برطانوی سائنسدانوں کا بڑا اقدام: بار بار اسقاطِ حمل کی وجوہات جانچنے والا نیا ٹیسٹ تیار
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
برطانیہ میں سائنسدانوں نے نئی تحقیق کی جو ان خواتین کی شناخت میں مدد دے سکتی ہے جن کے رحم کی اندرونی سطح (womb lining) میں غیرمعمولی تبدیلیوں کے باعث بار بار حمل ضائع ہو جاتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ان خواتین کے لیے نئی امید بن سکتی ہے جو برسوں سے اس اذیت سے گزر رہی ہیں۔
یونیورسٹی آف وارک کے محققین کے مطابق کچھ خواتین کے رحم کی جھلی وہ ردِعمل نہیں دکھاتی جو ایک صحت مند حمل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جب رحم جنین کو قبول کرنے اور اس کی پرورش کے لیے درکار تبدیلی نہیں کرتا، تو حمل ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیویارک کے کلرک کا اسقاط حمل کی دوا دینے والی ڈاکٹر پر جرمانے کی کارروائی سے انکار
اس تحقیق کے نتیجے میں ایک ٹیسٹ تیار کیا گیا ہے جو رحم میں ہونے والے ان ردِعمل کو جانچ سکتا ہے کہ آیا وہ مناسب ہیں یا نہیں۔ یہ ٹیسٹ اس وقت ٹامی کے نیشنل سینٹر فار مس کیرج ریسرچ میں آزمائشی بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے اور اب تک ایک ہزار سے زیادہ خواتین پر آزمایا جا چکا ہے۔ اس ٹیسٹ کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ کسی خاتون کا رحم حمل کے لیے موزوں ہے یا نہیں، تاکہ اس کے مطابق دوا تجویز کی جاسکے۔
چارلی بیٹی نامی ایک خاتون، جو 4 سالوں میں کئی بار ابتدائی حمل ضائع ہونے کے صدمے سے گزریں، اس ٹیسٹ سے فائدہ حاصل کرنے والی پہلی خواتین میں شامل ہیں۔ ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان کے رحم کا ماحول حمل کے لیے سازگار نہیں تھا۔ انہیں 3 ماہ تک ذیابیطس کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا اسٹاگلیپٹن دی گئی، جس کے بعد وہ کامیابی سے حاملہ ہوئیں۔ اب ان کی بیٹی جون 9 ہفتے کی ہوچکی ہے اور اُن کے لیے یہ سب کچھ کسی معجزے سے کم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دوران حمل شرح اموات میں خطرناک اضافہ ، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا
تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ مزید ایسی ادویات تلاش کی جائیں جو رحم کے اندرونی ردِعمل کو بہتر بنا سکیں، تاکہ بار بار حمل ضائع ہونے سے بچا جاسکے۔ اس وقت بیشتر ادویات حاملہ خواتین پر آزمائی نہیں جاتیں، جس کی وجہ سے ایسے علاج محدود ہیں۔
ماہرین امید کر رہے ہیں کہ اس ٹیسٹ کو مستقبل میں پورے برطانیہ میں عام کردیا جائے گا تاکہ ہر وہ خاتون جو اس مسئلے سے دوچار ہے، فائدہ اٹھا سکے۔ تاہم اس وقت کلینک میں جگہ محدود ہے اور مریضوں کو ٹیسٹ کے اخراجات خود برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس تحقیق کی روشنی میں اس ٹیسٹ کو قومی سطح پر مفت فراہم کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسقاط حمل برطانیہ خواتین طبی ماہرین یونیورسٹی آف وارک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ خواتین طبی ماہرین یونیورسٹی آف وارک اس ٹیسٹ کے لیے
پڑھیں:
جرمنی: نائٹ شفٹ میں کام سے بچنے کیلیے مریضوں کو نیند آور دوا دینے والا نرس مجرم قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن: جرمنی کے ایک اسپتال سے انسانیت سوز اور نہایت عجیب و غریب واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں ایک مرد نرس کو محض اپنی رات کی ڈیوٹی کے دوران کام سے جی چرانے کی خاطر مریضوں کو زبردستی سلانے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت نے اس نرس کے جرائم کو انتہائی سنگین نوعیت کا قرار دیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مجرم کو رہائی کی درخواست دینے کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نرس پر الزام تھا کہ اس نے رات کی شفٹ کو اپنے لیے پر سکون اور آرام دہ بنانے کی غرض سے زیر علاج مریضوں کو جان بوجھ کر خواب آور اور درد کم کرنے والی ادویات کی ضرورت سے زیادہ خوراکیں دیں۔
یہ نرس اپنی ذمہ داریوں سے بچنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس نے جن ادویات کا استعمال کیا، ان میں مارفین (Morphine) اور مِیڈازولم (Midazolam) جیسی طاقتور ڈرگز شامل تھیں، جنہیں عمر رسیدہ مریضوں کو زیادہ مقدار میں دینا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نرس کے اس ہولناک فعل کی وجہ سے 10 مریض اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 27 سے زائد دیگر مریضوں کی ہلاکت کی کوشش بھی کی گئی۔
عدالت نے ان شواہد اور جرائم کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔ مجرم کو نہ صرف عمر قید کی سزا دی گئی بلکہ عدالت نے اس کے جرم کو خاص سنگینی کا جرم قرار دیا، جس کا قانونی مطلب یہ ہے کہ نرس کو سزا کے 15 سال مکمل ہونے کے بعد بھی قبل از وقت رہائی کے لیے اپیل دائر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔