Express News:
2025-07-13@00:43:10 GMT

موجودہ سسٹم اور جمہوریت

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

نو مئی اور ایسے بہت سے واقعات جہاں سے بغاوت کی بو آرہی تھی، ان معاملات کو حل کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ ان بغاوتوں کے عنصر تمام اداروں میں نظر آئے یہاں تک کہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتی عدالتوں سے بھی۔ ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ جنگ جس میں پہلی بار پاکستان کا پلڑا بھاری رہا، اگر یہ جنگ نہ ہوتی تو پاکستان کی ساخت کے معاملات پہلے جیسے ہی رہتے۔

ایران میں چوالیس سال سے ملاؤوں کی حکومت ہے اور اندرونی طور پر اس حکومت کو مزاحمت کا سامنا تھا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔لیکن اس جنگ نے ایرانی حکومت کو مضبوط بنایا۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ نہ ہی اسرائیل یہ جنگ جیتا اور نہ ہی ایران یہ جنگ ہارا۔ یہ بالکل اس طرح سے ہے کہ جب تک نپولین فاتح رہا تو فرانس میں اس کے خلاف کوئی بغاوت نہ کرسکا لیکن جب نپولین ماسکو فتح نہ کرسکا تو اس کے زوال کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے۔

ایسا ہی ہٹلرکے ساتھ بھی ہوا۔ جب تک ہٹلر فاتح رہا، اس کا عروج قائم رہا اور جب وہ لینن گراڈ (سوویت یونین) کو فتح نہ کرسکا تو اس کے زوال کا دور شروع ہوگیا اور بلآخر اس نے اپنی جان لے لی۔

 مشرف کے زمانے میں تمام سوشل اور میڈیا پلیٹ فارمزکو آزادی حاصل تھی،کھل کر اپنی رائے کا اظہارکرنے کی۔ اپنے دورکے آخری دنوں میں جنرل مشرف نے بھی ایسے اقدامات اٹھائے لیکن وہ کارگر نہ ہوسکے۔ پھر وہ خود ہی رخصت ہو گئے۔ یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان کی رخصتی کا پروانہ کہاں سے جاری ہوا۔

اس وقت ہم امریکا کی دسترس میں ضرور تھے مگر یہاں پر وہ قوتیں بھی اتنی ہی مضبوط تھیں، جنھوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دینا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان گنوائی، وہ نقصان تو بہت بڑا تھا مگر قربانی تھی۔ جمہوریت مضبوط ہوئی یہاں تک کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی آصف علی زرداری کے صدر بننے کی تقریب میں شرکت کی، اٹھارھویں ترمیم پاس ہوئی۔

اس ماحول کو رول بیک کرنے کے لیے خان صاحب کو متعارف کروایا گیا۔ جب چین کے منصوبے سی پیک میں شامل ہونے جا رہے تھے تو ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا۔ دو سال کے اندر جمہوریت کو جھکا دیا گیا۔ ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کی بازگشت سنی گئی۔ خان صاحب کو سلیکٹڈ ووٹوں کے ذریعے لایا گیا۔ ٹرمپ صاحب امریکا کے صدر تھے۔

خان صاحب پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے دہانے لے آئے جو آج تک سنبھل نہیں پائی۔ جب ٹرمپ گئے تو خاں صاحب بھی یہاں سے رخصت ہوگئے۔ جاتے جاتے انھوں نے پاکستان کی معیشت کا ڈھانچہ ہلا دیا۔ ٹرمپ دوبارہ میدان میں آچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کو ایک پتے کی صورت میں رکھا ہوا ہے، پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپنا پریشر برقرار رکھنے کے لیے۔

امریکا کی انتظامیہ کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے ۔ اچھا یا برا ایک سسٹم اب بن چکا ہے اور یہ موجودہ سسٹم کچھ سالوں کے لیے چل بھی سکتا ہے مگر جو برا ہوا ہے، اس کا خمیازہ ہم کو بھگتنا پڑے گا۔

بانی پی ٹی آئی نے یہاں جمہوری اقداروں کو مٹاتے مٹاتے اپنا کام تمام کیا۔کل وہ مقتدر قوتوں کی بی ٹیم تھے، آج وہ کام جمہوری قوتیں کر رہی ہیں، مگر اس بات سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ بانی پی ٹی آئی سیاسی قوت نہیں، وہ اگر اب بھی چاہیں تو ڈائیلاگ کی صورت نکال سکتے ہیں اور ان مذاکرات کے ذریعے اپنے اور پارٹی کے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، اگر مقتدر قوتیں چاہیں تو۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت مختلف ہو چکی ہے۔ وہ اچھی حکمرانی نہیں دے پائی ۔ لوگ ’’ جئے بھٹو‘‘ کے نعرے پر مزید نہیں چل سکیں گے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ وڈیروں کا ہونا کوئی اہم بات نہیں۔ یہ سترہ سال سے اقتدار میں ہیں، اگرکوئی نئی پارٹی یا اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو وڈیروں کا پیپلز پارٹی سے انخلاء ہو جائے گا۔

اب ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے کہ نئی جمہوری قوتیں بنیں، اگر یہ خلاء جلد ہی نہ پر ہوسکا تو وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا۔ جمہوری قوتوں کے حوالے سے میرغوث بخش بزنجو ایک قد آور شخصیت تھے، اب بلوچستان میں ان کی جیسی کوئی شخصیت نہیں۔ ڈاکٹر مالک جیسے لوگ موجود ضرور ہیں لیکن بلوچستان کا بیانیہ ان سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ سندھ میں رسول بخش پلیجو جیسی شخصیات تھیں اور اب یہاں پر بھی ایسا ہی خلاء ہے، اب تک بھر نہیں پایا۔ خیبر پختونخوا میں ولی خان جیسی شخصیتیں نہیں مگر ایسا فقدان بھی نہیں جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا سلسلہ ضیاء الحق کی باقیات سے تھا۔ انھوں نے اس سلسلے کو خیر باد کہا اور جمہوری قوت بنے لیکن اس دفعہ مسلم لیگ (ن) پھر اسی ڈگر پر ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ خان صاحب کے بیٹے قاسم اور سلیمان اس نظام کے خلاف تحریک کا حصہ بنیں۔ اب یہ وقت ان کے آنے کا نہیں جب ان کو آنا تھا وہ آئے نہیں اور جب ارادہ ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ حالات اب بدل چکے ہیں، چھبیسویں ترمیم ہوچکی ہے، امریکا سے تعلقات بہتر ہیں اور چین سے بھی تعلقات خوشگوار ہیں۔

سسٹم تو بدل جائے گا لیکن مستقبل قریب میں نہیں۔ یہ افواہیں اور خبریں ایسے ہی چلتی رہیں گی کہ کیا زرداری صدرکے عہدے سے استعفیٰ دیں گے اور کیا یہ حکومتی اتحاد ٹوٹنے جا رہا ہے؟ البتہ اگر مقتدر قوتوں نے اس سسٹم کو چھیڑنے کی کوشش کی یا پھر کوئی نئی آئینی ترمیم لے آئے تو سسٹم ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے۔

مختصراً یہ کہ اگر حکمران اب کوئی غلطی نہ کریں تو اس وقت ان کو کوئی اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس وقت ملکوں کی نگاہیں جنگوں اور دفاع پر مرکوز ہیں۔ کسی ریاست کو ایک سے تو دوسری ریاست کو تیسری سے خطرہ ہے۔ ٹرمپ صاحب کے آنے کے بعد دنیا کا ماحول کچھ ایسا ہی ہو چکا ہے، سب کی توجہ جنگی تیاریوں پر مرکوز ہیں۔ ایران اپنی فضائی طاقت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے، اسی طرح برطانیہ بھی۔ ہندوستان اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو مضبوط بنا رہا ہے اور اسی طرح پاکستان بھی اپنی دفاعی طاقت کو وسیع کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔

دنیا بلاول بھٹو کو جانتی ہے۔ وہ ہندوستان کے پروپیگنڈہ کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ سسٹم نہ الجھے توکچھ وقت اچھے اور بہتر طور پرگزر سکتا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کی شقیں آئین کے اندر خود آئین ہونے کا حق واپس لے سکتی ہیں۔ آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی ترامیم آئین کی روح کے مطابق ہیں یا اس کے خلاف؟ یہ ذمے داری عدالتوں کی ہے جو آئین کی پاسبان ہیں کہ آئین کے اندر ایسی کوئی ترمیم نہ ہو جو آئین میں بگاڑ پیدا کرے۔

غیر فطری طور پر آصف علی زرداری کو صدر کے منصب سے ہٹایا جاسکتا ہے مگر حکومت کا ایسا کوئی بھی قدم زرداری کو ہیرو ضرور بنا دے گا اور پھر پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر سندھ کارڈ کھیلنے کے قابل ہو جا ئے گی وہ کارڈ جو اس وقت پیپلز پارٹی کھیل نہیں سکتی۔ سندھ کے اندر قوم پرست بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے کیونکہ بری حکمرانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بھوک اور بد حالی کا راج ہے۔

ہماری سیاست ایک مخصوص اشرافیہ کے پاس کٹھ پتلی کی مانند ہے جو مقدرہ قوتوں کی گٹھ جوڑ سے وجود میں آئی ہے یا پھر ان سلسلہ نسب انگریز سامراج سے ملتا ہے۔ ہم ستر اور اسی کی دہائی میں ہندوستان سے معاشی طور پر بہت بہتر تھے اور آج ہم ان سے کہیں پیچھے۔

اس کی وجہ ہیں، اس اشرافیہ کے ذاتی مفادات۔ اس اشرافیہ سے آزاد ہونے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں صرف یہ کہ آئین کی بالادستی، جمہوریت اور مڈل کلاس سیاست! پچیس کروڑ عوام کا یہ ملک پچھتر سال گزرنے کے بعد ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اگر ہم نے تبدیلیوں میں ڈھل سکے تو ہم توازن برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی پاکستان کی سکتا ہے کے اندر رہا ہے یہ جنگ

پڑھیں:

میرے خیال میں عمران خان کے بیٹے پاکستان آکر تحریک نہیں چلا سکیں گے : شاہد خاقان عباسی 

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ عمران خان کیا چاہتے ہیں، جو بھی جیل میں مل کر آتا ہے وہ مختلف بات کرتاہے ، میرا نہیں خیال کہ عمران خان کے بیٹے پاکستان آ کر تحریک کی قیادت کر سکیں گے اور اس سے کوئی فرق پڑے گا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کی تو ہر وقت ضرورت ہو تی ہے ، جو ہمارے ملک کے حالات ہیں جہاں کوئی نظام نہیں چل رہا، ملکی ترقی نہیں ہو رہی ، ہر پاکستانی ہر سال غریب ہوتا جارہاہے ، ہماری کوئی پالیسی اور ڈائریکشن نہیں ہے ، ہر قسم کے مسائل ہیں، پی ٹی آئی کی تحریک کا مجھے نہیں پتا کہ مقصد کیاہے ، ماضی میں ان کا مقصد انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمران خان کو جیل سے نکالنا ہے ، اگر یہ مقصد ہے تو یہ تحریک کامیاب نہیں ہو گی، آپ ملک کی بات کریں ۔

قانون سازوں کی تنخواہیں اور ٹیکسز بڑھنے ، سہولیات کی کمی پر سینئر صحافی رؤوف کلاسرا برس پڑے

انہوں نے کہا کہ جب ملک کی بات کریں گے ، ملک کے نظام کی بات کریں گے ، آئین کی بالادستی کی بات کریں گے ، سیاسی انتشار ختم کرنے کی بات کریں گے تو اسی میں عمران خان کا حل بھی نکل آئے گا ، اگر یہ کہیں گے کہ ہم نے عمران خان کو سڑک پر دباو ڈال کر نکالنا ہے تو یہ ہم نے پہلے کبھی دیکھا نہیں ہے ۔ہماری کوشش یہ تھی کہ جن نکات پر اتفاق ہو سکتا ہے ، اس پر اپوزیشن کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے ، پی ٹی آئی سب سے بڑی اپوزیشن کی جماعت ہے ، ان کے پاس حکومت بھی ہے ، انہیں وہاں پر کام کرنا چاہیے، ا ن کی دونوں جگہ ناکامی ہے ، نہ تو وہ اپوزیشن کا کردار ادا کر سکے   اور نہ ہی کے پی کے حکومت چلتی ہے ، پہلے اس پر توجہ دیں، تحریک اس کے بعد چلے گی ۔ 

بھارتی خفیہ ایجنسی کے ٹویٹر اکاونٹس نے لورالائی واقعہ سے قبل ہی دہشتگردی کی خبری دی تھی : وسیم عباسی کا انکشاف

شاہد خاقان عباسی کا کہناتھا کہ آپ تحریک چلاتے ہیں تو لوگ پوچھے گے کہ آپ اقتدار میں آجائیں گے توہمیں کیا دیں گے تو اس کا جواب کوئی نہیں ہے ، پی ٹی آئی سوچ سمجھ کر اقدامات کرے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ عمران خان کیا چاہتے ہیں، جو بھی جیل میں مل کر آتا ہے وہ مختلف بات کرتاہے ، میرا نہیں خیال کہ عمران خان کے بیٹے پاکستان آ کر تحریک کی قیادت کر سکیں گے اور اس سے کوئی فرق پڑے گا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی دباؤ نہیں، سفیر رضوان سعید
  • سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت
  • ہم پاکستان کے آئین، جمہوریت، اور پارلیمانی روایات کی بحالی کے لیے نکلے ہیں۔، سلمان اکرم راجا
  • میرے خیال میں عمران خان کے بیٹے پاکستان آکر تحریک نہیں چلا سکیں گے : شاہد خاقان عباسی 
  • موجودہ دور اداکاری نہیں دکھاوے کا ہے، توقیر ناصر کی شوبز انڈسٹری پر تنقید
  • قاسم اور سلیمان کا پاکستان کی بجائے دورہ امریکا زیادہ اہم ہے،سلمان غنی
  • آبادی میں تیزی سے اضافہ قومی بحران بن چکا، وزیر صحت کا انتباہ
  • سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں
  • جمہوریت سے دور ہوتا پاکستان