ہر خستہ حال عمارت کے رہائشی افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنا ممکن نہیں، شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
نجی ٹی وی سے گفتگو میں سندھ کے سینئر وزیر نے بتایا کہ سندھ بھر میں 740 خستہ حال عمارتیں موجود ہیں جن میں سے 51 عمارتیں ’انتہائی خطرناک‘ حالت میں ہیں، ان میں سے 11 عمارتیں خالی کروالی گئی ہیں، جب کہ باقیوں کو 48 گھنٹوں میں خالی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں تاکہ مکینوں کی جانیں محفوظ رہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ حکومت کی جانب سے شہر کی انتہائی مخدوش 51 عمارتیں گرانے کے فیصلے کے بعد سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہر خستہ حال عمارت میں رہنے والے افراد کو متبادل رہائش فراہم کرے۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے لیاری میں گزشتہ جمعہ کو ایک 5 منزلہ عمارت گرنے کے واقعے میں 27 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جب کہ درجنوں دیگر کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ عمارت فدا حسین شیخا روڈ، لی مارکیٹ پر واقع تھی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے مطابق 2023ء سے اس کے رہائشیوں کو متعدد بار نوٹس جاری کیے جا چکے تھے کہ وہ عمارت کو خالی کر دیں، کیوں کہ یہ ناقابلِ رہائش قرار دی جا چکی تھی، جمعہ کی صبح گرنے والی اس عمارت میں اتوار کو ریسکیو کارروائیاں مکمل ہوئیں۔
شرجیل میمن نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ سندھ بھر میں 740 خستہ حال عمارتیں موجود ہیں جن میں سے 51 عمارتیں ’انتہائی خطرناک‘ حالت میں ہیں، ان میں سے 11 عمارتیں خالی کروالی گئی ہیں، جب کہ باقیوں کو 48 گھنٹوں میں خالی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں تاکہ مکینوں کی جانیں محفوظ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاہم، حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام خستہ حال عمارتوں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش فراہم کرے، اور اس حوالے سے کوئی قانونی پابندی بھی حکومت پر عائد نہیں ہوتی۔ شرجیل میمن نے مزید کہا کہ ماضی میں حکومت نے سیلاب متاثرین اور کورونا کے دوران قرنطینہ کے لیے عارضی رہائش گاہیں ضرور فراہم کی تھیں، اب بھی حکومت کے پاس جو محدود جگہ دستیاب ہے، وہ ہم ان افراد کو دیں گے جن کے پاس رہائش کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خستہ حال عمارت
پڑھیں:
عوام ہو جائیں تیار!کیش نکلوانے اور فون کالز پر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ؟
ویب ڈیسک: پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو مالی سال کے بجٹ سرپلس کے ہدف کو برقرار رکھنے کے لیے 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
حکومت کو یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈالنا پڑے گا تاکہ مطلوبہ محصولات اکٹھے کیے جا سکیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت جنوری 2026 میں ان اقدامات پر عملدرآمد کرے گی جس کے تحت لینڈ لائن، موبائل فون اور بینکوں سے نقد رقم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سولر پینلز پر سیلز ٹیکس عائد کرنے اور میٹھائیوں و بسکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست
رپورٹس کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف سے سالانہ پرائمری بجٹ سرپلس ٹارگٹ میں کمی کی درخواست کی ہے جو اس وقت مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 1اعشاریہ 6 فیصد یا تقریباً 2اعشاریہ 1 ٹریلین روپے کے برابر ہے۔
اگر آئی ایم ایف اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتا تو حکومت کو یا تو ان نئے ٹیکس اقدامات کو نافذ کرنا ہوگا یا اخراجات میں کٹوتی کرنی پڑے گی۔ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اس وقت 198 ارب روپے کے محصولات کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
حافظ آباد: بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑے، مرد و خواتین گتھم گتھا
29 اکتوبر تک مجموعی آمدن 36اعشاریہ 5 کھرب روپے ریکارڈ کی گئی، جبکہ چار ماہ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اگلے دو دنوں میں مزید 460 ارب روپے اکٹھے کرنا ضروری ہے۔
ٹیکس حکام کے مطابق اگر حکومت 225 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے یا تو سیلز ٹیکس کی شرح 19 فیصد تک بڑھانی ہوگی یا تین میں سے کسی ایک آپشن ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ، سیلز ٹیکس میں اضافہ، یا فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کا انتخاب کرنا پڑے گا تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل جاری رکھا جا سکے۔
امریکی ریاست الاسکا میں زلزلہ، شدت 5.7 ریکارڈ