واشنگٹن:

امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اس معاہدے کو طے کروانے میں براہ راست مداخلت کی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق امریکی میڈیا سے گفتگو کرنے والے بعض نامعلوم حکام کے مطابق قطر نے اس وقت ثالثی کا کردار ادا کیا جب امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز ایران تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

 ان حکام کے مطابق قطری وزیر اعظم نے ایرانی حکام سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، جو اُس وقت خاص طور پر اہمیت اختیار کر گیا جب ایران نے خطے میں امریکی فوجی اڈوں، بشمول قطر میں موجود اڈے، کو نشانہ بنایا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ قطر کی بات چیت کے بعد امریکہ کی تجویز کو سنجیدگی سے زیرِ غور لایا گیا اور جنگ بندی کی راہ ہموار ہوئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ عبرانی اخبار نے فاش کر دیا

صیہونی اخبار ہارٹز نے فاش کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کی پٹی میں ایک بڑای سیاحتی مرکز تعمیر کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے لہذا امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی قراردادیں ویٹو کر دیتا ہے تاکہ اس طرح نیتن یاہو کو غزہ کی مکمل تباہی اور وہاں کے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کرنے کا مناسب موقع فراہم ہو سکے۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اسرائیلی اخبار ہارٹز نے فاش کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قراردادیں بار بار ویٹو کر دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو رئیل اسٹیٹ کا مالک ہے اور اس کا کام ہاوسنگ اسکیمیں اور رہائشی پراجیکٹس کے ٹھیکے لینا ہے، غزہ میں مکمل تباہی اور وہاں مقیم فلسطینی شہریوں کی جبری جلاوطنی کے بعد ایک عظیم سیاحتی شہر کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے اور اس میں اسرائیلی فوجی افسروں کو بھی مفت گھر فراہم کرنے کا لالچ دیا گیا ہے۔ لہذا ایسے وقت جب غزہ میں گذشتہ چند سالوں سے جاری ظالمانہ اسرائیلی محاصرے اور دو سال سے زائد عرصے سے جاری فوجی بربریت کے نتیجے میں شدید قحط والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور لاکھوں بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے چھٹی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ غزہ کی پٹی میں نسل کشی انجام پانے کی تصدیق اقوام متحدہ کی انسپکٹر سمیت عالمی فوجداری عدالت بھی کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت غیر مشروط طور پر جرائم پیشہ اسرائیلی حکمرانوں کی بھرپور سیاسی، فوجی، سفارتی اور اقتصادی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔
 
صیہونی اخبار ہارٹز نے اس بارے میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بنجمن نیتن یاہو کو غزہ میں کھلی چھٹی دے رکھی ہے کیونکہ وہ اس علاقے میں سیاحتی مرکز تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے ٹرمپ نے فروری میں کہا تھا کہ وہ غزہ میں ایک لگزری ساحلی شہر ریویرا تعمیر کرے گا۔ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ ٹرمپ کا یہ بیان محض زبانی کلامی ہے اور فلسطین کے طویل تنازعہ کے تناظر میں باقی آرزووں اور خیالات کی مانند بہت جلد فراموشی کا شکار ہو جائے گا لیکن اب ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس پراجیکٹ میں سنجیدہ ہے۔ صیہونی اخبار ہارٹز نے "زمین سے غزہ کو محو کرنے میں اسرائیل کا مال غنیمت" کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھا ہے: "غزہ کو اسرائیلی افسران کی ہاوسنگ اسکیم میں تبدیل کرنے کے عظیم پراجیکٹ کی خاطر اب تک سینکڑوں اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں اور دوسری طرف دسیوں ہزار فلسطینی بھی مارے گئے ہیں۔" عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اس اخبار نے مزید لکھا کہ یہ پراجیکٹ دائیں بازو کے صیہونی وزیر سیکورٹی اتمار بن غفیر نے پیش کیا تھا جس کے تحت طے پایا تھا کہ غزہ کی پٹی میں تمام عمارتیں پوری طرح مسمار کر دی جائیں اور وہاں سے فلسطینیوں کو نکال باہر کر دیا جائے۔
 
مزید برآں ایک اور انتہاپسند صیہونی وزیر بیزالل اسموتریچ نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی کو خالی کروانے کے بعد اسرائیل کے مال غنیمت میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ اسموتریچ نے اس بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات انجام پانے کی اطلاع بھی دی تھی۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "بنجمن نیتن یاہو نے اب تک بیزالل اسموتریچ کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں فوجی کاروائی کے بارے میں جو پالیسی بیان جاری کیا ہے اس کا اصل اہداف سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کابینہ نے حماس کی نابودی اور یرغمالیوں کی آزادی کو اصل مقاصد کے طور پر بیان کیا ہے جبکہ پس پردہ سامراجی نوعیت کے عظیم اقتصادی منصوبے کارفرما ہیں۔" اس بات کا ایک اور ثبوت ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کئی ملین ڈالر پر مشتمل امدادی پیکجز کا لالچ دے کر اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرنا ہے وہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دیں تاکہ یوں غزہ سے انہیں ہمیشہ کے لیے جلاوطن کر دینے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کا صدر ٹرمپ کو خط؛ غزہ جنگ بندی کے لیے بڑی پیشکش کردی
  • زبانی جنگ کے بعد ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات، امریکی صدر نے تفصیل بھی بتادی
  • ٹرمپ کے بیانات سے لگتا بگرام ایئربیس امریکا کی مجبوری ہے، مسعود خان
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ عبرانی اخبار نے فاش کر دیا
  • چین کا اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟
  • پی ٹی آئی ارکان اور بعض ججز مشترکہ استعفوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی کا دعویٰ
  • ٹک ٹاک نے صدر بننے میں مدد دی‘ ٹرمپ کا اعتراف
  • طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا