صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
جمعرات کی شام ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں شریک تھا۔ نوجوان اینکر خاتون نے بیجنگ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا ذکر کیا کہ بھارت کا رویہ نہایت نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ تھا، سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور بھارت میں امن قائم ہو پائے گا؟ میرا بے ساختہ جواب تھا کہ ایران اسرائیل جنگ نے تو پوری طرح یہ بات واضح کر دی ہے کہ امن صرف طاقت کے ذریعے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ انٹرنیشنل افیئرز کے اساتذہ اور ماہرین ہمیشہ سے یہ بات کہتے آئے ہیں، مگر یہ بات اتنی وضاحت اور صراحت سے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی جتنی اس جنگ سے واضح ہوئی۔
اگر ایران کے پاس کوئی اچھا دفاعی نظام ہوتا، مناسب ایئر فورس ہوتی، ففتھ جنریشن طیارے ہوتے تو جنگ کا نقشہ ہی کچھ اور بن جاتا۔ روس کا ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم اور روسی ففتھ جنریشن اسٹیلتھ طیارہ سخوئی ستاون (Su57)ہی ہوتا تو یہ جنگ مختلف انداز میں لڑی جاتی۔ پھر اسرائیلی طیارے یوں دندناتے ہوئے ایران پر آ کر بمباری نہ کرپاتے۔
اگر ایرانی ماہرین ایٹم بم بنانے میں اتنا زیادہ وقت نہ لگادیتے اور پاکستانی ماہرین کے نصف جتنی مہارت بھی دکھاتے تو نیوکلیئر طاقت ایران پر اسرائیل یا امریکا یوں ننگی جارحیت کرنے کا تصور بھی نہ کر پاتا۔ جیسا کہ شمالی کوریا کے معاملے میں ہو رہا ہے۔ نارتھ کوریا کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں، بین البراعظمی میزائل سے وہ لیس ہے اور ارادے کی قوت سے بھی مالا مال۔ اس لیے امریکا بھی اس حوالے سے خاموش ہے۔ اسے جرات نہیں ہورہی کہ شمالی کوریا پر جارحیت کا سوچ سکے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین امن بھی صرف طاقت کے توازن ہی سے قائم ہوگا۔ جب بھارت کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ پاکستان پر جارحیت انہیں بے پناہ مہنگی پڑ سکتی ہے، تب مودی جیساعاقبت نااندیش وزیراعظم اور اجیت دول جیسا غیر ذمہ دار نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بھی ہمت نہیں کر پائے گا۔ مئی کے پاک بھارت ٹکراؤ نے بھارت کو اچھا سبق سکھایا ہے، ہمیں مگر اپنی قوت میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ زیادہ تیز رفتار، زیادہ طاقتور، خطرناک میزائلوں سے لیس ہونا پڑے گا، روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں بھی فرق کم کرنا پڑے گا، تب ہی پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔
مجھے عظیم منگول سالار سوبدائی بہادر یاد آیا۔ سوبدائی بہادر منگولوں کے عظیم بادشاہ چنگیز خان کاسپہ سالار تھا۔ خانہ بدوش منگول لٹیرے تموجین سے خان اعظم چنگیز خان بننے تک کے سفر میں سوبدائی (بعض مورخین اسے سوبوتائی بھی لکھتے ہیں) کا سب سے اہم حصہ رہا۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سوبدائی چنگیز خان کا کمانڈر نہ ہوتا تو شاید منگول اس قدر حیران کن فتوحات نہ حاصل کرپاتے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟
سوبدائی نے بیس کے قریب بڑی جنگیں اور بے شمار لڑائیاں لڑیں، مگرکسی میں شکست نہیں ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ بطور کمانڈر(سالار) اس نے جس قدر علاقہ فتح کیا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ سوبدائی انتہائی زیرک اور شاطر جنگجو تھا۔اس نے عسکری تاریخ میں کئی نئی اور اچھوتی چالیں متعارف کرائیں۔ منگول لشکر کا سب سے اہم عسکری حربہ ’تولوغمہ‘ تھا۔
اس کا بانی بھی سوبدائی بہادر ہی تھا۔اہم معرکوں میں منگول لشکر جنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد پسپا ہونا شروع کر دیتا۔ مخالف سمجھتے کہ منگول شکست کھا کر بھاگ رہے ہیں۔ یوں وہ زیادہ جوش وخروش سے آگے بڑھ آتے۔ ادھر منگول لشکر کا درمیانی حصہ(قلب) پیچھے ہٹ جاتا، مگر دونوں بازو اپنی جگہ پر قائم رہتے۔ جب مخالف فوجی خاصا آگے آجاتے تو پیچھے ہٹنے والے منگول سپاہی پلٹ کر حملہ کر دیتے،اس کے ساتھ ہی دونوں بازو بھی دشمن لشکر کو گھیرے میں لے لیتے۔ اس حربے سے منگولوں نے کئی بڑی فوجیں تباہ کیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود منگولوں کے زوال کا باعث بھی یہی حربہ بن گیا۔ اسلامی تاریخ کے ایک بے مثل جنگجو بیبرس نے اسی حربے کو خود منگولوں پر استعمال کر کے عین جالوت کے مقام پر ہلاکو خان کے سالار قط بوغا کو شکست دی۔ منگولوں کو 38برسوں میں ملنے والی یہ پہلی شکست تھی۔ منگول اس کے بعدسنبھل نہ سکے۔ پھر منگولوں کی اگلی نسل خود مسلمان ہوگئی اور نقشہ ہی بدل گیا۔
سوبدائی کا ذکر ہو رہا تھا، اس نے چین اور مشرقی یورپ میں شاندار فتوحات حاصل کیں۔اس نے پولینڈ اور ہنگری کی فوجوں کو صرف 2 دنوں میں تباہ وبرباد کر دیا۔ سوبدائی بیک وقت 2،3 معرکوں کی ہدایات دینے کی شہرت رکھتا تھا۔منگول کہتے تھے کہ سوبدائی پر چالیں دیوتاؤں کی جانب سے اترتی ہیں۔ چنگیز خان کے بعد اس کا بیٹا اوغدائی خان اعظم بنا۔ روس،بلغاریہ اوردوسرے علاقوں پر حملہ کے لیے اس نے منگول شہزادے باتو خان (چنگیز خان کے سوتیلے بیٹے جوجی کے بیٹے) کی رہنمائی کے لیے سوبدائی کو بھیجا۔ سوبدائی اس وقت بوڑھا ہونے کے ساتھ اس قدر موٹا ہوچکا تھا کہ گھوڑے پر بیٹھنا نا ممکن نہیں رہا۔منگولوں میں گھوڑی کے دودھ کی شراب پینے اور بے تحاشا گوشت کھانے کی وجہ سے گٹھیا کا مرض عام تھا۔ سوبدائی کی بھی پنڈلیاں سوج چکی تھی، اس کے لیے پیدل چلنا یا گھڑ سواری مشکل تھی۔ اس کے باوجود باتو خان سوبدائی کو ایک رتھ میں بٹھا کر ساتھ لے گیا تاکہ جنگ کے دوران سوبدائی کی شاطرانہ چالوں سے فائدہ اٹھا سکے۔
مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا
اوغدائی کے بعد اس کا بیٹا قویوق خان اعظم بنا۔ اس نے سوبدائی کو بلا بھیجا۔ سوبدائی نے پیرانہ سالی کے باعث مستعفی ہونے کی درخواست کی تو نوجوان قویوق نے تجربہ کار سالار سے پوچھا کہ سوبدائی بہادر! میں فیصلہ سازی میں کمزور ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ میرا عظیم دادا کیا کرتا تھا؟
سوبدائی بہادر نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ترچھی آنکھوں سے خان اعظم قویوق کو دیکھا اوراپنی روایتی صاف گوئی سے، جس کی وہ شہرت رکھتا تھا، بولا، ’خان اعظم چنگیز خان کے پوتے اورخاقان اوغدائی کے بیٹے، مجھے تمہاری بات سن کر خوشی نہیں ہوئی۔ یاد رکھو بادشاہ کبھی اپنے فیصلوں میں گومگو کا شکار نہیں ہوتے۔ مستقبل کے اندیشوں اور ممکنہ خطرات سے گھبرانا سپاہیوں کو نہیں تاجروں کو زیب دیتا ہے۔ تمہارے دادا کے فیصلوں کے پیچھے اس کی قوت کارفرما تھی۔ چنگیز خان کا عزم فولادی اور اہداف واضح تھے، مگر یہ سب اس کی تربیت یافتہ فوج اور جنگی چالوں کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ خان اعظم کے بے شمار دشمن تھے۔ خود منگولوں میں سے کئی سردار اس کے مخالف تھے۔اس کے باوجود خان کبھی بھی سازشوں سے نہیں گھبرایا۔ میری عمر بھر کا تجربہ یہ بتاتا ہے صرف وہی قوم ناقابل شکست ہوسکتی ہے جس نے خود کو حالات کے تقاضوں کے مطابق مضبوط اور طاقتور بنائے رکھا، اپنے دشمن پر نظر رکھی اور ایسی تربیت یافتہ فوج تیار کی جو دشمن کو میدان جنگ میں شکست فاش دے سکے۔ تم بھی ایسا کرو تو اپنے دادا جیسی عظیم کامیابیاں ملیں گی‘۔
سوبدائی بہادر نے مشورہ تو دے دیا، مگر خاقان قویوق میں وہ یکسوئی نہیں تھی۔ وہ باتو خان سے جنگ میں الجھ گیا اور پھر منگولوں کی حکومت اس کے گھر سے نکل کر چنگیز خان کے دوسرے بیٹے چغتائی کی نسل میں چلی گئی۔یوں قویوق کے بعد منگو خان خاقان بن گیا۔ مشہور منگول سردار ہلاکو خان اسی منگو خان کا چھوٹا بھائی تھا۔
اپنے آپ کو طاقتور اور مضبوط بنائے رکھنا ہی مستقل اور دیرپا امن کی یقین دہانی ہے۔ یہ بات امیر تیمور کی بہت دلچسپ آپ بیتی ’میں تیمور ہوں‘ پڑھ کر بھی سمجھ آتی ہے۔ امیر تیمور ایک شاندار جنگجو اور دانا شخص تھا۔اس کی سوانح پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اپنے تمام تر مظالم اور شخصی کمزوریوں کے باوجود وہ ایک غیر معمولی شخص تھا۔ امیر تیمور کا مشہور قول ہے کہ کمزوری یا طاقت کوئی الگ شے نہیں۔ مخالف کی کمزوریاں کسی شخص کو طاقتور بنا دیتی ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی کمزوری دشمن کو طاقتور بناتی ہے۔
تیمور نے اپنی سوانح میں ایک دلچسپ قصہ لکھا۔ تیمور منگول نہیں بلکہ تاتاری تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کے دور میں یہ اصول طے ہوا کہ حکمران منگول ہوں گے اور تاتاری وزیر ہوں گے، امیر تیمور نے البتہ یہ اصول بدل ڈالا اور وہ بے شمار فتوحات حاصل کر کے بادشاہ بن بیٹھا۔ تاتاریوں کا یہ بے مثل سورما کہتا ہے کہ ایک بار میں نے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کو اپنی دلہن بنایا۔ شادی کے بعد میں کوئی سال بھر گھر میں رہا۔ میری زندگی کا یہ واحد حصہ ہے،جس میں میں نے کوئی معرکہ نہیں لڑا۔ ایک دن میں ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں کھالوں کے نرم بستر پر لیٹا ہوا تھا میری نٖظردیوار سے لٹکی تلوار پر پڑی۔ یہ تلوار میں نے خاص طور پر کئی دھاتوں کے امتزاج سے بنوائی تھی جو ہلکی ہونے کے ساتھ نہایت تیز دھار تھی۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں اسے زنگ نہ لگ گیا ہو۔ جب اسے اتار کر میان سے نکالاتو مجھے وہ خاصی بھاری لگی۔ میں حیران ہوا کہ تلوار رکھے رکھے بھاری کیسے ہوگئی؟پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ تلوار بھاری نہیں ہوئی بلکہ میں اتنا عرصہ ورزش اور عسکری مشق نہ کرنے سے کمزور ہو گیا ہوں۔ میں نے اسی دن اپنے اہل خانہ کو ثمرقند بھیج دیا اور لشکر کو لے کر اگلے معرکے کے لیے روانہ ہوگیا۔
امیر تیمور منگولوں سے نفرت کرتا تھا۔ وہ خود کو چنگیز خان سے بڑا سالار گردانتا تھا،مگر وہ منگول قائد کے ایک قول کو ہمیشہ دہراتا تھا کہ ”سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔بہادری،جرات اور دلیری کاراستہ، جسے مضبوط عزم ہی سے عبور کیا جا سکتا ہے۔
ایران اسرائیل جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنائے رکھنا ہوگا۔ اپنے مخالف اور دشمن سے ٹیکنالوجی میں برتری لینا ہوگی۔ ایران نے تمام تر مسائل کے باوجود اپنے بہترین میزائل پروگرام کی وجہ سے دشمن کو نقصان پہنچایا،اسے زخمی کیا اور اس قدر تھکایا کہ خودامریکی صدر یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا کہ ایران نے اسرائیل کی آخری دنوں میں خاصی پٹائی کی۔ ایران نے جو غلطیاں کیں، ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔ جو اس کے مثبت پہلو سامنے آئے، انہیں اپنانا بلکہ مزید بڑھانا چاہیے۔
ترکیہ نے بھی اس جنگ سے ایک سبق سیکھا کہ صرف اینٹی میزائل سسٹم ہی کافی نہیں۔ ترکیہ نے روس سے ایس چارسو دفاعی نظام لینے کی خاطر امریکا کے ساتھ ایف 35 طیارے کے مشترکہ پروگرام سے نکل جانا قبول کر لیا تھا۔ آج ترکیہ کو بھی احساس ہوا کہ ایف 35 جیسے ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے سے محروم رہنا کس قدر بڑا نقصان تھا۔ اطلاعات کے مطابق ترکیہ نے پھر سے ایف 35 طیارے کے پروگرام میں شرکت کی درخواست کی ہے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے اس معاملے میں امریکی صدر ٹرمپ سے بھی بات کی ہے اور انہیں امید ہے کہ ترکیہ کو ایف 35 طیارے کے پروڈکشن پراجیکٹ میں شامل کر لیا جائے گا، جس کے بعد ان کے پاس بھی یہ بہترین ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے آ سکیں گے۔
مزید پڑھیں: کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟
پاکستان کو بھی انہی خطوط پر اپنے ہتھیار مزید تیزاور شاندار بنانے ہوں۔ ایک عقلمندی ہم نے کی ہے کہ چین کے ساتھ جدید ترین طیارے، اواکس اور اینٹی میزائل سسٹم کی ڈیل کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایران کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار اہم اور مثبت رہا۔ جنگ بندی کی کوششوں میں ہم شامل رہے۔ پاکستان ماضی میں بھی چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک دفاعی تعلقات کے باوجود امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ بیلنسنگ ایکٹ آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو داخلی سطح پر بھی سیاسی استحکام لانا ہوگا۔ وہی قوم دشمن سے لڑ سکتی ہے جو اندر سے متحد ہو۔ امید کرنی چاہیے کہ ہمارے منصوبہ ساز اپنے دفاع کو مضبوط ترین اور ناقابل شکست بنانے کے ساتھ سیاسی تقسیم کم کرنے اور سیاسی و معاشی استحکام لانے کی طرف بھی توجہ کریں گے۔ تب ہمارے دشمن کو ان شاءالله ہمیشہ خاک ہی چاٹنا پڑے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
امیر تیمور اوغدائی پاک بھارت امن پاک بھارت تنازع چنگیز خان سوبدائی شنگھائی تعاون تنظیم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امیر تیمور اوغدائی پاک بھارت امن پاک بھارت تنازع چنگیز خان شنگھائی تعاون تنظیم سوبدائی بہادر چنگیز خان کے ففتھ جنریشن امیر تیمور کے باوجود قائم ہو دشمن کو کے ساتھ ہونے کے سے بھی کے بعد کے لیے یہ بات ہوا کہ خان کا
پڑھیں:
پاکستان کا مقدر عالمی طاقت بن کر ابھرنا تھا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور سعودی عرب نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک پر ہونے والا حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ایک خبر کے مطابق پانچ مزید مسلم ممالک اور ایک غیر مسلم ملک بھی اس معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر فی الحال اس معاہدے کو پاکستان اور سعودی عرب تک بھی محدود سمجھا جائے تو یہ کوئی معمولی معاہدہ نہیں ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کو ایٹمی چھتری اور پاکستان کو معاشی چھتری فراہم ہوگئی ہے۔ اب اگر اسرائیل سعودی عرب کو نشانہ بنائے گا تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا اور اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ کرے گا تو سعودی عرب پاکستان کی ڈھال بن جائے گا۔
تجزیہ کیا جائے تو اس معاہدے نے اُمت مسلم میں پاکستان کی مرکزیت کو نمایاں کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان پوری امت مسلمہ کا قائد بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس مرکزیت کو نمایاں کرنے میں دو واقعات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلا واقعہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست فاش ہے۔ اس جنگ سے ذرا پہلے سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک پاکستان کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بھارت کے حملے کا جواب نہ دے کیونکہ بھارت پاکستان سے پانچ گنا بڑی طاقت ہے مگر جنرل عاصم منیر نے نظریہ پاکستان کی روح کے اعشاریہ ایک فی صد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت پر جوابی حملہ کرکے اس کے 6 طیارے مار گرائے۔ اس جنگ میں بھارت پاکستان کا کوئی بڑا نقصان نہ کرسکا۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ اسرائیل نے امریکا کے اتحادی قطر پر حملہ کیا اور امریکا نہ صرف یہ کہ اس حملے کو نہ روک سکا بلکہ اس نے اطلاع ہونے کے باوجود قطر کو اس حملے سے قبل از وقت آگاہ نہ کیا۔ چنانچہ سعودی عرب سمیت خلیج کی تمام ریاستوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ امریکا قابل بھروسا اتحادی نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیں اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے زیادہ قابل اعتماد اتحادی کی ضرورت ہے اور یہ اتحادی پاکستان کے سوا کون ہوسکتا ہے۔ اسی لیے کہ اس کے پاس ایٹم بم بھی ہے اور 2700 کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل بھی ہیں۔ سعودی عرب خلیجی ریاستوں میں سب سے اہم ملک ہے۔ چنانچہ امکان یہ ہے کہ دوسری خلیجی ریاستیں بھی آج نہیں تو کل پاکستان کی جوہری چھتری کے سائے میں آکھڑی ہوں گی اور پاکستان بجا طور پر پوری امت کا محافظ بن کر ابھرے گا۔
پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پاکستان اتنا غیر معمولی ملک تھا کہ اس کا مقدر ایک عالمی طاقت بن کر ابھرنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا نظریہ غیر معمولی تھا۔ پاکستان کو قائداعظم جیسی غیر معمولی شخصیت کی قیادت میسر تھی اور پاکستان کی پشت پر دلی اور یوپی کے عظیم مسلمانوں کا غیر معمولی اخلاص کھڑا ہوا تھا۔ پاکستان کے نظریے کے غیر معمولی ہونے کی بات مذاق نہیں۔ پاکستان کا نظریہ اسلام تھا اور اسلام نے ریاست مدینہ کو وجود بخشا تھا۔ اسلام نے خلافت راشدہ کے تجربے کو خلق کیا تھا۔ 20 ویں صدی میں اسلام کے نام پر پاکستان کا مطالبہ ناممکن کی جستجو تھا۔ مسلمانوں کو ایک طرف وقت کی سپر پاور یعنی برطانیہ سے مقابلہ درپیش تھا جو پاکستان تخلیق نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی مخالفت کا سامنا تھا مگر پاکستان کے نظریے نے دنیا کی واحد سپر پاور برطانیہ کو بھی رام کرلیا اور پاکستان کے نظریے نے ہندو اکثریت سے بھی پنجہ آزمائی کرکے دکھا دی۔ یہ نظریے کی طاقت تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ایک ’’قوم‘‘ میں ڈھال دیا۔ اس قوم کے لوگ اس سے پہلے فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم تھے۔ لسانی وحدتوں میں منقسم تھے۔ مگر پاکستان کے نظریے نے تمام اختلافات کو تحلیل کردیا اور برصغیر کے مسلمان ایک قوم بن کر کھڑے ہوگئے۔ ایک زمانہ تھا کہ قائداعظم ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے۔ اسلام نے انہیں دیکھتے ہی دیکھتے دوقومی نظریے کا علمبردار بنادیا۔ تحریک پاکستان کے آغاز سے پہلے قائداعظم ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے۔ نظریہ پاکستان نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنادیا۔ تخلیق پاکستان کی جدوجہد میں خود قائداعظم کی صلاحیتیں بھی غیر معمولی ہوگئیں۔ قائداعظم کہ سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے قائداعظم کے بارے میں یونہی نہیں کہا کہ ایسے لوگ بہت کم ہوئے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ تبدیل کیا ہے۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدلا ہے اور ایسا تو شاید کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ قائداعظم کی غیر معمولی شخصیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ 1940ء کی دہائی میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی اور کہا کہ اگر فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیں تشدد سے بھی کام لینا پڑا تو ہم لیں گے۔ قائداعظم کو دلی اور یوپی کے مسلمانوں سے اتنی محبت تھی کہ قیام پاکستان کے بعد کسی نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں قائداعظم سے کہا کہ پاکستان بن گیا ہے تو مسلمانوں کی ساری قیادت پاکستان آگئی ہے اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ’’Leader Less‘‘ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے قائداعظم سے پوچھا کہ کیا آپ آج بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔ قائداعظم نے کہا کہ اگر مسلم لیگ کا یہ اجلاس ایک قرار داد منظور کرلے تو میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان میں آباد ہوجائوں گا اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کروں گا۔ خود بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا معاملہ یہ تھا کہ انہیں پہلے دن سے معلوم تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود انہوں نے تحریک پاکستان میں تن، من، دھن سے کام کیا اور اپنی زندگی اور مستقبل دائو پر لگادیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کا قیام دلّی اور یوپی کے مسلمانوں کا خواب تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اقبال سے بہت پہلے یوپی کے دارالحکومت لکھنو سے تعلق رکھنے والے ممتاز ناول نگار اور افسانہ نویس عبدالحلیم شرر نے 1890ء میں اپنے رسالے ’’دل گداز‘‘ کے صفحات پر بھارت کے شمالی علاقوں میں ایک الگ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام کی دوسری تجویز خیری برادران نے 1917ء میں پیش کی۔ یہ بھی اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے 13 سال پہلے کی بات ہے مگر عبدالحلیم شرر اور خیری برادران کی تجاویز عوام کی توجہ نہ حاصل کرسکیں۔ لیکن جب اقبال نے 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں ایک علٰیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تو اسے خواص و عوام دونوں کی توجہ حاصل ہوگئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی پشت پر نظریہ بھی بڑا تھا۔ قائداعظم کی قیادت بھی غیر معمولی تھی اور دلّی اور یوپی کے لوگوں کا ’’اخلاص‘‘ بھی مثالی تھا۔ چنانچہ پاکستان کو عظیم ہونا ہی چاہیے تھا۔
آپ ذرا سوچیے تو اگر پاکستان اپنے نظریے کے عین مطابق ایک ’’خدا مرکز‘‘ ریاست ہوتا تو کیا وہ 20 ویں اور 21 ویں صدی میں پوری امت کا قائد اور دنیا کی ایک بڑی طاقت نہ ہوتا؟ آپ ذرا غور کیجیے اگر پاکستان ’’رسول مرکز‘‘ اور ’’قرآن مرکز‘‘ ریاست ہوتا تو کیا وہ 21 ویں صدی میں پوری امت کا رہنما نہ ہوتا اور کیا وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت نہ ہوتا۔ اگر پاکستان حقیقی معنوں میں خلافت ِ راشدہ کو اپنے لیے نمونۂ عمل بناتا تو کیا وہ 20 ویں اور 21 ویں صدی میں پوری امت کا رہبر اور دنیا کی ایک بڑی طاقت نہ ہوتا؟ اگر پاکستان قرآن کی ہدایت کے مطابق ایک ’’علم مرکز‘‘ ریاست ہوتا تو کیا 20 ویں اور 21 ویں صدی میں پاکستان علم کے دائرے میں پوری امت کیا پوری انسانیت کی قیادت نہ کررہا ہوتا؟ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکتا۔ پاکستان کے جابر، آمر اور غاصب جرنیلوں نے 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرکے پاکستان سے وابستہ تمام خوابوں اور تمام امکانات کو کچل دیا۔ بجائے اس کے کہ پاکستانی جرنیل ہندوستان فتح کرتے، انہوں نے اپنی ہی قوم کو بار بار فتح کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ 1958ء سے آج تک جاری ہے۔ بدقسمتی سے جرنیلوں نے جو سیاست دان پیدا کیے وہ بھی جرنیلوں کی طرح بونے بلکہ بالشتیے تھے۔ چنانچہ ان سیاست دانوں نے بھی پاکستان کو امت کا قائد اور ایک بڑی عالمی طاقت بنانے کے لیے کچھ نہ کیا۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جنرل عاصم منیر نے آمر اور غاصب ہونے کے باوجود ہندوستان سے جنگ میں نظریۂ پاکستان کے اعشاریہ ایک فی صد پر عمل کیا تو نہ صرف ہندوستان کو شکست ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب پاکستان کی جوہری چھتری کے نیچے آکھڑا ہوا۔ پاکستان کے حکمران پاکستان کے نظریے کے 50 فی صد پہ بھی عمل کرلیں تو پاکستان کو عالمی طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔