پاکستان کا ایران اسرائیل جنگ بندی کا خیرمقدم، فریقین سے صبر و تحمل برقرار رکھنے کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر پاکستان کا مؤقف جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس امر پر زور دیتا ہے کہ فریقین مستقل اور پائیدار امن کے لیے تحمل، تدبر اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔
اپنے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہے۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ طاقت کے استعمال سے اجتناب اور سفارت کاری کے فروغ کے ذریعے ہی موجودہ تنازع کا پرامن حل نکالا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس ضمن میں عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی تمام مثبت کوششوں کی تائید اور حمایت کرتا رہے گا۔
پاکستانی ردعمل اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی طے پا گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایران اسرائیل جنگ پاکستان دفتر خارجہ ردعمل شفقت علی خان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل جنگ پاکستان دفتر خارجہ شفقت علی خان وی نیوز
پڑھیں:
ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کی تلقین کی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری پیغام میں کہا کہ ان کے لیے سب سے اہم ہدف یہی ہے کہ تمام عرب اور خلیجی ممالک اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا حصہ بنیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایران کی جوہری طاقت کو "مکمل طور پر تباہ" کر دیا گیا ہے تاہم امریکی صدر اس حوالے شواہد پیش نہیں کیے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اب اگر مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک معاہدات ابراہیمی میں شامل ہو جائیں تو خطے میں امن کا قیام ممکن ہے۔
یاد رہے کہ معاہدات ابراہیمی کا آغاز 2020 میں ٹرمپ کے پہلے دور میں ہوا تھا جب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے۔ بعد ازاں مراکش اور سوڈان نے بھی ایسا کیا تھا۔