غزل
کس کس کی سرشتوں میں وفا ساتھ چلے گی
سورج کی طلب لے کے گھٹا ساتھ چلے گی
ہم لوگ بھی تنہا نہیں ہونے کے کسی طور
ہم چل پڑے تو خلقِ خدا ساتھ چلے گی
تا مرگ نبھائے گا بھلا کون کسی سے
رستوں میں دِیا لے کے دعا ساتھ چلے گی
اے بزمِ خموشی میں زباں کھولنے والو
اب عمر بھر آپ اپنی صدا ساتھ چلے گی
وہ وقت ٹھہر جائے گا لمحوں کے سفر میں
جس وقت اُس آنچل کی ہواساتھ چلے گی
اب ذہن کا سودا ہے تو سمجھو کہ نہ جائے
یہ فصلِ جنوں خیز سدا ساتھ چلے گی
(حمزہ ہاشمی سوز۔لاہور)
.
غزل
وقت نے اور کبھی حالات نے پوری کر دی
اک تمنا جو طلسمات نے پوری کر دی
اب بھلے عذر تراشو کہ سلامت نہ رہا
رسمِ تریاق تو سقراط نے پوری کر دی
ایک ہی شے جو تصادم کا سبب ٹھہری تھی
ایک ہی شے جو مساوات نے پوری کر دی
مذہبِ عشق ازل سے ہے مکمل، تاہم
جو کمی باقی تھی بدعات نے پوری کر دی
مجھ سے درویش کی ہر ایک ضرورت فوراً
میں نے جب جب کہا جنّات نے پوری کر دی
پہلے ہی کم نہ تھی دیوارِ تعصب مابین
نوبتِ جنگ بیانات نے پوری کر دی
سر ورَق پر تو جھلکتا ہے خلاصہ شاہدؔ
غم کی تفصیل بھی صفحات نے پوری کر دی
(شاہد شوق۔ اسلام آباد)
...
غزل
عرش کے سینے پہ دیکھا چاند کو
پھر سوا نیزے پہ دیکھا چاند کو
اس نے ٹھوڑی کیا ٹکائی، سب کہیں
کل ترے کندھے پہ دیکھا چاند کو
روک دی تعمیر خود منڈیر کی
گھر کے جب نقشے پہ دیکھا چاند کو
کیا کہوں کیسے شبِ ہجراں میں نے
عشق کے روضے پہ دیکھا چاند کو
کت رہا ہے چاند پر چرخہ مگر
ہم نے اک چرخے پہ دیکھا چاند کو
شہر کا جغرافیہ آیا سمجھ
جب ترے کوٹھے پہ دیکھا چاند کو
آپ ہی ساگر ؔنہ آئے عید پر
آپ کے وعدے پہ دیکھا چاند کو
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)
...
غزل
آنکھ میں نم بڑا ضروری ہے
آپ کا غم بڑا ضروری ہے
اب برائے نمودِ زخمِ جگر
سبز موسم بڑا ضروری ہے
اک تعلق کے ارتقا کے لیے
ربطِ پیہم بڑا ضروری ہے
کارِ سود و زیاں چلانے کو
جسم میں دم بڑا ضروری ہے
زخم ناسور ہونے والا ہے
اب تو مرہم بڑا ضروری ہے
اور سہولت سے زیست کرنے کو
من کا محرم بڑا ضروری ہے
اک ندی نے کہا یہ دریا سے
’اپنا سنگم بڑا ضروری ہے‘
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)
...
غزل
آنکھوں کے سرخ رنگ سے انجان تو نہ تھی
شب بھر کے رتجگے سے پشیمان تو نہ تھی
دل میں مسرتوں کے وہ آداب بھر گئی
ورنہ وہ عیش کا کبھی سامان تو نہ تھی
رو رو کے اب جدائی میں برباد ہو گئی
ورنہ یہ دل کی بستی ویران تو نہ تھی
مجبوریاں تھیں جن سے ملنا محال تھا
وہ کیسے بھول جاتی نادان تونہ تھی
ہم نے چھپائے ایسے کہ وہ خود ہی بھر گئے
سرخی ہمارے زخم کی پہچان تو نہ تھی
ملنے اگر وہ آتی اسے کون روکتا
وہ راستے گلی سے بھی انجان تو نہ تھی
کرنیں تری بکھرتے جو دیکھیں تو چھا گئی
یہ چاندنی شہاب کی مہمان تو نہ تھی
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا،دیرلوئر،خیبرپختونخوا)
...
غزل
درد جو عطیۂ حوادث تھے
میری تشکیل نو کا باعث تھے
میرے اندر بسا تھا سناٹا
آپ جب مائلِ مجالس تھے
تھے سبھی پارسا مع تیرے
میرے اندر ہی سب نقائص تھے
میری روح تک کو کر گئے زخمی
میری تسکین کا جو باعث تھے
لوگ سدھرے نہ کیوں نزاکت ؔجی
شہر میں ان گنت مدارس تھے
(نزاکت ریاض۔ پنڈمہری، حسن ابدال)
...
غزل
پھیلا ہوا ہے خوف زمانے میں جابجا
ہے موت زندگی کے فسانے میں جابجا
جنگل کی آگ پھیلتی ہے جس طرح میاں
پھیلے گا راز ایسے بتانے میں جابجا
سب جانتے ہیں نام و نسب سب فریب ہے
پھر بھی لگے ہیں نام کمانے میں جابجا
دیکھا جلا کے خود کو محبت کی آگ میں
پنہاں تھا لطف جلنے جلانے میں جا بجا
ٹھکرا دیا ہو جن کو محبت نے یار وہ
پھرتے ہیں مارے مارے زمانے میں جا بجا
تو نے اجاڑ دی ہیں جو پل بھر میں بستیاں
صدیاں لگی تھیں ان کو بسانے میں جابجا
چرچے ہوئے ذرا سے ہمارے جو نام کے
ہلچل سی مچ گئی ہے زمانے میں جابجا
دیکھا حساب کر کے تو معلوم یہ ہوا
نقصان ہی رہا جی لگانے میں جا بجا
پڑھ کر کبھی تو دیکھ فسانہ حیات کا
موجود ہوں میں تیرے فسانے میں جابجا
جس کی خوشی عزیز رہی عمر بھر مجھے
راحل ؔوہی لگا ہے رلانے میں جا بجا
(علی راحل۔ بورے والا )
...
غزل
بڑوں کے پاس بیٹھا کر نظریاتی بنا دیں گے
یہاں اچھا بُرا کیا ہے تمہیں سب کچھ بتا دیں گے
مرے نزدیک کر دو اور چلے جاؤ یہاں سے تم
یہ پودے اُس کے گھر کے ہیں مجھے بالکل شفا دیں گے
نصیحت کر رہا ہوں پاؤں چھونا اور دعا لینا
الجھنا مت فقیروں سے تمہیں یہ بد دعا دیں گے
مرے بابا تمہارے حکم سے آگے نہیں کچھ بھی
وہ لڑکی ہے اُسے چھوڑو ہم اپنی جاں لٹا دیں گے
محمد کے نواسے ہیں انہیں معلوم ہے سب کچھ
لگا کر لا اِلا کا نعرہ سارا کچھ لٹا دیں گے
(عظیم کامل۔ جامپور)
...
غزل
چل دیا ہجرِ یار کا موسم
آ رہا ہے بہار کا موسم
دشت جاں میں برس رہی ہے آگ
سخت ہے انتظار کا موسم
راستے پر ترے ہیں آنکھ بچھائے
میرے ہوش و قرار کا موسم
جانے کیوں مجھ کو راس آنے لگا
وادی ٔکوہسار کا موسم
خشک ہوتا ہے گرم ہوتا ہے
دامنِ ریگ زار کا موسم
پھول پھل شاخ شاخ چمکیں گے
سبز ہے اعتبار کا موسم
میرے اندر پنپ رہا ہے وہی
ہے جو قرب و جوار کا موسم
اس کے دیدار کی گھڑی آئی
یعنی آیا خمار کا موسم
نور بادِ خزاں بکھیر گئی
ہر طرف انتشار کا موسم
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی)
...
غزل
آنکھوں میں بس گیا ہے ترا پھول سا بدن
جب سے نگاہ نے ہے چھوا پھول سا بدن
گھر کی فضائیں جیسے معطّر سی ہوگئیں
آنگن میں میرے جب یہ کِھلا پھول سا بدن
پھر محوِ رقص چاروں طرف تتلیاں ہوئیں
کاغذ پہ میں نے جب بھی لکھا، ’پھول سا بدن‘
بادِ سموم ایسی چلی اب کی بار تو
لمحات میں ہی سوکھ گیا پھول سا بدن
پھر انگلیوں سے میری اچانک مہک اٹھی
جب میری انگلیوں نے چھوا پھول سا بدن
وہ آمدِ بہار تھی یا خواب تھا کوئی
جھولی میں آکے جب تھا گرا پھول سا بدن
ہمراہ اُس کے ارض و سماوات چل دیے
انصر ؔجدھر جدھر وہ گیا پھول سا بدن
(راشد انصر۔پاکپتن، پنجاب)
...
غزل
اتنے سنجیدہ، وضع دار منافق ہوں گے
کب یہ سوچا تھا مرے یار منافق ہوں گے
میرے ہمدم، مرے صاحب نہیں سوچا تھا کبھی
آپ جیسے بھی کئی بار منافق ہوں گے
ہم چلے جائیں گے چپ چاپ تری محفل سے
اور پھر لوگ لگاتار منافق ہوں گے
دار پہ چڑھتے رہے عشق محبت والے
ہاں مگر اب کے سرِدار منافق ہوں گے
میرے قصے کو کوئی لکھے گا لکھنے والا
اور کردار کے کردار منافق ہوں گے
میرے تو یار منافق ہیں چلو اچھا ہے
پر تمہارے بھی سبھی یار منافق ہوں گے
میرے جیسا بھی کوئی فیضی ؔہے جس کے سارے
خیرخواہ، مونس و غم خوار منافق ہوں گے
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔پاکپتن)
...
غزل
ہمیں بے حد خوشی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
معطر زندگی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
تمھیں ہم دیکھ کر اپنی مناتے عید خوش ہو کر
فزوں تر بے خودی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
ابھی تو سرسری ہم مسکراتے ہیں، دکھاوا ہے
ہنسی کب سرسری ہوتی اگر تم عید تک رکتے
وہ جب تم عید میں سج کر ہمارے سامنے آتے
گھڑی وہ تھم گئی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
تمھاری زلفِ پیچاں میں مقید ہو کے خوش ہوتے
مسرت سرمدی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
نہیں ہم دیکھتے منظر کوئی ساگرؔ یہ وعدہ ہے
نظر تم پر جمی ہوتی اگر تم عید تک رکتے
(رجب علی ساگر۔ڈیرہ اسماعیل خان، پہاڑ پور)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منافق ہوں گے میرے بڑا ضروری ہے ا نے پوری کر دی پھول سا بدن تو نہ تھی کا موسم دیں گے
پڑھیں:
کراچی کے مختلف علاقوں میں بوندا باندی سے موسم خوشگوار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک )کراچی کے مختلف علاقوں میں صبح سویرے بوندا باندی کے بعد موسم خوشگوار ہوگیا، بوندا باندی اور ہوائیں چلنے سے گرمی کی شدت کم ہوئی ہے محکمہ موسمیات کے مطابق لیاری، ماڑی پور روڈ، کلفٹن سمیت اطراف کے علاقوں میں بوندا باندی ہوئی ہے جبکہ اب بھی شہر میں کراچی میں بادلوں کے ڈیرے اور مطلع ابر آلود ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق شہر کا موسم ابرالود رہے گا جبکہ دن کے اوقات اور کل بھی بوندا باندی کا امکان ہے اس کے علاوہ آئندہ 24 گھنٹے کے دوران مطلع جزوی ابر آلود رہنے کے ساتھ تیز ہوائیں چلنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔