عدالتی فیصلے میں مخصوص نشستیں گنوادینے پر تحریک انصاف کا احتجاج کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ’ناانصافی‘ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم، نظرثانی درخواستیں منظور
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کا سایہ آج بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ فیصلہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے اور اس میں آئین کی غلط تشریح کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کی تھیں اس فیصلے کے بعد کے پی میں 3 سیٹیں جیتنے والی جماعت کو 11 نشستیں ملیں گی۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ وقت بتائے گا یہ فیصلہ غلط ہے، امید ہے 26 ویں ترمیم ایک دن ختم ہوگی اور اس کے بعد جو سپریم کورٹ بنے گی وہ ضرور کہے گی یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: مخصوص نشستوں کا فیصلہ: سپریم کورٹ نے تحریری حکمنامہ جاری کردیا
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اب نظرثانی فیصلے کے بعد کسی اورعدالت میں نہیں جاسکتے لہٰذا ہم فیصلے کے خلاف اسمبلی اورعوامی سطح پراحتجاج کریں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں اسی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں کا آئینی استحقاق تسلیم کیا تھا۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب عدالت نےآئین کی روشنی میں فیصلہ دیا تھا، یہ نظرثانی کیس مہینوں عدالتوں میں چلتا رہا۔
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کی مخصوص نشستوں کو مال غنیمت کی طرح مسترد شدہ جماعتوں میں بانٹا گیا۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان آج مکمل طور پربے آئین، بے انصاف اور ریاستی استبداد کا نمونہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں کس کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟
پی ٹی آئی کے مطابق آج ایک بار پھرپی ٹی آئی کے آئینی حق پرڈاکا ڈالا گیا، آج کے فیصلے نے انصاف کی روح کو کچلا اور عوام کے ووٹ و اعتماد کو روند ڈالا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پارٹی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان تحریک انصاف سپریم کورٹ عدالتی فیصلے پر احتجاج مخصوص نشستوں کا فیصلہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف سپریم کورٹ عدالتی فیصلے پر احتجاج مخصوص نشستوں کا فیصلہ مخصوص نشستوں مخصوص نشستیں تحریک انصاف سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی کے فیصلے فیصلے کے کا فیصلہ کا کہنا نے کہا کے بعد
پڑھیں:
45برس بعد سپریم کورٹ کے نئے رولز کا اعلان، 6 اگست سے اطلاق
اسلام آباد:45 سال گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ’’ سپریم کورٹ رولز 2025 ‘‘ کے عنوان سے نئی رولز نوٹیفائی کردیے۔ سپریم کورٹ کے 1980کے رولز کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
عدالتی کارروائیوں میں شفافیت، کارکردگی اور مجموعی تاثیر کو بڑھانے کے لیے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس کمیٹی کے ارکان میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل تھے۔ کمیٹی نے ججز کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آفس، بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز سے بھی تجاویز طلب کی تھیں، اب نئے قوانین کا اطلاق 6 اگست سے ہوگا۔
یہ واضح کیا گیا ہے کہ منسوخ شدہ قواعد کے تحت ان نئے رولز کے آغاز پر درخواست، پٹیشن، اپیل، ریفرنس، نظرثانی وغیرہ کے ذریعے زیر التوا کوئی بھی کارروائی جاری رکھی جائے گی اور اسے نمٹا دیا جائے گا گویا یہ رولز نہیں بنائے گئے ہیں۔
اگر ان رولز کی کسی شق کو نافذ کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی تو چیف جسٹس اپنی طرف سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کی سفارشات پر ایسا حکم دے سکتے ہیں جو ان رولز کی دفعات سے متصادم نہ ہو۔ نئے قوانین کے مطابق فوجداری اپیل دائر کرنے کی مدت، فوجداری درخواستوںکے فیصلوں ، براہ راست دیوانی اپیلوں کی مدت 30 دن سے بڑھا کر 60 دن کردی گئی ہے۔
رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیلیں 14 دن میں دائر کی جائیں گی۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں 30 دنوں کے اندر دائر کی جائیں گی۔
درخواست گزار، درخواست دائر کرنے کے بعد، نظرثانی کے لیے فوری طور پر دوسرے فریق کو اس کا نوٹس دے گا اور رجسٹری کو اس نوٹس کی ایک کاپی کی توثیق کرے گا۔ نظرثانی کے لیے ہر درخواست کے ساتھ اس فیصلے یا حکم کی تصدیق شدہ کاپی کے ساتھ ہونا چاہیے جس کی شکایت کی گئی ہے۔
جب درخواست تازہ شواہد کی دریافت کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، دستاویزات کی مصدقہ کاپیاں، اگر کسی پر انحصار کیا گیا ہو، کو درخواست کے ساتھ منسلک کیا جائے گا اور ایک حلف نامہ بھی ہوگا جو اس طرح کے حالات بتائے گا جس میں نئے شواہد دریافت ہوئے ہیں۔
ایڈووکیٹ یا فریق، درخواست پر دستخط کرنے والے کو مختصر طور پر ان نکات کی وضاحت کرنا ہوگی جن پر نظرثانی کی درخواست کی بنیاد ہے۔ سرٹیفکیٹ ایک معقول رائے کی صورت میں ہو گا۔ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایڈووکیٹ یا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست پریشان کن یا غیر سنجیدہ تھی تو وہ خود کو تادیبی کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرائے گا اور ؍ یا پچیس ہزار روپے سے کم کی لاگت کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔
اگر درخواست پارٹی نے دائر کی تھی تو وہ فریق کی طرف سے درخواست کا جائزہ لے گا اور درخواست کے غیر سنجیدہ ہونے پر خود کو پچیس ہزار روپے سے کم کی لاگت کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔
جہاں تک قابل عمل ہو نظرثانی کی درخواست اسی بنچ کے سامنے طے کی جائے گی یا اگر مصنف جج ریٹائر ہو جائے یا مستعفی ہو جائے تو ایسی درخواست کی سماعت اسی بینچ کے ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کرے گا جس نے فیصلہ سنایا یا نظرثانی کا حکم دیاتھا۔ جیل کی درخواستیں دائر کرنے پر کوئی کورٹ فیس نہیں ہوگی۔