بنگلہ دیش: روہنگیا پناہ گزینوں کی آمد جاری، یو این اداروں کی امدادی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈھاکہ: پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ (یو این ایچ سی آر) اور اس کے شراکت دار گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران میانمار سے بنگلہ دیش آنے والے مزید ڈیڑھ لاکھ روہنگیا افراد کو مدد پہنچانے کا انتظام کر رہے ہیں جبکہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے باعث امدادی وسائل میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ادارے کے ترجمان بابر بلوچ نے بتایا ہے کہ میانمار کی بنگلہ دیش سے متصل ریاست راخائن سمیت دیگر علاقوں میں جاری لڑائی کے باعث روہنگیا آبادی کی نقل مکانی بدستور جاری ہے۔بنگلہ دیش نے 2017 سے فیاضانہ طور پر 10 لاکھ روہنگیا افراد کو پناہ دے رکھی ہے جو اس کے ساحلی شہر کاکس بازار میں قائم کیمپ میں پناہ گزین ہیں جو دنیا کی ایک گنجان ترین جگہ بن گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں بنگلہ دیش اور عالمی برادری نے روہنگیا پناہ گزینوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے اور انہیں پناہ دینے کے لیے فیاضانہ مدد فراہم کی ہے، تاہم امدادی مالی وسائل میں حالیہ قلت سے ان اقدامات کا ہر پہلو متاثر ہو رہا ہے۔اضافی وسائل کی عدم موجودگی میں ستمبر تک طبی خدمات بری طرح متاثر ہوں گی اور کھانا بنانے کے لیے درکار ایندھن ختم ہو جائے گا۔دسمبر تک امدادی خوراک کی فراہمی بند ہو جائے اور 230,000 بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ترجمان نے بتایا ہے کہ نئے آنے والے پناہ گزینوں میں تقریباً ایک لاکھ 21 ہزار افراد کی بائیومیٹرک کر لی گئی ہے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
بائیو میٹرک کے ذریعے امدادی شراکت داروں کو نئے آنے والوں کے لیے خوراک، طبی نگہداشت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات کی فراہمی میں مدد ملی ہے۔تاہم، موجودہ وسائل بہت جلد ختم ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ان خدمات کی فراہمی بند ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مزید پناہ گزینوں کی آمد کے باعث مزید انسانی امداد درکار ہے جبکہ کیمپ میں پہلے سے موجود لوگوں کے لیے بھی امدادی وسائل کی شدید قلت ہے۔ترجمان نے کہا ہے کہ ‘یو این ایچ سی آر’ اور امدادی شراکت دار مزید روہنگیا افراد کو پناہ دینے پر بنگلہ دیش کی حکومت کے ممنون ہیں۔
ادارہ بنگلہ دیش کے حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ میانمار میں جنگ سے جان بچا کر آنے والے ان لوگوں کو تحفظ اور پناہ تک رسائی فراہم کریں۔’یو این ایچ سی آر’ اور امدادی شراکت داروں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ خطے میں روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے تمام ممالک کے ساتھ یکجہتی کا عملی اظہار کرے۔ جب تک میانمار کی ریاست راخائن میں امن اور استحکام بحال نہیں ہوتا اس وقت تک دنیا کو نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد کی مدد جاری رکھنا ہو گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پناہ گزینوں کی روہنگیا افراد بنگلہ دیش کے لیے
پڑھیں:
یوکرین اسلحہ کی فراہمی بحال، ٹرمپ کا ہنگامی امدادی پیکج جاری
امریکا نے یوکرین کو اسلحہ کی ترسیل دوبارہ شروع کر دی ہے، جسے پینٹاگون کی طرف سے عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ، 728 ڈرون اور 13 میزائل فائر
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب 155 ملی میٹر آرٹلری شیلز اور جدید GMLRS راکٹ یوکرین کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اس اقدام کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پہلی بار اپنی صدارتی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 300 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار براہِ راست پینٹاگون کے ذخائر سے یوکرین بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق اس نئے پیکج میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹس شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں پینٹاگون نے ذخائر کی کمی کے باعث کچھ اسلحہ کی ترسیل روک دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:‘یوکرین کے بارے میں بکواس کر رہا ہے‘، ٹرمپ روسی صدر پر برہم، مزید ہتھیار بھیجنے کا اعلان
وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے مبینہ طور پر یہ فیصلہ صدر ٹرمپ سے مشورہ کیے بغیر کیا تھا، جس پر صدر نے اندرونی طور پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ اسلحے کی فراہمی میں کوئی ’وقفہ‘ نہیں تھا بلکہ صرف حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا تھا تاکہ امداد امریکی دفاعی ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔
سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے بھی وضاحت دی کہ اس معاملے کو ’غلط انداز میں پیش کیا گیا‘۔
صدر ٹرمپ نے اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران صدر جو بائیڈن کی یوکرین کو بغیر شرائط دی جانے والی امداد پر تنقید کرتے ہوئے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو ’دنیا کا سب سے بڑا سیلز مین‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا یوکرین کیخلاف روس کی مدد کے لیے 20 ہزار فوجی بھیج رہا ہے، یوکرینی انٹیلجنس رپورٹ
یوکرین کے لیے اسلحہ کی سپلائی اس لیے بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ یوکرینی افواج روسی دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے سپاہیوں کی کمی کا شکار ہیں۔
دوسری جانب روس مسلسل مغربی ہتھیاروں کی فراہمی کی مذمت کرتا رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ ماہ ایک بار پھر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مغربی ممالک جو یوکرین کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، وہ دراصل جنگ میں براہِ راست فریق بن چکے ہیں۔
امریکی جرمن تھنک ٹینک ’کئیل انسٹیٹیوٹ‘ کے مطابق امریکا اب تک یوکرین کو تقریباً 115 ارب ڈالر کی فوجی اور مالی امداد دے چکا ہے۔
تازہ ترین فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ، اگرچہ امداد کے طریقہ کار پر نظرثانی کر رہی ہے، لیکن یوکرین کی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب بھی سرگرم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پیوٹن ٹرمپ انتظامیہ روس زیلنسکی یوکرین