نو مئی اور ایسے بہت سے واقعات جہاں سے بغاوت کی بو آرہی تھی، ان معاملات کو حل کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ ان بغاوتوں کے عنصر تمام اداروں میں نظر آئے یہاں تک کہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتی عدالتوں سے بھی۔ ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ جنگ جس میں پہلی بار پاکستان کا پلڑا بھاری رہا، اگر یہ جنگ نہ ہوتی تو پاکستان کی ساخت کے معاملات پہلے جیسے ہی رہتے۔
ایران میں چوالیس سال سے ملاؤوں کی حکومت ہے اور اندرونی طور پر اس حکومت کو مزاحمت کا سامنا تھا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔لیکن اس جنگ نے ایرانی حکومت کو مضبوط بنایا۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ نہ ہی اسرائیل یہ جنگ جیتا اور نہ ہی ایران یہ جنگ ہارا۔ یہ بالکل اس طرح سے ہے کہ جب تک نپولین فاتح رہا تو فرانس میں اس کے خلاف کوئی بغاوت نہ کرسکا لیکن جب نپولین ماسکو فتح نہ کرسکا تو اس کے زوال کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے۔
ایسا ہی ہٹلرکے ساتھ بھی ہوا۔ جب تک ہٹلر فاتح رہا، اس کا عروج قائم رہا اور جب وہ لینن گراڈ (سوویت یونین) کو فتح نہ کرسکا تو اس کے زوال کا دور شروع ہوگیا اور بلآخر اس نے اپنی جان لے لی۔
مشرف کے زمانے میں تمام سوشل اور میڈیا پلیٹ فارمزکو آزادی حاصل تھی،کھل کر اپنی رائے کا اظہارکرنے کی۔ اپنے دورکے آخری دنوں میں جنرل مشرف نے بھی ایسے اقدامات اٹھائے لیکن وہ کارگر نہ ہوسکے۔ پھر وہ خود ہی رخصت ہو گئے۔ یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان کی رخصتی کا پروانہ کہاں سے جاری ہوا۔
اس وقت ہم امریکا کی دسترس میں ضرور تھے مگر یہاں پر وہ قوتیں بھی اتنی ہی مضبوط تھیں، جنھوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دینا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان گنوائی، وہ نقصان تو بہت بڑا تھا مگر قربانی تھی۔ جمہوریت مضبوط ہوئی یہاں تک کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی آصف علی زرداری کے صدر بننے کی تقریب میں شرکت کی، اٹھارھویں ترمیم پاس ہوئی۔
اس ماحول کو رول بیک کرنے کے لیے خان صاحب کو متعارف کروایا گیا۔ جب چین کے منصوبے سی پیک میں شامل ہونے جا رہے تھے تو ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا۔ دو سال کے اندر جمہوریت کو جھکا دیا گیا۔ ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کی بازگشت سنی گئی۔ خان صاحب کو سلیکٹڈ ووٹوں کے ذریعے لایا گیا۔ ٹرمپ صاحب امریکا کے صدر تھے۔
خان صاحب پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے دہانے لے آئے جو آج تک سنبھل نہیں پائی۔ جب ٹرمپ گئے تو خاں صاحب بھی یہاں سے رخصت ہوگئے۔ جاتے جاتے انھوں نے پاکستان کی معیشت کا ڈھانچہ ہلا دیا۔ ٹرمپ دوبارہ میدان میں آچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کو ایک پتے کی صورت میں رکھا ہوا ہے، پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپنا پریشر برقرار رکھنے کے لیے۔
امریکا کی انتظامیہ کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے ۔ اچھا یا برا ایک سسٹم اب بن چکا ہے اور یہ موجودہ سسٹم کچھ سالوں کے لیے چل بھی سکتا ہے مگر جو برا ہوا ہے، اس کا خمیازہ ہم کو بھگتنا پڑے گا۔
بانی پی ٹی آئی نے یہاں جمہوری اقداروں کو مٹاتے مٹاتے اپنا کام تمام کیا۔کل وہ مقتدر قوتوں کی بی ٹیم تھے، آج وہ کام جمہوری قوتیں کر رہی ہیں، مگر اس بات سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ بانی پی ٹی آئی سیاسی قوت نہیں، وہ اگر اب بھی چاہیں تو ڈائیلاگ کی صورت نکال سکتے ہیں اور ان مذاکرات کے ذریعے اپنے اور پارٹی کے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، اگر مقتدر قوتیں چاہیں تو۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت مختلف ہو چکی ہے۔ وہ اچھی حکمرانی نہیں دے پائی ۔ لوگ ’’ جئے بھٹو‘‘ کے نعرے پر مزید نہیں چل سکیں گے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ وڈیروں کا ہونا کوئی اہم بات نہیں۔ یہ سترہ سال سے اقتدار میں ہیں، اگرکوئی نئی پارٹی یا اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو وڈیروں کا پیپلز پارٹی سے انخلاء ہو جائے گا۔
اب ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے کہ نئی جمہوری قوتیں بنیں، اگر یہ خلاء جلد ہی نہ پر ہوسکا تو وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا۔ جمہوری قوتوں کے حوالے سے میرغوث بخش بزنجو ایک قد آور شخصیت تھے، اب بلوچستان میں ان کی جیسی کوئی شخصیت نہیں۔ ڈاکٹر مالک جیسے لوگ موجود ضرور ہیں لیکن بلوچستان کا بیانیہ ان سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ سندھ میں رسول بخش پلیجو جیسی شخصیات تھیں اور اب یہاں پر بھی ایسا ہی خلاء ہے، اب تک بھر نہیں پایا۔ خیبر پختونخوا میں ولی خان جیسی شخصیتیں نہیں مگر ایسا فقدان بھی نہیں جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا سلسلہ ضیاء الحق کی باقیات سے تھا۔ انھوں نے اس سلسلے کو خیر باد کہا اور جمہوری قوت بنے لیکن اس دفعہ مسلم لیگ (ن) پھر اسی ڈگر پر ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ خان صاحب کے بیٹے قاسم اور سلیمان اس نظام کے خلاف تحریک کا حصہ بنیں۔ اب یہ وقت ان کے آنے کا نہیں جب ان کو آنا تھا وہ آئے نہیں اور جب ارادہ ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ حالات اب بدل چکے ہیں، چھبیسویں ترمیم ہوچکی ہے، امریکا سے تعلقات بہتر ہیں اور چین سے بھی تعلقات خوشگوار ہیں۔
سسٹم تو بدل جائے گا لیکن مستقبل قریب میں نہیں۔ یہ افواہیں اور خبریں ایسے ہی چلتی رہیں گی کہ کیا زرداری صدرکے عہدے سے استعفیٰ دیں گے اور کیا یہ حکومتی اتحاد ٹوٹنے جا رہا ہے؟ البتہ اگر مقتدر قوتوں نے اس سسٹم کو چھیڑنے کی کوشش کی یا پھر کوئی نئی آئینی ترمیم لے آئے تو سسٹم ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ اگر حکمران اب کوئی غلطی نہ کریں تو اس وقت ان کو کوئی اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس وقت ملکوں کی نگاہیں جنگوں اور دفاع پر مرکوز ہیں۔ کسی ریاست کو ایک سے تو دوسری ریاست کو تیسری سے خطرہ ہے۔ ٹرمپ صاحب کے آنے کے بعد دنیا کا ماحول کچھ ایسا ہی ہو چکا ہے، سب کی توجہ جنگی تیاریوں پر مرکوز ہیں۔ ایران اپنی فضائی طاقت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے، اسی طرح برطانیہ بھی۔ ہندوستان اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو مضبوط بنا رہا ہے اور اسی طرح پاکستان بھی اپنی دفاعی طاقت کو وسیع کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔
دنیا بلاول بھٹو کو جانتی ہے۔ وہ ہندوستان کے پروپیگنڈہ کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ سسٹم نہ الجھے توکچھ وقت اچھے اور بہتر طور پرگزر سکتا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کی شقیں آئین کے اندر خود آئین ہونے کا حق واپس لے سکتی ہیں۔ آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی ترامیم آئین کی روح کے مطابق ہیں یا اس کے خلاف؟ یہ ذمے داری عدالتوں کی ہے جو آئین کی پاسبان ہیں کہ آئین کے اندر ایسی کوئی ترمیم نہ ہو جو آئین میں بگاڑ پیدا کرے۔
غیر فطری طور پر آصف علی زرداری کو صدر کے منصب سے ہٹایا جاسکتا ہے مگر حکومت کا ایسا کوئی بھی قدم زرداری کو ہیرو ضرور بنا دے گا اور پھر پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر سندھ کارڈ کھیلنے کے قابل ہو جا ئے گی وہ کارڈ جو اس وقت پیپلز پارٹی کھیل نہیں سکتی۔ سندھ کے اندر قوم پرست بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے کیونکہ بری حکمرانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بھوک اور بد حالی کا راج ہے۔
ہماری سیاست ایک مخصوص اشرافیہ کے پاس کٹھ پتلی کی مانند ہے جو مقدرہ قوتوں کی گٹھ جوڑ سے وجود میں آئی ہے یا پھر ان سلسلہ نسب انگریز سامراج سے ملتا ہے۔ ہم ستر اور اسی کی دہائی میں ہندوستان سے معاشی طور پر بہت بہتر تھے اور آج ہم ان سے کہیں پیچھے۔
اس کی وجہ ہیں، اس اشرافیہ کے ذاتی مفادات۔ اس اشرافیہ سے آزاد ہونے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں صرف یہ کہ آئین کی بالادستی، جمہوریت اور مڈل کلاس سیاست! پچیس کروڑ عوام کا یہ ملک پچھتر سال گزرنے کے بعد ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اگر ہم نے تبدیلیوں میں ڈھل سکے تو ہم توازن برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی پاکستان کی سکتا ہے کے اندر رہا ہے یہ جنگ
پڑھیں:
پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد:ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہل کاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔
گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟