گورنر پنجاب کی محرم میں فرقہ واریت اور انتشار انگیز تقاریر سے گریز کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
سردار سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ شیعہ، سنی سمیت تمام مسالک کے افراد محب وطن شہری ہیں اور ہمیں ان عناصر کیخلاف جنگ جیتنی ہے جو فرقہ واریت کی آڑ میں ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اگر کسی نے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا، ہماری سکیورٹی فورسز اپنی جان خطرے میں ڈال کر امن قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے محرم الحرام کے حوالے سے راولپنڈی ڈویژن کی ضلعی امن کمیٹی کے وفد نے ملاقات کی، جس میں علمائے کرام، تاجر برادری، اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ گورنر نے محرم میں فرقہ واریت اور انتشار انگیز تقاریر سے گریز کی اپیل کی اور کہا کہ امن و امان برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے تمام صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت سے مکمل تعاون کر رہی ہیں اور وہ خود بھی مجالس میں جا کر امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ، سنی سمیت تمام مسالک کے افراد محب وطن شہری ہیں اور ہمیں ان عناصر کیخلاف جنگ جیتنی ہے جو فرقہ واریت کی آڑ میں ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اگر کسی نے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا، ہماری سکیورٹی فورسز اپنی جان خطرے میں ڈال کر امن قائم رکھے ہوئے ہیں اور امن کمیٹیوں کی کارکردگی قابل تحسین ہے۔ امن کمیٹی کے ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امن کمیٹیوں کے ارکان کو متعلقہ علاقوں سے منتخب کیا جائے۔ گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ صوبائی حکومت امن کمیٹیوں سے ہر ممکن تعاون جاری رکھے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فرقہ واریت ہیں اور
پڑھیں:
پنجاب میں مشی پر غیر آئینی پابندی
اسلام ٹائمز: جہاں تک مشی کے جلوس یا واک کا سوال ہے تو یہ جلوس انتظامیہ کی اجازت سے جہاں ممکن ہوں نکالے جانے چاہییں، مشی کا مقصد جلوس ہرگز نہیں ہے، اس پر بلا وجہ اصرار کرنے کے بجائے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیئے۔ وفاقی حکومت کو بھی نئی مجالس اور نئے جلوسوں کے حوالے سے اپنی ملک گیر پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیئے، آبادی کے تنوع اور نئی آبادیوں کی تشکیل کے سبب اب نئے جلوسوں اور مجالس کی ضرورت موجود ہے، اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریر: سید اسد عباس
معروف فلسفی ہیگل کا کہنا ہے "ریاست اخلاقی اقدار کی عظیم ترین علامت ہے جو فرد کی آزادی کو مکمل کرتی ہے" جبکہ تھامس ہابز نے لکھا کہ ریاست ایک "سماجی معاہدے" (Social Contract) کا نتیجہ ہے جو انفرادی آزادی کو قربان کر کے امن قائم کرتی ہے"۔ عمومی طور پر ریاست سے مراد ایک جغرافیائی اکائی کے مستقل رہائشی اور ان پر حاکم نظام ہوتا ہے۔ اگر بزرگوں کی باتوں اور جدید تصورات کو جمع کیا جائے تو ریاست سے مراد "انسانوں کی ایک ایسی مستقل آبادی ہے جو خاص جغرافیائی سرحدوں میں متمکن ہو نیزمعاشرے کے انتظام و انصرام کے لیے اپنی بعض آزادیوں کو کسی ضابطہ (آئین) کے تحت ایک منظم ادارے (حکومت) کے سپرد کردے"۔ ریاست معاشرے کے افراد کی آزادیوں کی محافظ ہوتی ہے۔
اسی طرح ریاست کی دیگر خصوصیات جو مطلوب ہیں، یہ ہیں کہ وہ خودمختار ہو، وہاں قانون کی حکمرانی ہو نیز عالمی سطح پر اسے تسلیم کیا جائے۔ اسلام کے مد نظر بھی ریاست کے یہی اہداف ہیں۔ عدل اجتماعی کا قیام، شہری آزادیوں کا اہتمام، تمام شہریوں کے لیے ترقی اور پیشرفت کے برابر مواقع، کمزوروں کی داد رسی وغیرہ۔ ریاستی منتظم یعنی حکومت اور اس سے متعلقہ انتظام و انصرام کے دیگر اداروں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں بسنے والے طبقات کے جائز حقوق کا دفاع کریں، آئین اسی لیے تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ کسی شعبے میں کسی بھی شہری یا فرد کے ساتھ کوتاہی نہ ہو۔ اگر کسی ریاست میں ریاستی منتظم یعنی آئینی حکومت اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی برتے یا تعصب کا مظاہرہ کرے تو اس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے۔ متاثرہ فریق اپنے سماجی معاہدے پر نظر ثانی پر مجبور ہوجاتا ہے، اسی کوتاہی یا تعصب کے تسلسل کے سبب علیحدگی پسند تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ اس بات کو بھلا پاکستانیوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔
1971ء میں ہم سماجی معاہدے پر عدم اعتماد کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں، خارجی عناصر کو مداخلت کا موقع ہماری اپنی غلطیوں اور ان پر اصرار سے ہی ملتا ہے۔ مذکورہ بالا باتیں ایک مثالی ریاست کے خدوخال ہیں، مسائل بہرحال موجود رہتے ہیں تاہم اگر آئین و قانون کی بالادستی قائم رہے تو سماجی معاہدے پر اعتماد بحال رہتا ہے۔ ریاست کے منتظم یعنی آئینی حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک معاشرے کی شخصی، مذہبی اور اظہار کی آزادیوں کا تحفظ ہے۔ آج جبکہ دنیا ریاستی قوانین سے عالمی معیارات کی جانب بڑھ رہی ہے تو اس میں بھی مذہبی آزادی کو بنیادی اہمیت دی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 16/18(2011)، یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (1950) کا آرٹیکل 9، قاہرہ اعلامیہ برائے حقوق انسانی (1990) آرٹیکل 22، چوتھا جنیوا کنونش (1949)، بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (1966) آرٹیکل 18 و 20، عالمی اعلامیہ حقوق انسانی (1948) آرٹیکل 18 و 19 وغیرہ ہر شہری کی مذہبی آزادیوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 20 پاکستان کے ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی، عبادت اور تبلیغ کا حق دیتا ہے، جس میں غیر مسلم اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 22 ملک میں ہر مذہب کے تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے نیز اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے 11 اگست 1947ء کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان میں ہر شہری کو مذہبی آزادی ہوگی۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مساجد میں جانے کے لیے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے"۔ قائداعظم نے واضح فرمایا کہ ریاست کے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہونگے اور کسی کے ساتھ رنگ، مذہب یا زبان کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ ریاست کا نظام قانون اور انصاف کے اصولوں پر چلایا جائے گا اور کسی فرد یا گروہ کو قانون سے بالاتر حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کا کسی شہری کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور حکومت کا کام صرف انتظامی اور فلاحی امور انجام دینا اور عوام کی زندگی بہتر بنانا اور ان کو سہولیات فراہم کرنا ہے۔
الحمدللہ ایک اقلیت پر اسلام کا نام استعمال نہ کرنے کی پابندی کے علاوہ پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر کبھی قدغن نہیں لگائی گئی۔ ہر مسلک اور مذہب اپنے عقیدے اور دین کے مطابق عبادت کرنے میں آزاد ہے، قادیانیوں پر بھی اسلام کا نام استعمال کرنے پر پابندی ان کے عقائد اور اسلامی مسالک کے عقائد میں بنیادی فرق نیز اشتباہ کی وجہ سے ہے ورنہ قادیانی اپنی عبادت گاہوں کے قیام، اپنے ادارے بنانے اور مذہب کی پپروی کے حوالے سے آزاد ہیں۔ قادیانیوں سے مسئلہ تب ہوتا ہے جب وہ اسلامی تعبیرات کو استعمال کرتے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں پاکستان میں مذہبی جنونیت ہے اور لوگ کسی بھی بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔
اقلیتی برادریوں کے بہت سے افراد عدالت جانے سے قبل ہی قتل کردیئے گئے، مشتعل مظاہرین نے اقلیتی برادری کے مراکز اور آبادیوں کو نقصان پہنچایا جن کے تحفظ کی پہلی ذمہ داری بہرحال ریاستی مشینری کی تھی۔ ان غیر انسانی اور غیر قانونی واقعات کی کوئی تاویل ممکن نہیں۔ بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی اور مذہبی آزادیوں کی اس فضاء میں پنجاب حکومت کا ایک اچھوتا فیصلہ چند ماہ قبل سامنے آیا جس میں شیعہ مسلک کو نئی مجالس، جلوس سے سختی سے روکنے کا اعلان کیا گیا، اسی طرح اس حکومتی نوٹس میں لکھا گیا کہ اربعین حسینی کے موقع پر مشی کی نئی روایت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حکومت پنجاب شاید نہیں جانتی کہ پنجاب کے دور دراز دیہات جہاں ٹریفک کے خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے وہاں مشی ایک صدی سے جاری ہے۔ "مشی یعنی اپنے گھروں سے پیدل چل کر عزا خانے یا جلوس تک آنا"۔ آج بھی بڑے شہروں میں جلوس تک پہنچنے کے لیے لوگ اپنی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، سائیکلوں کو جلوس یا امام بارگاہ سے بہت دور پارک کرکے پیدل ہی جلوس یا امام بارگاہ تک پہنچتے ہیں۔ راولپنڈی راجہ بازار اور کمیٹی چوک کے مابین فاصلہ تقریباً تین کلومیٹر ہے، سواری کمیٹی چوک سے آگے نہیں جا سکتی اسی طرح، اردگرد کے علاقوں میں بسنے والے تمام عزادار راجہ بازار تک پیدل یعنی مشی کرکے آتے ہیں۔ یہی صورتحال پورے پاکستان کی ہے پس مشی پر پابندی ایک تو قابل عمل نہیں ہے، لوگوں کو پیدل عزا خانوں تک آنے سے نہیں روکا جا سکتا یہ رکاوٹ مذہبی آزادی پر قدغن ہوگی۔
جہاں تک مشی کے جلوس یا واک کا سوال ہے تو یہ جلوس انتظامیہ کی اجازت سے جہاں ممکن ہوں نکالے جانے چاہییں، مشی کا مقصد جلوس ہرگز نہیں ہے، اس پر بلا وجہ اصرار کرنے کے بجائے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیئے۔ وفاقی حکومت کو بھی نئی مجالس اور نئے جلوسوں کے حوالے سے اپنی ملک گیر پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیئے، آبادی کے تنوع اور نئی آبادیوں کی تشکیل کے سبب اب نئے جلوسوں اور مجالس کی ضرورت موجود ہے، اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہونے والے تبلیغی اجتماعات روایتی اجتماعات نہیں ہیں اس کے باوجود حکومت ان کو سہولیات مہیا کرتی ہے۔ ایسا کرنا بھی چاہیئے یہی رویہ باقی مسالک کے لیے بھی ہونا چاہیئے تاکہ کسی کو ریاست مشینری کی نیت میں عیب دکھائی نہ دے۔