WE News:
2025-11-10@19:11:01 GMT

  صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

جمعرات کی شام ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں شریک تھا۔ نوجوان اینکر خاتون نے بیجنگ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا ذکر کیا کہ بھارت کا رویہ نہایت نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ تھا، سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور بھارت میں امن قائم ہو پائے گا؟ میرا بے ساختہ جواب تھا کہ ایران اسرائیل جنگ نے تو پوری طرح یہ بات واضح کر دی ہے کہ امن صرف طاقت کے ذریعے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ انٹرنیشنل افیئرز کے اساتذہ اور ماہرین ہمیشہ سے یہ بات کہتے آئے ہیں، مگر یہ بات اتنی وضاحت اور صراحت سے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی جتنی اس جنگ سے واضح ہوئی۔

اگر ایران کے پاس کوئی اچھا دفاعی نظام ہوتا، مناسب ایئر فورس ہوتی، ففتھ جنریشن طیارے ہوتے تو جنگ کا نقشہ ہی کچھ اور بن جاتا۔ روس کا ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم اور روسی ففتھ جنریشن اسٹیلتھ طیارہ سخوئی ستاون (Su57)ہی ہوتا تو یہ جنگ مختلف انداز میں لڑی جاتی۔ پھر اسرائیلی طیارے یوں دندناتے ہوئے ایران پر آ کر بمباری نہ کرپاتے۔

اگر ایرانی ماہرین ایٹم بم بنانے میں اتنا زیادہ وقت نہ لگادیتے اور پاکستانی ماہرین کے نصف جتنی مہارت بھی دکھاتے تو نیوکلیئر طاقت ایران پر اسرائیل یا امریکا یوں ننگی جارحیت کرنے کا تصور بھی نہ کر پاتا۔ جیسا کہ شمالی کوریا کے معاملے میں ہو رہا ہے۔ نارتھ کوریا کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں، بین البراعظمی میزائل سے وہ لیس ہے اور ارادے کی قوت سے بھی مالا مال۔ اس لیے امریکا بھی اس حوالے سے خاموش ہے۔ اسے جرات نہیں ہورہی کہ شمالی کوریا پر جارحیت کا سوچ سکے۔

  پاکستان اور بھارت کے مابین امن بھی صرف طاقت کے توازن ہی سے قائم ہوگا۔ جب بھارت کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ پاکستان پر جارحیت انہیں بے پناہ مہنگی پڑ سکتی ہے، تب مودی جیساعاقبت نااندیش وزیراعظم اور اجیت دول جیسا غیر ذمہ دار نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بھی ہمت نہیں کر پائے گا۔ مئی کے پاک بھارت ٹکراؤ نے بھارت کو اچھا سبق سکھایا ہے، ہمیں مگر اپنی قوت میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ زیادہ تیز رفتار، زیادہ طاقتور، خطرناک میزائلوں سے لیس ہونا پڑے گا، روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں بھی فرق کم کرنا پڑے گا، تب ہی پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔

مجھے عظیم منگول سالار سوبدائی بہادر یاد آیا۔ سوبدائی بہادر منگولوں کے عظیم بادشاہ چنگیز خان کاسپہ سالار تھا۔ خانہ بدوش منگول لٹیرے تموجین سے خان اعظم چنگیز خان بننے تک کے سفر میں سوبدائی (بعض مورخین اسے سوبوتائی بھی لکھتے ہیں) کا سب سے اہم حصہ رہا۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سوبدائی چنگیز خان کا کمانڈر نہ ہوتا تو شاید منگول اس قدر حیران کن فتوحات نہ حاصل کرپاتے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟

  سوبدائی نے بیس کے قریب بڑی جنگیں اور بے شمار لڑائیاں لڑیں، مگرکسی میں شکست نہیں ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ بطور کمانڈر(سالار) اس نے جس قدر علاقہ فتح کیا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال نہیں  ملتی۔ سوبدائی انتہائی زیرک اور شاطر جنگجو تھا۔اس نے عسکری تاریخ میں کئی نئی اور اچھوتی چالیں متعارف کرائیں۔ منگول لشکر کا سب سے اہم عسکری حربہ ’تولوغمہ‘ تھا۔

اس کا بانی بھی سوبدائی بہادر ہی تھا۔اہم معرکوں میں منگول لشکر جنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد پسپا ہونا شروع کر دیتا۔ مخالف سمجھتے کہ منگول شکست کھا کر بھاگ رہے ہیں۔ یوں وہ زیادہ جوش وخروش سے آگے بڑھ آتے۔ ادھر منگول لشکر کا درمیانی حصہ(قلب) پیچھے ہٹ جاتا، مگر دونوں بازو اپنی جگہ پر قائم رہتے۔ جب مخالف فوجی خاصا آگے آجاتے تو پیچھے ہٹنے والے منگول سپاہی پلٹ کر حملہ کر دیتے،اس کے ساتھ ہی دونوں بازو بھی دشمن لشکر کو گھیرے میں لے لیتے۔ اس حربے سے منگولوں نے کئی بڑی فوجیں تباہ کیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود منگولوں کے زوال کا باعث بھی یہی حربہ بن گیا۔ اسلامی تاریخ کے ایک بے مثل جنگجو بیبرس نے اسی حربے کو خود منگولوں پر استعمال کر کے عین جالوت کے مقام پر ہلاکو خان کے سالار قط بوغا کو شکست دی۔ منگولوں کو 38برسوں میں ملنے والی یہ پہلی شکست تھی۔ منگول اس کے بعدسنبھل نہ سکے۔ پھر منگولوں کی اگلی نسل خود مسلمان ہوگئی اور نقشہ ہی بدل گیا۔

سوبدائی کا ذکر ہو رہا تھا، اس نے چین اور مشرقی یورپ میں شاندار فتوحات حاصل کیں۔اس نے پولینڈ اور ہنگری کی فوجوں کو صرف 2 دنوں میں تباہ وبرباد کر دیا۔ سوبدائی بیک وقت 2،3 معرکوں کی ہدایات دینے کی شہرت رکھتا تھا۔منگول کہتے تھے کہ سوبدائی پر چالیں دیوتاؤں کی جانب سے اترتی ہیں۔ چنگیز خان کے  بعد اس کا بیٹا اوغدائی خان اعظم بنا۔ روس،بلغاریہ اوردوسرے علاقوں پر حملہ کے لیے اس نے منگول شہزادے باتو خان (چنگیز خان کے سوتیلے بیٹے جوجی کے بیٹے) کی رہنمائی کے لیے سوبدائی کو بھیجا۔ سوبدائی اس وقت بوڑھا ہونے کے ساتھ اس قدر موٹا ہوچکا تھا کہ گھوڑے پر بیٹھنا نا ممکن نہیں رہا۔منگولوں میں گھوڑی کے دودھ کی شراب پینے اور بے تحاشا گوشت کھانے کی وجہ سے گٹھیا کا مرض عام تھا۔ سوبدائی کی بھی پنڈلیاں سوج چکی تھی، اس کے لیے پیدل چلنا یا گھڑ سواری مشکل تھی۔ اس کے باوجود باتو خان سوبدائی کو ایک رتھ میں بٹھا کر ساتھ لے گیا تاکہ جنگ کے دوران سوبدائی کی شاطرانہ چالوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا

اوغدائی کے بعد اس کا بیٹا قویوق خان اعظم بنا۔ اس نے سوبدائی کو بلا بھیجا۔ سوبدائی نے پیرانہ سالی کے باعث مستعفی ہونے کی درخواست کی تو نوجوان قویوق نے تجربہ کار سالار سے پوچھا کہ سوبدائی بہادر! میں فیصلہ سازی میں کمزور ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ میرا عظیم دادا کیا کرتا تھا؟

سوبدائی بہادر نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ترچھی آنکھوں سے خان اعظم قویوق کو دیکھا اوراپنی روایتی صاف گوئی سے، جس کی وہ شہرت رکھتا تھا، بولا، ’خان اعظم چنگیز خان کے پوتے اورخاقان اوغدائی کے بیٹے، مجھے تمہاری بات سن کر خوشی نہیں ہوئی۔ یاد رکھو بادشاہ کبھی اپنے فیصلوں میں گومگو کا شکار نہیں ہوتے۔ مستقبل کے اندیشوں اور ممکنہ خطرات سے گھبرانا سپاہیوں کو نہیں تاجروں کو زیب دیتا ہے۔ تمہارے دادا کے فیصلوں کے پیچھے اس کی قوت کارفرما تھی۔ چنگیز خان کا عزم فولادی اور اہداف واضح تھے، مگر یہ سب اس کی تربیت یافتہ فوج اور جنگی چالوں کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ خان اعظم  کے بے شمار دشمن تھے۔ خود منگولوں میں سے کئی سردار اس کے مخالف تھے۔اس کے باوجود خان کبھی بھی سازشوں سے نہیں گھبرایا۔ میری عمر بھر کا تجربہ یہ بتاتا ہے صرف وہی قوم ناقابل شکست ہوسکتی ہے جس نے خود کو حالات کے تقاضوں کے مطابق مضبوط اور طاقتور بنائے رکھا، اپنے دشمن پر نظر رکھی اور ایسی تربیت یافتہ فوج تیار کی جو دشمن کو میدان جنگ میں شکست فاش دے سکے۔ تم بھی ایسا کرو تو اپنے دادا جیسی عظیم کامیابیاں ملیں گی‘۔

سوبدائی بہادر نے مشورہ تو دے دیا، مگر خاقان قویوق میں وہ یکسوئی نہیں تھی۔ وہ باتو خان سے جنگ میں الجھ گیا اور پھر منگولوں کی حکومت اس کے گھر سے نکل کر چنگیز خان کے دوسرے بیٹے چغتائی کی نسل میں چلی گئی۔یوں قویوق کے بعد منگو خان خاقان بن گیا۔ مشہور منگول سردار ہلاکو خان اسی منگو خان کا چھوٹا بھائی تھا۔

اپنے آپ کو طاقتور اور مضبوط بنائے رکھنا ہی مستقل اور دیرپا امن کی یقین دہانی ہے۔ یہ بات امیر تیمور کی بہت دلچسپ آپ بیتی  ’میں تیمور ہوں‘ پڑھ کر بھی سمجھ آتی ہے۔ امیر تیمور ایک شاندار جنگجو اور دانا شخص تھا۔اس کی سوانح پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اپنے تمام تر مظالم اور شخصی کمزوریوں کے باوجود وہ ایک غیر معمولی شخص تھا۔ امیر تیمور کا مشہور قول ہے کہ کمزوری یا طاقت کوئی الگ شے نہیں۔ مخالف کی کمزوریاں کسی شخص کو طاقتور بنا دیتی ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی کمزوری دشمن کو طاقتور بناتی ہے۔

  تیمور نے اپنی سوانح میں ایک  دلچسپ قصہ لکھا۔ تیمور منگول نہیں بلکہ تاتاری تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کے دور میں یہ اصول طے ہوا کہ حکمران منگول ہوں گے اور تاتاری وزیر ہوں گے، امیر تیمور نے البتہ یہ اصول بدل ڈالا اور وہ بے شمار فتوحات حاصل کر کے بادشاہ بن بیٹھا۔ تاتاریوں کا یہ بے مثل سورما کہتا ہے کہ ایک بار میں نے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کو اپنی دلہن بنایا۔ شادی کے بعد میں کوئی سال بھر گھر میں رہا۔ میری زندگی کا یہ واحد حصہ ہے،جس میں میں نے کوئی معرکہ نہیں لڑا۔ ایک دن میں ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں کھالوں کے نرم بستر پر لیٹا ہوا تھا میری نٖظردیوار سے لٹکی تلوار پر پڑی۔ یہ تلوار میں نے خاص طور پر کئی دھاتوں کے امتزاج سے بنوائی تھی جو ہلکی ہونے کے ساتھ نہایت تیز دھار تھی۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں اسے زنگ نہ لگ گیا ہو۔ جب اسے اتار کر میان سے نکالاتو مجھے وہ خاصی بھاری لگی۔ میں حیران ہوا کہ تلوار رکھے رکھے بھاری کیسے ہوگئی؟پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ تلوار بھاری نہیں ہوئی بلکہ میں اتنا عرصہ ورزش اور عسکری مشق نہ کرنے سے کمزور ہو گیا ہوں۔ میں نے اسی دن اپنے اہل خانہ کو ثمرقند بھیج دیا اور لشکر کو لے کر اگلے معرکے کے لیے روانہ ہوگیا۔

  امیر تیمور منگولوں سے نفرت کرتا تھا۔ وہ خود کو چنگیز خان سے بڑا سالار گردانتا تھا،مگر وہ منگول قائد کے ایک قول کو ہمیشہ دہراتا تھا کہ ”سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔بہادری،جرات اور دلیری کاراستہ، جسے مضبوط عزم ہی سے عبور کیا جا سکتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنائے رکھنا ہوگا۔ اپنے مخالف اور دشمن سے ٹیکنالوجی میں برتری لینا ہوگی۔ ایران نے تمام تر مسائل کے باوجود اپنے بہترین میزائل پروگرام کی وجہ سے دشمن کو نقصان پہنچایا،اسے زخمی کیا اور اس قدر تھکایا کہ خودامریکی صدر یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا کہ ایران نے اسرائیل کی آخری دنوں میں خاصی پٹائی کی۔ ایران نے جو غلطیاں کیں، ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔ جو اس کے مثبت پہلو سامنے آئے، انہیں اپنانا بلکہ مزید بڑھانا چاہیے۔

   ترکیہ نے بھی اس جنگ سے ایک سبق سیکھا کہ صرف اینٹی میزائل سسٹم ہی کافی نہیں۔ ترکیہ نے روس سے ایس چارسو دفاعی نظام لینے کی خاطر امریکا کے ساتھ ایف 35 طیارے کے مشترکہ پروگرام سے نکل جانا قبول کر لیا تھا۔ آج ترکیہ کو بھی احساس ہوا کہ ایف 35 جیسے ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے سے محروم رہنا کس قدر بڑا نقصان تھا۔ اطلاعات کے مطابق ترکیہ نے پھر سے ایف 35 طیارے کے پروگرام میں شرکت کی درخواست کی ہے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے اس معاملے میں امریکی صدر ٹرمپ سے بھی بات کی ہے اور انہیں امید ہے کہ ترکیہ کو ایف 35 طیارے کے پروڈکشن پراجیکٹ میں شامل کر لیا جائے گا، جس کے بعد ان کے پاس بھی یہ بہترین ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے آ سکیں گے۔

مزید پڑھیں: کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟

پاکستان کو بھی انہی خطوط پر اپنے ہتھیار مزید تیزاور شاندار بنانے ہوں۔ ایک عقلمندی ہم نے کی ہے کہ چین کے ساتھ جدید ترین طیارے، اواکس اور اینٹی میزائل سسٹم کی ڈیل کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایران کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار اہم اور مثبت رہا۔ جنگ بندی کی کوششوں میں ہم شامل رہے۔ پاکستان ماضی میں بھی چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک دفاعی تعلقات کے باوجود امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ بیلنسنگ ایکٹ آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو داخلی سطح پر بھی سیاسی استحکام لانا ہوگا۔ وہی قوم دشمن سے لڑ سکتی ہے جو اندر سے متحد ہو۔ امید کرنی چاہیے کہ ہمارے منصوبہ ساز اپنے دفاع کو مضبوط ترین اور ناقابل شکست بنانے کے ساتھ سیاسی تقسیم کم کرنے اور سیاسی و معاشی استحکام لانے کی طرف بھی توجہ کریں گے۔ تب ہمارے دشمن کو ان شاءالله ہمیشہ خاک ہی چاٹنا پڑے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امیر تیمور اوغدائی پاک بھارت امن پاک بھارت تنازع چنگیز خان سوبدائی شنگھائی تعاون تنظیم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امیر تیمور اوغدائی پاک بھارت امن پاک بھارت تنازع چنگیز خان شنگھائی تعاون تنظیم سوبدائی بہادر چنگیز خان کے ففتھ جنریشن امیر تیمور کے باوجود قائم ہو دشمن کو کے ساتھ ہونے کے سے بھی کے بعد کے لیے یہ بات ہوا کہ خان کا

پڑھیں:

یہ سنگدل مائیں اور بیویاں

میاں بیوی کے جھگڑے جب شدت اختیار کرجاتے ہیں تو اس کا نتیجہ شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل، عام بات تھی اور ذمے دار ہمیشہ بیوی کو ہی ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان پڑھ معاشرے اور پس ماندہ علاقوں میں خواتین کا قتل، ان کے آشنا سے تعلقات کو قتل کا لائسنس تو نہیں دیتا مگر نام نہاد غیرت کے نام پر ملک میں بدچلنی کا الزام لگا کر عورت اور مرد کو کاروکاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو کبھی موت کی سزا نہیں ہوتی اور مجرم چند سال کی سزا کاٹ کر بری ہو جاتا ہے اور معاشرہ اسے مطعون بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے کاروکاری کے تحت قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کیونکہ مجرم کو قتل کی دیگر وارداتوں کی طرح زیر دفعہ 302 کبھی پھانسی کی سزا نہیں ملتی جس سے کاروکاری کے الزام میں قتل کم نہیں ہو رہے اور ان میں بہت سے قتل بے گناہوں کے بھی ہو رہے ہیں اور بعض جگہ یہ قتل تعلیم یافتہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن میں ایسے بھی ہیں جو بیوی سے چھٹکارا پانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

کچھ عرصے سے اب شوہروں کا بیوی کے ہاتھوں قتل بھی بڑھنے لگا ہے جس کی ایک وجہ بیوی پر شوہر کے بہیمانہ مظالم تو ہوتے ہی ہیں مگر مہنگائی و بے روزگاری کے باعث شوہروں کا غصہ بیویوں پر نکلتا ہے اور میاں بیوی کی لڑائی میں کبھی کبھی شوہر بھی قتل ہو جاتا ہے اور جذبات اور غصے میں اپنا ہی گھر اجاڑ لیا جاتا ہے اور اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں کیا جاتا اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ نہ کرنے والے دونوں فریق یہ نہیں سوچتے کہ جھگڑے میں اگر کوئی قتل ہو جائے تو دوسرے کا مقدر جیل ہوتا ہے مگر ان کے اس اقدام کی سزا ان کے بچے بھگتتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور ماں باپ کے جھگڑوں میں وہ در بدر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ میاں بیوی سے اور بیوی شوہر سے جان چھڑانے کے لیے قتل کے منصوبے بناتے ہیں جن میں کامیابی کم ہوتی ہے اور کرائے کے قاتل بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔

انتہائی شرم ناک مقام تو یہ آگیا ہے کہ تعلیم یافتہ اولاد ہی باپ کی دشمن بن جاتی ہے اور ناخلف اولاد باپ کی ماننے کے بجائے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کرائے کے قاتلوں سے باپ کا قتل کرانے سے بھی گریز نہیں کرتی، تاکہ باپ کی جائیداد ہتھیا کر من پسند شادی یا من مانیوں میں آزاد ہو جائیں انھیں اپنی آخرت کالی کرنے کا بھی خوف نہیں ہوتا اور گنہگار الگ ہوتے ہیں۔

کچھ عرصے سے بعض وجوہات، شوہروں کے رویے، غربت اورگھریلو جھگڑوں کے باعث مائیں اتنی سنگدل ہو گئی ہیں کہ اپنا غصہ اپنی اولاد پر اتارتی ہیں جس کی وجہ سے معصوم بچے اپنی سنگدل ماؤں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں جب کبھی اپنا سوچا بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ ماں اپنے بچوں سے باپ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتی ہے اور ماں سے اپنے کسی بچے کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی اور بیٹی ہو یا بیٹا ماں کے نزدیک اسے دونوں ہی پیارے ہوتے اور وہ بچوں کی تکلیف دیکھ کر اپنی تکلیف بلکہ بیماری تک بھول جاتی ہے۔ ماں خود بھوکا رہ لیتی ہے، مگر بچے کی بھوک کو خود پر ترجیح دیتی ہے۔

بعض سنگدل ماؤں نے کسی وجہ سے اپنے بچوں کو نہروں اورکنوؤں میں پھینکا اور خود بھی کود کر جان دے دی لیکن انھوں نے ایسا غیر معمولی حالات یا مجبوری میں کیا مگر حال ہی میں خیرپور میرس سندھ میں ایک ماں نے جس کے بچے دو سے 8 سال کی عمر کے تھے نے رات کو کھانے میں شوہر اور اپنے چار کمسن بچوں کو بے ہوشی کی دوائیں کھلا دیں جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور انتہائی سنگدل ماں نے شوہر کے ریوالور سے پہلے شوہر پر اور بعد میں چاروں بچوں پر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا اور بعد میں ایک وڈیو بیان ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا کہ میرا شوہر دوسری شادی کر رہا ہے، اس لیے میں نے شوہر اور اپنے چاروں بچوں کو قتل کر دیا ہے اور میں خود بھی خودکشی کر رہی ہوں اور بعد میں اس گھر سے 6 لاشیں برآمد ہوئیں۔

راقم نے ایسی ماں بھی دیکھی جس نے شوہر کے فوت ہونے کے بعد اکلوتے شادی شدہ بیٹے کو بیٹیوں سے مل کر گھر سے نکال دیا اور سامان تک نہیں دیا کیونکہ گھر شوہر اس کے نام کرگیا تھا۔ ظالم ماں کو پھر بھی چین نہیں آیا بلکہ اپنے بیٹے کو اس کی سرکاری ملازمت سے بھی نکلوانے کی مذموم کوشش کرتی رہی۔

ایک اور سنگدل ماں نے اپنے بیٹے کی خود شادی کرائی پھر اپنی بہو کو اس قدر تنگ اور مارا پیٹا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی جس پر بیٹے نے اپنا گھر ماں کے مظالم پر چھوڑ کر کرائے کے گھر میں رہنا شروع کر دیا اور ماں کرائے کے گھر میں بہو کو مارنے پہنچ گئی۔ ستم کی حد ہے کہ ماں نے اپنے شوہر کے فوت ہونے پر باپ کا منہ دیکھنے نہیں دیا اور بہو کو میت والے گھر سے باہر نکلوا دیا اور اپنے بیٹوں کو کہا کہ اپنے بھائی سے تعلق رکھو اور نہ اسے گھر میں داخل ہونے دو۔

متعلقہ مضامین

  • طالبان سے دوبارہ بات ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان اپنے دوستوں کو انکار نہیں کر سکتا، خواجہ آصف
  • کراچی میں خنکی بڑھ گئی، درجہ حرارت گرنے کا امکان
  • امریکی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر کا  حنیف عباسی کے ساتھ گولڑہ ریلوے سٹیشن کا دورہ 
  • یہ سنگدل مائیں اور بیویاں
  • امریکی جوڑے نے شادی قائم رکھنے کے طویل ترین دورانیہ کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا
  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • پاکستان سب کا ، قومی یکجہتی ہماری اصل طاقت: خواجہ آصف  
  • نیلم منیر شادی کے بعد شوہر کیساتھ پہلی بار منظر عام پر آگئیں، ویڈیو وائرل
  • ایران کے بارے روس اور آئی اے ای اے کی بات چیت
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک، مزید بات چیت کا پروگرام نہیں، خواجہ آصف: اصولی موقف پر قائم، عطا تارڑ