 2025 سب نیوز
تحریر: عرفان صدیقی
بجٹ منظوری کی مشق آخری مرحلے میں ہے۔ یکم جولائی سے نئے مالی سال کا میزانیہ روبہ عمل آ جائے گا۔ عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، صنعتی وتجارتی سرگرمیوں پر کیا گذرے گی، نیم جاں معیشت کس قدر توانا ہوگی، بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے ہم اپنے ماحول میں کتنی کشش پیدا کرسکیں گے، محصولات میں کتنا اضافہ ہوگا، داخلی اور خارجی قرضوں پر انحصار کس قدر بڑھے گا یا کم ہوگا، روزگار کے کس قدر مواقع پیدا ہوں گے، تعلیم وصحت جیسے شعبوں میں کس قدر بہتری آئے گی، مہنگائی کس قدر قابو میں رہے گی اور مجموعی طورپر پاکستان، گذرے مالی سال کی نسبت کس قدر بہتر دکھائی دے گا، اِن تمام باتوں کا انحصار گوناں گوں عوامل پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہبازشریف نے مشکل حالات میں ملک کی کمان سنبھالی اور اِس حقیقت کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی احوال وکوائف میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کو داخلی اور خارجی سطح پر اثرورسوخ رکھنے والے اداروں کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور حکومت کے درمیان گہرے تعاون اور اشتراکِ عمل کی صورت، باجوہ عمران، گٹھ جوڑ سے قطعی مختلف رہی۔ اس کے ثمرات مختلف شعبوں میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات کے باوصف ہوا جنہیں کسی طورپر بھی سازگار نہیں کہا جاسکتا۔ جیل میں ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کے سربراہ، پُرسکون پانیوں میں جوار بھاٹا اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آئی۔ایم۔ایف کو خطوط لکھتے اور 'ڈوزئیر' پیش کرتے رہے کہ پاکستان کو کوئی پائی پیسہ نہ دو۔ بین الاقوامی طورپر اُس کے دفاتر کے باہر مظاہرے منظم کراتے رہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر امریکی اور برطانوی پارلیمانوں تک، ہر موثر فورم کو پاکستان کے خلاف اُکساتے رہے، زور دار اپیلیں کرتے رہے کہ سمندر پار پاکستانی وطنِ عزیز کی تجوری میں کچھ نہ ڈالیں تاکہ زرمبادلہ کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا سرچشمہ، خشک ہوجائے۔ خیبرپختون خوا میں اپنی حکومت کے بل بوتے پر ہیجان پیدا کرنے اور طوفان اٹھانے کے منصوبے بناتے رہے۔ قفس کی سختیِٔ دیوار ودَر اعصاب پر اثرانداز ہونے لگی تو 'آر یا پار' کے انداز میں بھرپور عوامی احتجاج کے لئے فائنل کال دے ڈالی۔ پاکستان اس اعتبار سے خوش بخت نکلا کہ خان صاحب کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوا۔ آئی۔ایم۔ایف نے پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہوئے اقتصادی اشتراک وتعاون کا سفر جاری رکھا۔ سمندر پار پاکستانیوں نے سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے ترسیلات ِ زَرمیں ریکارڈ اضافہ کیا جو جلد 40 ارب ڈالر سالانہ کو پہنچنے والا ہے۔ نومبر2024 کی فائنل کال، مضحکہ خیز تماشا بن کر ہزیمت کی شرمناک داستان رقم کرگئی۔ عوام نے اپیل کو نظرانداز کردیا۔ انقلاب، اڈیالہ جیل کے پہلے حفاظتی جنگلے سے سرپھوڑتے ہوئے بے دَم ہوگیا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران دنیا بھی مضطرب رہی۔ روس یوکرین جنگ جاری رہی۔ غزہ کا قتلِ عام نہ رُک سکا۔ اسرائیل 'آدم بو، آدم بو' پکارتا ہوا دیوِ استبداد کی طرح ایران پر چڑھ دوڑا۔ سیاستدانوں اور ایٹمی سائنس دانوں کی ایک فہرست مرتب کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا۔ ایران کے پاس کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ بھی اپنی استعداد کے مطابق اسرائیل کو سبق سکھانے کی کوشش کرتا جو اُس نے کی اور بہت سے اندازوں سے کہیں بہتر کی۔ توقع کے عین مطابق امریکہ بھی اسرائیل کی بھرپُور سیاسی، سفارتی اور اقتصادی مدد کے بعد اُس کے اہداف کے حصول کے لئے، اِس جنگ میں شامل ہوگیا۔ یہ بارود خانہ کب ٹھنڈا پڑتا ہے، کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اِسی برس بھارت نے خطے میں بالا دستی کے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے کے لئے پاکستان پر حملہ کردیا۔ دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی پہلگام کے حوالے سے بھارت کا بیانیہ تسلیم نہیں کیا۔ خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھتی رہیں کہ کوئی ثبوت تو لائو لیکن مودی، اپنے سر پر فتح کی کلغی سجانے کے لئے، پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرچکا تھا سو وہ 7 مئی کو چڑھ دوڑا۔ فتح کی کلغی تو نہ سجی لیکن عبرت ناک ''شکست کا سیاہ داغ'' ہمیشہ کے لئے اُس کے ماتھے پر چپک گیا۔ اِس پانچ روزہ جنگ نے پاکستان کو سرخرو کیا اور اِس کے لئے نئے امکانات کے دریچے کھول دئیے۔ اندرونی اور بیرونی ارتعاش کے باوجود، استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اقتصادی صورت حال کی بہتری اور عوامی ترقی وخوش حالی کے ہدف کے حصول میں، مکمل نہ سہی، حکومت نے جزوی کامیابیاں ضرورحاصل کیں۔ کم ازکم پستی کی طرف لڑھکنے اور زوال پذیری کا راستہ ضرور روک دیا۔ آمدن اور اخراجات کے تخمینوں کی روشنی میں آنے والے بارہ مہینوں کے لئے ایک میزانیہ ضرور ترتیب دیا جاسکتا ہے لیکن داخلی صورت حال کیا کروٹ لیتی ہے اور خارجی سطح پر کیا نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں؟ اُن کا زائچہ مرتب کرنا مشکل ہے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں نے ہمارے پڑوس میں، ہماری سرحدی لکیر کے اُس طرف آتشکدہ دہکا دیا ہے۔ ایک بڑی جنگ ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیل کو بھارت کی شکل میں ایک نیا کارندہ بھی مل گیا ہے جو اس کشمکش میں کھُل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ نریندر مودی نے ایران پر حملوں کی رسمی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران دشمنی کے حوالے سے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ، 'پاکستان' دشمنی کی قدر مشترک بھی رکھتا ہے۔ سو وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان چوکنا رہے اور اپنے دوستوں کو بھی اس صورتِ حال سے پوری طرح باخبر رکھے۔ شرمناک شکست کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ مودی شدید داخلی دبائو میں ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی اُسے پَسپائی کا سامنا ہے۔ اُس کے اعصاب پر بڑھتا ہوا دبائو، خبث میں گندھے اس کے باطن میں کسی نئی مہم جوئی کی چنگاری سلگا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف تک، ایٹمی قوت کے حصول کی جدوجہد میں ہر سیاسی راہنما اور ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا حصہ ڈالا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کٹھن راستہ، بھارتی ایٹمی پروگرام کے تناظر میں چُنا۔ نوازشریف نے مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے بھی بھارتی دھماکوں کے ردّعمل میں کئے۔ ستائیس برس قبل، ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود تھیں۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد تاریخ بہ آواز بلند پکار رہی ہے کہ ہمارے راہنمائوں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ آج ہمیں بھارتی عزائم کے سبب اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی کرنا پڑا ہے اور اس بارے میں قوم متفق ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ میزانیہ، اعدادوشمار پر مبنی متوقع آمدنی اور اخراجات کا منصوبہ ہے۔ اُ س کی تکمیل اور کامیابی کا انحصار، گردوپیش کے حالات وواقعات پہ ہے جن کا زائچہ کوئی جوتشی نہیں بنا سکتا ہے۔ میزانیے اور زائچے کے اس رشتۂِ باہم پر مکمل نگہداری اور موثر حکمت عملی ہی ہمارا اصل امتحان ہوگا۔ آمدن اور اخراجات میں توازن کی طرح آج کی دنیا میں دوستوں اور دشمنوں کا تعین اور اعتدال و توازن قائم رکھنا بھی اہم ہے۔ خطّے میں نہایت تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی تبدیلیاں ایک بڑے ریکٹر سکیل کے زلزلے کی طرح، ملکوں کے باہمی تعلقات کو اُتھل پتھل کر رہی ہیں۔ ایسے میں کسی جنگ میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر، اپنے دامن کو آگ کے بھڑکتے شعلوں سے بچاتے ہوئے، دانشمندانہ اور حکیمانہ راستہ تراشنا تقاضائے وقت ٹھہرا ہے۔ اگر ہم تنی رسّی پر ہولے ہولے قدم دھرتے، کڑی آزمائش کا یہ کڑا وقت، گذارنے میں کامیاب ہوگئے تو داخلی استحکام، معیشت کی استواری اور ترقی وخوش حالی کے ارفع اہداف کا سفر بھی آسان ہوجائے گا اور اگر خدانخواستہ ذرا سا بھی توازن بگڑا تو سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریونان کافی کی شاندار تبدیلی: انسٹنٹ کافی سے عالمی طاقت تک مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے پی آئی اے کی پرواز، ماضی کی بلندیوں سے نجکاری کی دہلیز تکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
تیسری جنگِ عظیم کی طرف
گزشتہ دوچار مہینوں میں بین الاقوامی تعلقات میں تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے منظرنامے کا جائزہ لیں تو دوسری جنگِ عظیم کا آغاز بھی ایسے ہی ہوا تھا جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔اس سے پہلے جرمنی نے آسٹریااور چیکو سلواکیہ پر اپنا قبضہ جما لیا۔
برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا، اٹلی کے حکمراں مسولینی، جرمنی کے اتحادی تھے۔ ہٹلر اور مسولینی طاقت کے نشے میںچور تھے۔ جاپان، برطانیہ کے خلاف پیش پیش تھا۔ مسولینی نے 1936 میں جب کہ 1940 میں جاپان نے جرمنی سے اتحاد بنایا۔ 1940 کے دور میں برِصغیر میں کانگریس کی قیادت سبھاش چندر بوس جرمنی کے حمایتی تھے اور ہندوستان میں انگریز سامراج کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد کے حامی تھے۔ جاپانی افواج برما تک پہنچ گئی تھیں اور سبھاش چندر بوس کے ساتھ باغی متحرک تھے۔ انھیں دنوں میں سبھاش چندر بوس کانگریس کے صدر منتخب ہوئے بعدازاں ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ تاحال معمہ ہے۔
پہلی جنگ عظیم کی شروعات کالونیوں کی تکرار پر ہوئی تھی۔ برطانیہ کی کالونیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔کالونیوں کے شمار میں فرانس دوسرے نمبر پر اور اس کے بعد جرمنی اور بلجیم بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔ ٹھیک انھیں زمانوں میں جنگ کی وجہ سے جب یہ طاقتیں کمزور ہوئیں تو روس میں بالشویک انقلاب آیا۔ آسٹریا اور ہنگری کے شہزادوں کے ایک سربیائی قوم پرست کے ہاتھوں قتل نے بلآخر1914میں اس جنگ کو وسیع کردیا۔ اس جنگ کی وسعت میں جرمنی کے بادشاہ کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا بھی عمل دخل تھا۔
اس جنگ کے پھیلاؤ میں سلطنتِ عثمانیہ کا بھی ایک اہم کردار ہے۔
سلطنت عثمانیہ، جرمنی، ہنگری اور آسٹریا کے اتحاد میں تھی۔ اس اتحاد نے پہلی جنگِ عظیم میں شکست کھائی۔ سلطنت عثمانیہ کے اندر عرب، آرمینیا اور دیگر یونانی قوموں کے درمیان تضادات، اقرباء پروری، بے ایمانہ روایات اور بدعنوانیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کو اندر سے کمزورکر دیا۔ اسی بنیاد پر کمال اتاترک نے ترکیہ میں قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس سیکیولر ریاست کو پہلی بار طیب اردگان نے چیلنج کیا۔ اب لوکل باڈیز میں دوبارہ سیکیولرز جیت کر آئے ہیں، اب مزید کچھ سالوں میں ترکیہ کہاں ہو گا؟ یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔
1990 تک روس، سوویت یونین کی شکل میں دنیا کی عظیم طاقت تھا مگر ٹوٹ کر ریاستوں کی شکل میں بکھرگیا۔ یوکرین، ایسٹونیا، جارجیا، بیلا روس، کرغستان، لیٹویہ، مولڈووا، تاجکستان، ترکمانستان، آرمینیا، قازقستان، آذربائیجان وغیرہ۔
چین اس وقت دنیا کی سپر طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور جیسے جیسے چین مضبوط ہو رہا ہے، مغربی طاقتیں یا پھر امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ اب امریکا کی طاقت پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی جیسا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تھی۔ روس نے 2014 میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریمیا پر قبضہ کر لیا جوکہ یوکرین کا حصہ تھا۔ بین الاقوامی قوتیں روس پر پابندی نہیں لگا سکیں۔ پھر روس نے یوکرین پر حملہ کردیا اور یوکرین نے روس سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ آزاد ہوکر نہ ہی نیٹو اور نہ ہی یورپین یونین کا حصہ بنے گا۔ امریکا اور برطانیہ نے روس پر پابندیاں عائد کردیں مگر ہندوستان نے روس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس نے امریکا کے ساتھ بھی اپنے روابط جاری رکھے۔ اس منظرنامے میں روس نے اپنے تعلقات چین کے ساتھ مضبوط کیے۔ یوکرین، امریکا اور یورپین طاقتوں کے قریب رہا۔
کچھ ہی عرصے بعد حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا، ہواؤں کا رخ پلٹ گیا، اسرائیل نے غزہ کو تباہ کردیا، لبنان میں حزب اللہ کو نقصان پہنچا۔ اسی دور میں روس کا سب سے بڑا اتحادی شام، وہاں کے صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ ایران نے اسرائیل کا بھر پور جواب دیا اور جنگ رک گئی۔ اسرائیل نے ہندوستان کے ساتھ اتحاد جوڑا، اس اتحاد کا مقصد پاکستان کی ایٹمی طاقت کو ہدف بنانا تھا۔ ہندوستان کے عرب ممالک کے ساتھ بھی بہتر تعلقات تھے اور پاکستان کے تعلقات بھی عرب ممالک کے ساتھ نہایت خوشگوار ہیں۔ اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد تمام مسلمان عرب ریاستوں کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کا احساس ہوا اور اسرائیل کو اپنی اس غلطی کا شدید احساس بھی ہوا۔
حال ہی میں ہم نے سعودی عرب کے ساتھ بہت بڑا دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ تمام عرب ریاستیں بمع مصر اب اسرائیل سے نالاں ہیں۔ ہندوستان نے اچھے روابط عرب ریاستوں سے استوارکیے تھے اب کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں دنیا کی 142 ریاستوں نے آزاد فلسطین کی حمایت کی ہے۔ یورپین یونین بھی اسرائیل کی حمایت سے پیچھے ہٹتا ہوا نظرآرہا ہے،کیونکہ غزہ کے اندر جو ظلم و بر بریت اسرائیل نے ڈھائی ہے، کوئی ملک اس کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ عرب ریاستوں کا اسرائیل سے بائیکاٹ ہے۔ بس ایک ہندوستان ہی ہے جو اکیلا ہی روس کے ساتھ جنگی مشقیں کرتا نظر آ رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات پر جو ہندوستان کی دسترس تھی وہ اب نہیں رہی۔ چین کے خلاف امریکا نے آسٹریلیا اور جاپان کا اتحاد بنایا، وہ اتحاد بھی اب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔
چین بڑی تیزی سے ایک معاشی اور دفاعی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ امریکا اپنا وقار ٹرمپ کی قیادت میں کھو رہا ہے۔ انھیں زمانوں میں روس نے ایک ڈرون میزائل پولینڈ پر داغ دیا، جب کہ امریکا میں وینزویلا کے ساتھ جنگ کرنے کی مشقیں کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں چین نے SCO کے پلیٹ فارم پر طاقت کا مظاہرہ کیا جو اس دہائی کا سب سے بڑا ایونٹ ہے۔ اس موقع پر چین نے دنیا کے درجنوں سربراہوں کو مدعوکیا اور دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی برسی مناتے ہوئے امریکا کو یہ باورکروایا کہ اب چین کے ساتھ دنیا کے اکثریتی ممالک اتحاد میں ہیں۔ اس موقع پر شمالی کوریا کے صدر کو غیرروایتی اہمیت دی گئی جو کہ جنگی جنونیت میں اپنا ایک نام رکھتا ہے، جنھوں اپنی افواج کو روس میں یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا۔
حالات اس قدر خراب ہیں کہ آہستہ آہستہ جنگ کا بیانیہ اب بدل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا ایک بیان یہ آیا ہے کہ وہ بٹگرام کا ایئرپورٹ واپس اپنی تحویل میں لیں گے، وہ اس لیے کہ چین جہاں اپنا نیوکلیئر اسلحہ تیارکرتا ہے وہ اس جگہ سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے، اگر بڑی طاقتوں نے جارحیت کرتے ہوئے دوسرے ممالک پر حملے کیے تو چین بھی تائیوان کے اندر داخل ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت نیوکلیئر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
چین کی پالیسی کچھ عجیب سی رہی ہے، وہ سوویت یونین کی طرح امریکا کے خلاف کہیں بھی جنگی اڈے نہیں رکھتا اور نہ ہی چین نے غزہ میں اسرائیل کو خبردارکرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے، نہ ہی چین نے اس حوالے سے کبھی کوئی بیان دیا اور نہ ہی چین کی کبھی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ میں مداخلت کرے۔ چین کی اس پالیسی سے امریکا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے پہلے جو ریسرچ مضامین دنیا کے جریدوں میں چھپتے تھے، ان میں زیادہ تعداد امریکا کے سائنسدانوں اور ریسرچرزکی ہوتی تھی مگر اب پچھلے دو تین سالوں میں جو سب سے اہم دس ریسرچ مقالے چھپے ہیں، ان میں سے آٹھ چین سے ہیں اور ایک امریکا سے۔ چین کا تیزی سے ابھرنا یورپ کو پریشان نہیں کر رہا ہے مگر اس عمل سے امریکا کی تشویش دکھائی دے رہی ہے۔
یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے، پاکستان نے بڑے عرصے کے بعد ایک مقام اقوامِ عالم میں حاصل کیا ہے۔ افغان پالیسی کا خاتمہ کرنے کے بعد ایک ذمے دار ملک کی حیثیت میں ابھر رہا ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈا جاری رکھا ہوا تھا جس میں ان کو شکست ہو چکی ہے، آنیوالے انتخابات مودی کے لیے جیتنا مشکل ہوگا۔
ہم مشرقِ وسطیٰ کی اس تکرار میں تمام عرب ممالک کے ساتھ کھڑے تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی جنگ میں مداخلت کرنا، ہمارے لیے بہتر ثابت نہیں ہوگا، بلکہ اس کا فائدہ ہندوستان اٹھا لے گا اور کوئی ملک ہماری امداد اس طرح سے نہیں کر سکے گا جس طرح ہم ان کی اسرائیل کے معاملے میں کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے بہتر حل یہ ہے کہ ثالثی کے ذریعے ایسے تضادات کو واپس سال 2022 کی پوزیشن پر لایا جائے اور دنیا کو تیسری جنگِ عظیم کی طرف جانے سے بچایا جائے۔