میزانیہ اور زائچہ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 June, 2025 سب نیوز
تحریر: عرفان صدیقی
بجٹ منظوری کی مشق آخری مرحلے میں ہے۔ یکم جولائی سے نئے مالی سال کا میزانیہ روبہ عمل آ جائے گا۔ عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، صنعتی وتجارتی سرگرمیوں پر کیا گذرے گی، نیم جاں معیشت کس قدر توانا ہوگی، بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے ہم اپنے ماحول میں کتنی کشش پیدا کرسکیں گے، محصولات میں کتنا اضافہ ہوگا، داخلی اور خارجی قرضوں پر انحصار کس قدر بڑھے گا یا کم ہوگا، روزگار کے کس قدر مواقع پیدا ہوں گے، تعلیم وصحت جیسے شعبوں میں کس قدر بہتری آئے گی، مہنگائی کس قدر قابو میں رہے گی اور مجموعی طورپر پاکستان، گذرے مالی سال کی نسبت کس قدر بہتر دکھائی دے گا، اِن تمام باتوں کا انحصار گوناں گوں عوامل پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہبازشریف نے مشکل حالات میں ملک کی کمان سنبھالی اور اِس حقیقت کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی احوال وکوائف میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کو داخلی اور خارجی سطح پر اثرورسوخ رکھنے والے اداروں کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور حکومت کے درمیان گہرے تعاون اور اشتراکِ عمل کی صورت، باجوہ عمران، گٹھ جوڑ سے قطعی مختلف رہی۔ اس کے ثمرات مختلف شعبوں میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات کے باوصف ہوا جنہیں کسی طورپر بھی سازگار نہیں کہا جاسکتا۔ جیل میں ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کے سربراہ، پُرسکون پانیوں میں جوار بھاٹا اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آئی۔ایم۔ایف کو خطوط لکھتے اور 'ڈوزئیر' پیش کرتے رہے کہ پاکستان کو کوئی پائی پیسہ نہ دو۔ بین الاقوامی طورپر اُس کے دفاتر کے باہر مظاہرے منظم کراتے رہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر امریکی اور برطانوی پارلیمانوں تک، ہر موثر فورم کو پاکستان کے خلاف اُکساتے رہے، زور دار اپیلیں کرتے رہے کہ سمندر پار پاکستانی وطنِ عزیز کی تجوری میں کچھ نہ ڈالیں تاکہ زرمبادلہ کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا سرچشمہ، خشک ہوجائے۔ خیبرپختون خوا میں اپنی حکومت کے بل بوتے پر ہیجان پیدا کرنے اور طوفان اٹھانے کے منصوبے بناتے رہے۔ قفس کی سختیِٔ دیوار ودَر اعصاب پر اثرانداز ہونے لگی تو 'آر یا پار' کے انداز میں بھرپور عوامی احتجاج کے لئے فائنل کال دے ڈالی۔ پاکستان اس اعتبار سے خوش بخت نکلا کہ خان صاحب کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوا۔ آئی۔ایم۔ایف نے پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہوئے اقتصادی اشتراک وتعاون کا سفر جاری رکھا۔ سمندر پار پاکستانیوں نے سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے ترسیلات ِ زَرمیں ریکارڈ اضافہ کیا جو جلد 40 ارب ڈالر سالانہ کو پہنچنے والا ہے۔ نومبر2024 کی فائنل کال، مضحکہ خیز تماشا بن کر ہزیمت کی شرمناک داستان رقم کرگئی۔ عوام نے اپیل کو نظرانداز کردیا۔ انقلاب، اڈیالہ جیل کے پہلے حفاظتی جنگلے سے سرپھوڑتے ہوئے بے دَم ہوگیا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران دنیا بھی مضطرب رہی۔ روس یوکرین جنگ جاری رہی۔ غزہ کا قتلِ عام نہ رُک سکا۔ اسرائیل 'آدم بو، آدم بو' پکارتا ہوا دیوِ استبداد کی طرح ایران پر چڑھ دوڑا۔ سیاستدانوں اور ایٹمی سائنس دانوں کی ایک فہرست مرتب کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا۔ ایران کے پاس کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ بھی اپنی استعداد کے مطابق اسرائیل کو سبق سکھانے کی کوشش کرتا جو اُس نے کی اور بہت سے اندازوں سے کہیں بہتر کی۔ توقع کے عین مطابق امریکہ بھی اسرائیل کی بھرپُور سیاسی، سفارتی اور اقتصادی مدد کے بعد اُس کے اہداف کے حصول کے لئے، اِس جنگ میں شامل ہوگیا۔ یہ بارود خانہ کب ٹھنڈا پڑتا ہے، کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اِسی برس بھارت نے خطے میں بالا دستی کے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے کے لئے پاکستان پر حملہ کردیا۔ دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی پہلگام کے حوالے سے بھارت کا بیانیہ تسلیم نہیں کیا۔ خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھتی رہیں کہ کوئی ثبوت تو لائو لیکن مودی، اپنے سر پر فتح کی کلغی سجانے کے لئے، پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرچکا تھا سو وہ 7 مئی کو چڑھ دوڑا۔ فتح کی کلغی تو نہ سجی لیکن عبرت ناک ''شکست کا سیاہ داغ'' ہمیشہ کے لئے اُس کے ماتھے پر چپک گیا۔ اِس پانچ روزہ جنگ نے پاکستان کو سرخرو کیا اور اِس کے لئے نئے امکانات کے دریچے کھول دئیے۔ اندرونی اور بیرونی ارتعاش کے باوجود، استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اقتصادی صورت حال کی بہتری اور عوامی ترقی وخوش حالی کے ہدف کے حصول میں، مکمل نہ سہی، حکومت نے جزوی کامیابیاں ضرورحاصل کیں۔ کم ازکم پستی کی طرف لڑھکنے اور زوال پذیری کا راستہ ضرور روک دیا۔ آمدن اور اخراجات کے تخمینوں کی روشنی میں آنے والے بارہ مہینوں کے لئے ایک میزانیہ ضرور ترتیب دیا جاسکتا ہے لیکن داخلی صورت حال کیا کروٹ لیتی ہے اور خارجی سطح پر کیا نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں؟ اُن کا زائچہ مرتب کرنا مشکل ہے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں نے ہمارے پڑوس میں، ہماری سرحدی لکیر کے اُس طرف آتشکدہ دہکا دیا ہے۔ ایک بڑی جنگ ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیل کو بھارت کی شکل میں ایک نیا کارندہ بھی مل گیا ہے جو اس کشمکش میں کھُل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ نریندر مودی نے ایران پر حملوں کی رسمی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران دشمنی کے حوالے سے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ، 'پاکستان' دشمنی کی قدر مشترک بھی رکھتا ہے۔ سو وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان چوکنا رہے اور اپنے دوستوں کو بھی اس صورتِ حال سے پوری طرح باخبر رکھے۔ شرمناک شکست کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ مودی شدید داخلی دبائو میں ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی اُسے پَسپائی کا سامنا ہے۔ اُس کے اعصاب پر بڑھتا ہوا دبائو، خبث میں گندھے اس کے باطن میں کسی نئی مہم جوئی کی چنگاری سلگا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف تک، ایٹمی قوت کے حصول کی جدوجہد میں ہر سیاسی راہنما اور ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا حصہ ڈالا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کٹھن راستہ، بھارتی ایٹمی پروگرام کے تناظر میں چُنا۔ نوازشریف نے مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے بھی بھارتی دھماکوں کے ردّعمل میں کئے۔ ستائیس برس قبل، ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود تھیں۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد تاریخ بہ آواز بلند پکار رہی ہے کہ ہمارے راہنمائوں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ آج ہمیں بھارتی عزائم کے سبب اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی کرنا پڑا ہے اور اس بارے میں قوم متفق ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ میزانیہ، اعدادوشمار پر مبنی متوقع آمدنی اور اخراجات کا منصوبہ ہے۔ اُ س کی تکمیل اور کامیابی کا انحصار، گردوپیش کے حالات وواقعات پہ ہے جن کا زائچہ کوئی جوتشی نہیں بنا سکتا ہے۔ میزانیے اور زائچے کے اس رشتۂِ باہم پر مکمل نگہداری اور موثر حکمت عملی ہی ہمارا اصل امتحان ہوگا۔ آمدن اور اخراجات میں توازن کی طرح آج کی دنیا میں دوستوں اور دشمنوں کا تعین اور اعتدال و توازن قائم رکھنا بھی اہم ہے۔ خطّے میں نہایت تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی تبدیلیاں ایک بڑے ریکٹر سکیل کے زلزلے کی طرح، ملکوں کے باہمی تعلقات کو اُتھل پتھل کر رہی ہیں۔ ایسے میں کسی جنگ میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر، اپنے دامن کو آگ کے بھڑکتے شعلوں سے بچاتے ہوئے، دانشمندانہ اور حکیمانہ راستہ تراشنا تقاضائے وقت ٹھہرا ہے۔ اگر ہم تنی رسّی پر ہولے ہولے قدم دھرتے، کڑی آزمائش کا یہ کڑا وقت، گذارنے میں کامیاب ہوگئے تو داخلی استحکام، معیشت کی استواری اور ترقی وخوش حالی کے ارفع اہداف کا سفر بھی آسان ہوجائے گا اور اگر خدانخواستہ ذرا سا بھی توازن بگڑا تو سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریونان کافی کی شاندار تبدیلی: انسٹنٹ کافی سے عالمی طاقت تک مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے پی آئی اے کی پرواز، ماضی کی بلندیوں سے نجکاری کی دہلیز تکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان امن کیلیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، امریکا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد/واشنگٹن( مانیٹرنگ ڈیسک/ نمائندہ جسارت) امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیوکا وزیراعظم شہبازشریف کو فون ‘ ایران اسرائیل تنازع اور خطے میں امن کیلیے کردار ادا کرنے کی اپیل‘ وزیراعظم شہبازشریف کی خطے میں امن کیلیے بھرپور کردار ادا کرنے کی یقین دہانی‘ بحران کے پرامن حل کے لیے بات چیت اور سفارتکاری پر زور‘ امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان کی خطے میں امن کے لیے کوششوں کو سراہا اور کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے ذریعے خطے میں قیام امن میں کردار ادا کرتا رہے اور امریکا علاقائی اورعالمی امن واستحکام کیلئے پاکستان سے قریبی تعاون جاری رکھے گا۔جبکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی کے لیے فعال کردار ادا کرتارہے گا۔ وزیراعظم نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیااور انہوں نے پاک بھارت جنگ کا خطرہ ٹالنے پروزیرخارجہ روبیوکی سفارتی کوششوں کو سراہا۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق مثبت بیانات جنوبی ایشیا میں امن کیلئے حوصلہ افزا ہیں اور پاکستان بھارت سے تمام تصفیہ طلب امور پر بامعنی مذاکرات کیلئے تیار ہے ۔ان کا کہنا تھاکہ مقبوضہ کشمیر، سندھ طاس معاہدے، تجارت اورانسداد دہشتگردی پربھی بات چیت ہونی چاہیے۔وزیراعظم نے ایران اسرائیل بحران کے پرامن حل کی ضرورت پر زوردیا اور کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں امن کی ہرکوشش میں تعمیری کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کوتجارت، توانائی، آئی ٹی اور معدنیات میں تعاون بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کالعدم بی ایل اے، کالعدم ٹی ٹی پی اوردیگر شدت پسند گروہوں کیخلاف کارروائی جاری رکھنے کا عزم دہرایا اور کہاکہ پاکستان ملک بھر سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔وزیراعظم نے فیلڈمارشل عاصم منیرکی صدرٹرمپ سے ملاقات کو مثبت قراردیا۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان امریکا تعلقات کو عملی تعاون میں بدلنے پر اتفاق کیا گیا، جبکہ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو پاکستان کے دورے کی دعوت دہرائی اور امریکی وزیرخارجہ کوبھی جلد پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ادھرفیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی اور تعاون پرمبنی سیکورٹی فریم ورک کے فروغ میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا امریکا کا سرکاری دورہ جاری ہے جہاں انہوں نے امریکی تھنک ٹینکس اور اسٹریٹیجک امور کے نمائندوں سے ملاقات کی، آرمی چیف نے پاکستان کے اصولی مؤقف کو علاقائی اور عالمی معاملات پر اجاگر کیا گیا جبکہ آرمی چیف نے دہشت گردی سے متعلق پاکستان کے نکتہ نظر پر روشنی ڈالی۔۔فیلڈ مارشل نے کہا کہ بعض علاقائی عناصر دہشت گردی کو ہائبرڈ وار فیئر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں، پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صفِ اول پر رہا ہے، پاکستان نے ایک محفوظ دنیا کے لیے بے پناہ انسانی اور معاشی قربانیاں دی ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی اور تعاون پرمبنی سیکورٹی فریم ورک کیفروغ میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔آئی ایس پی آر کے مطابق شرکا نے آرمی چیف کے خیالات کی کھلے دل سے پیشکش اور وضاحت کو سراہا۔