111 افسروں کی گریڈ 20 ،21 میں ترقی، پوسٹنگ پلان بھی منظور
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
) پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروس پاکستان کے 111 افسروں کو گریڈ 20 اور21 میں ترقی دے دی گئی، وزیراعظم نے پوسٹنگ پلان کی بھی منظوری دے دی.
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام افسروں کے علیحدہ علیحدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیے،پی اے ایس کے گریڈ 21میں 12 اور گریڈ20میں49افسروں کو ترقی دی گئی جبکہ پولیس سروس پاکستان کے گریڈ21میں17اورگریڈ20میں 33افسروں کو ترقی دی گئی ہے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جن افسروں کو گریڈ 21 میں ترقی دی گئی ہے ان میں محمد عامر جان،کیپٹن ریٹائرڈ محمد ظفر اقبال، عظمت محمود خان، کیپٹن ریٹائرڈ محمد نواز نسیم، صولت ثاقب، نورین بشیر ، اسلام زیب، ڈا کٹر ساجد محمود چوہان اور ہمایوں خان شامل ہیں.
ہمایوں خان کا ترقی کے بعد انٹیریئر ا ینڈ نار کوٹکس کنٹرول ڈویڑن سے بطور ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویڑن تبادلہ بھی کر دیاگیاہے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 49افسروں کو گریڈ انیس سے گریڈ بیس میں ترقی دی گئی ہے ان میں محمد عمر مسعود ، نوشین ملک، حمیرا ا کرام، سید محمد افضل زیدی ،شاہدہ عبداللہ، نثار احمد میمن ، شاہ میر خان بھٹو، نثار احمد، ظہیر عباس،ڈاکٹر آصف طفیل، جاوید علی جاگیرانی، مس سارہ راشد، سہیل خان، دانش افضل ، عثمان خالد خان، محمد اجمل بھٹی، اسد علی خان، محمد ایاز ، شعیب خان جدون ، عبدالعامر خٹک، مریم کیانی، طلعت محمود، فلائٹ لیفٹیننٹ ریٹائرڈ عاصم ایوب، زبیر احمد چنا ، عمران حامد،کیپٹن ریٹائرڈ محمد انوارالحق ، نائلہ باقر، فضل خالد، محمد علی، صائمہ احد ، محمد حمزہ شفقات ، بینش فاطمہ ساہی ، سادات حسن ، صاحبزادی وسیمہ عمر ، محمد زمان، محمد شاہزیب خان، مزمل حسین،کرن خورشید، عمارہ خان، سلمان غنی، خاور کمال، شوزیب سعید ، محمد سلیم افضل اور عابد سلیم قریشی اپنی پرانی پوزیشنوں پر ہی تعینات رہیں گے.
جبکہ گریڈ بیس میں ترقی کے بعد آصف علی فرخ کاپنجاب سے بلوچستان ،عرفان اللہ کاخیبر پختونخوا سے بلوچستان، منظر جاوید علی کا پنجاب سے بلوچستان، طلحہ حسین فیصل کاپنجاب سے خیبر پختونخوا میں تبادلہ کر دیاگیااور جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن ماجد محسن پنہور کو کامرس ڈویڑن کے ڈسپوزل پردے دیاگیا.
پولیس سروس پاکستان کے 17افسروں کو گریڈ21میں ترقی دے دی گئی،جن میں سعد اختر، زعیم اقبال شیخ ، طارق چوہان ،خرم شکور،شہزادہ سلطان، وقار احمد چوہان، وسیم احمد خان، ذوالفقار لارک ، شرجیل کریم کھرل، شکیل احمد درانی ، اقبال داراداو’ ، سید خرم علی اور محمد جعفرترقی کے باوجود اپنی پوسٹوں پر ہی کام کرتے رہیں گے،البتہ گریڈ اکیس میں ترقی کے بعد آزادخان کاآئی بی سے بلوچستان ، محمد طاہرکاایف آئی اے سے خیبرپختونخوا ، عباس احسن کاایف آئی اے سے خیبرپختونخوا اورہمایوں بشیر تارڑکاتبادلہ پنجاب میں کر دیا گیا.
پولیس سروس پاکستان کے 33افسروں کو گریڈ20میں ترقی دے دی گئی جن میں فیصل بشیر میمن،، عصمت اللہ، فرخ علی، قاسم علی ، سہیل احمد شیخ ، آغاطاہر علاو’الدین ،میاں سعید احمد،حسن مشتاق سکھیرا ، عمر ریاض، شیراز نذیر، اسد سرفراز خان ، کیپٹن ریٹائرڈ محمدعلی ضیاء ، نجیب الرحمان بگوی، عمر فاروق سلامت ،صاحبزادہ بلال عمر، عامر عبداللہ خان نیازی، عرفان اللہ خان، مصطفیٰ حمید ملک،وزیر خان ناصر، برکت حسین کھوسہ، سجاد خان، شوکت علی کھٹیان اوراعتزازاحمد گورائیہ گریڈ بیس میں ترقی کے بعد بھی پرانے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے۔
جبکہ گریڈ20میں ترقی کے بعد محمد فواد الدین ریاض قریشی کاآئی بی سے پنجاب حکومت، محمدعلی نیکوکارا کا آئی بی سے پنجاب حکومت، عمران شوکت کا سندھ سے بلوچستان، جنید احمد کا سندھ سے بلوچستان، حسن اسد علوی کا آئی بی سے بلوچستان، محمد ہارون جوئیہ کا ایف آئی اے سے پولیس ، عمران شاہدکاخیبر پختون خوا سے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس،محمد قریش خان کاخیبر پختونخوا سے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس ، شاد ابنِ مسیح کاسندھ سے بلوچستان اور سید محمد عباس رضوی کا سندھ سے بلوچستان تبادلہ کردیاگیاہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پولیس سروس پاکستان کے میں ترقی کے بعد افسروں کو گریڈ سے بلوچستان
پڑھیں:
بھارت: ’آئی لو محمد‘ تنازعہ کیا ہے اور مسلمان احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) بھارت کے شہر کانپور میں اس ماہ کے اوائل میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران ’آئی لو محمد‘ (مجھے پیغمبر اسلام محمد سے محبت ہے) کے نعرے پر پہلی بار تنازعہ شروع ہوا تھا، جو اب ملک کی کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے اور مسلمان پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ہی جلوس بھی نکال رہے ہیں۔
ریاست اتر پردیش میں پولیس نے اس سلسلے میں گزشتہ روز بھی درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے سبب ہی اب اس معاملے پر سیاسی رہنماؤں اور مذہبی تنظیموں کی توجہ مبذول ہوئی ہے۔
آئی لو محمد پر تنازعہ کیوں؟’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘ جیسا نعرہ اچانک پورے ملک میں عوامی تحریک اور بدامنی کا باعث کیسے بن گیا؟
اس تنازعے کا آغاز ستمبر کے پہلے ہفتے میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران کانپور میں ہوا تھا۔
(جاری ہے)
جلوس کے دوران راستے میں ’آئی لو محمد‘ کا بھی ایک بینر لگایا گیا، جس پر مقامی ہندوؤں نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ ان تقریبات کے لیے روایتی طور پر استعمال ہونے والے مقام پر یہ ایک ''نئی روایت یا اصطلاح‘‘ متعارف کرائی جا رہی ہے۔اس موقع پر ہندوؤں کی جانب سے کی جانے والی شکایت پر پولیس نے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا کہ ملکی قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسم و رواج کو متعارف کرانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اسی لیے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
پولیس حکام کا موقف ہے کا مقدمہ ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینر کے خلاف نہیں بلکہ دو فرقوں کے درمیان اختلاف کے سبب درج کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد تنازعہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب ہندو اور مسلم دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر متنازعہ پوسٹرز پھاڑنے کا الزام عائد کیا۔ اس موقع پر بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ثالثی کی کوشش بھی کی تاہم جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
ایک ہفتے بعد کانپور پولیس نے 24 افراد کے خلاف ایک نیا رواج متعارف کرانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزام میں مقدمات درج کیے۔ مسلمانوں نے پولیس کی اس کارروائی پر جانب داری کا الزام عائد کیا اور مقامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔
اس پر رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بطور احتجاج ایک پوسٹ شیئر کی اور لکھا کہ ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ کہنا جرم نہیں ہے۔
انہوں نے پولیس کی کارروائی پر بھی تنقید کی، جس سے وسیع تر بحث چھڑ گئی۔پولیس کی کارروائی کے تناظر میں یو پی میں مسلم نوجوانوں نے جلوس نکالے جن میں مظاہرین ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دوران کچھ جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں پولیس نے پھر کئی مقدمات درج کیے اور گرفتاریاں ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے سختی برتنے کے خلاف مسلمانوں نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اتر پردیش کے مختلف اضلاع تک پھیل گیا اور اب یہ سلسلہ مہاراشٹر، اترا کھنڈ اور گجرات سمیت متعدد ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ تفریقی برتاؤ ہو رہا ہے اور مذہب کے نام پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کا ردعملسماج وادی پارٹی کے ترجمان ابھیشیک باجپئی کا کہنا ہے کہ پولیس کی ناکامی نے اس احتجاج کو جنم دیا ہے اور پارٹی نے اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چاہے وہ ’’میں رام سے محبت کرتا ہوں‘‘ ہو یا ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ سب کو اس کی آزادی ہونی چاہیے۔
بی جے پی کے ترجمان نے پولیس کی کارروائی کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ پولیس کو نشانہ بنانے یا قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے اس معاملے کو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کا معاملہ قرار دیا۔
دیگر مذہبی رہنماؤں نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے آئینی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔