ملکی سیاسی صورتحال اور سرمایہ کاروں کی بے چینی کا سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے نقشہ کھینچ دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
لاہور (ویب ڈیسک) ملکی سیاسی صورتحال اور سرمایہ کاروں کی بے چینی کا سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے نقشہ کھینچ دیا۔
روزنامہ جنگ میں چھپنےو الے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ " ہمارے تضادستانی گھر سے ’’فیصلہ بھائی‘‘ گم ہو گئے ہیں وہ ایسے کھوئے ہیں کہ کوئی فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا اور اگر کہیں کوئی جھوٹا،سچا، الٹا سیدھا فیصلہ یا فیصلی کی بھی جاتی ہے تو وہ گلے پڑ جاتی ہے۔ فیصلہ بھائی کیا گئے کہ سب کچھ گڈمڈ ہو گیا۔ تجربہ کار وفاقی کابینہ کی موجودگی میں ایک ہی سال کے ایک ہی سیزن میں پہلے یہ کہہ کر چینی برآمد کر دی گئی کہ چینی کا اضافی اسٹاک ہے اسلئے فالتو چینی برآمد کر رہے ہیں۔ پھر اسی قابل ترین کابینہ نے اسی سیزن میں چینی درآمد کر لی کہ چینی کم یاب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس نااہلی کی وجہ صرف اور صرف فیصلہ بھائی کی گمشدگی ہے وگر نہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ حکومت ایک ہی سال میں، ایک ہی سیزن میں دو متضاد فیصلے کر لے؟
کیا یہ منافقت نہیں؟ اقرارالحسن نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھادیا
فیصلہ بھائی ہمارے درمیان ہوتے تو کیا زراعت کا یہ حال ہوتا؟ کپاس کی پیداوار کم ہوتی۔ گرین انیشی ایٹو اور زراعت کیلئے مراعات کے اعلان کے باوجود زراعت کے کسی شعبے میں اضافہ نہیں صرف کمی ریکارڈ کی گئی ہے، کسان کی گندم خریدنے والا کوئی نہیں۔ حالانکہ سائیں کی خواہش تھی کہ زراعت پھلے پھولے، بمپر کراپس ہو مگر ہوا الٹ؟ وجہ صرف اور صرف فیصلہ بھائی کی گم شدگی ہے۔
کہا گیا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا سیلاب آرہا ہے ،بجٹ کہانی بالکل الٹ ہے بیرونی سرمایہ کاری تو ایک طرف خود اپنےملک کے سرمایہ کاروں نے ہاتھ اٹھا لیے، شرح پیداوار مایوس کن ہے۔ قابل ترین وزیر خزانہ اور تجربہ کار نائب وزیر اعظم کی موجودگی میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے اس کی ایک ہی معقول وجہ نظر آتی ہے اور وہ صرف اور صرف فیصلہ بھائی کی عدم موجودگی ہے۔ وگرنہ اس قدر ذہانت اور تجربے کے باوجود اس درجہ مایوس کن صورت حال کیوں پیدا ہوتی۔
احمد علی بٹ کو حمیرا اصغر کا انٹرویو دوبارہ اپ لوڈ کرنے پر تنقید کا سامنا
اور تو اور حکومت نیک نیتی سے ٹیکس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے بڑا زور لگا کر ٹیکس میں اضافہ کر بھی لیا گیا۔ ارادہ تھا کہ ٹیکس نیٹ میں تاجر اور دوسرے نئے شعبوں کو لا کر ٹیکس دہندگان کو بڑھایا جائے گا، اب جو ا عداد و شمار سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہےکہ ٹیکس نیٹ میں تو وسعت نہیں آسکی البتہ سارا زور تنخواہ دار طبقات سے ٹیکس وصولی پر ہے جو پہلے ہی سے پسے ہوئے ہیں، یہاں بھی بڑے بڑے طاقتور افسر ہیں، بارسوخ اور بارعب ہیں مگر فیصلہ بھائی کے نہ ہونے سے ساری گیم خراب ہو رہی ہے۔
وفاقی حکومت تاریخ کی تجربہ کار ترین کابینہ چلا رہی ہے وزیر اعظم کے تجربے کا پورے ملک میں کوئی ثانی نہیں، وہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں، کابینہ میں خود وزیر اعظم کے تربیت یافتہ چھ سے زائد پرسنل اسٹاف افسران کندھے سے کندھا ملائے کام کر رہے ہیں۔ پرسنل اسٹاف افسروں سے زیادہ بااعتماد کون ہوتا ہے وہ تو ابرو کا اشارہ بھی سمجھتے ہیں، باس کی خوبیوں کا ان کے علاوہ کسی کو حتیٰ کہ باس کے خاندان کو بھی علم نہیں ہوتا ۔ اس قدر ’’شاندار‘‘ کابینہ کے باوجود فیصلے نہیں ہو رہے۔ مسئلہ وہی ہے فیصلہ بھائی کی عدم موجودگی۔ کاش کوئی فیصلہ بھائی کو ڈھونڈنکالے۔
ایمان مزاری نے خود سے منسوب بلوچستان میں شہید ہونیوالوں سے متعلق بیان کی تردید کردی
وزیر اعظم ہائوس اس وقت تاریخ کے سب سے قابل، ذہین اور تجربہ کار افسروں کے زیر نگرانی چل رہا ہے، تجربے نےان کو کندن بنا دیا ہے، پرسنل اسٹاف افسروں نے رشوت ،سفارش اور سیاست کے رستوں کو مکمل بند کر رکھا ہے کمی ہے تو بس ایک۔ اور وہ کمی بھی صرف فیصلہ بھائی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ نہ نیت کا کھوٹ ہے نہ لوٹ کھسوٹ ہے اور نہ استعداد کی کمی۔ بس فیصلہ بھائی کہیں نظر نہیں آرہے۔
بلھے شاہ کی گٹھڑی کو چور لے اڑے تو انہیں مکمل اندازہ تھا کہ چوری کیسے ہوئی ،چور کون ہے اور گٹھڑی کے اندر کیا کیا خزانے چھپے تھے جو جاتے رہے۔ ہمارے تضادستانی گھر کومکمل علم تو نہیں مگر کچھ کچھ اندازہ ہے، ماہرین نفسیات اورماہرین سماجی علوم اس پراسرار گم شدگی کی تاریخی، سماجی اور نفسیاتی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ انکے مطابق فیصلہ بھائی کو فرید الدین عطار کی طرح حاسدوں نے اس قدر تنگ کیا کہ وہ اپنے محبوب رومی سے جدا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔ہمارے گھر میں بھی فیصلہ بھائی کو 75سال سے اس قدر تنگ اور پریشان کیا گیا کہ وہ بالآخر کہیں کھو گئے ہیں ۔ ان کی کوئی خبر ہے اور نہ ان کا کوئی پتہ۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ گھر کی کارکردگی بیگم کو فیصلہ بھائی نے سارے اختیارات دیئے ہوئے تھے وہی سارا نظام چلاتی تھی، غلطیاں بھی کرتی تھی مگر نظام میں بہتریاں بھی لاتی تھی ،نئے نئے آئیڈیاز سے گھر کو کھڑا رکھا ہوا تھا۔ مگر سوتیلے ماموں میاں احتساب نے اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا ہر معاملے پر کارکردگی میں کیڑے نکالتے،
سٹیج اداکارہ سجناں چودھری کو غیر اخلاقی ڈانس پرفارمنس پر نوٹس جاری
فیصلہ بھائی دفاع کرتے مگر سوتیلے ماموں میاں احتساب پر بھیڑ بکریاں واہ واہ کے ڈونگرے برساتیں۔ میاں احتساب نے اپنا نیٹ ورک اس قدر وسیع کر لیا کہ فیصلہ بھائی کا سانس ہی بند ہونے لگا۔ سازشوں کا جال اتنا ظالمانہ تھا کہ اس سے کسی بھی حکومت، کسی بھی وزیر، حتیٰ کہ وزیر اعظم اور صدر کا بچنا بھی مشکل ہو گیا۔ جب سے میاں احتساب نےنیب خانم اور ٹیکس النساء دو سوکنوں کو کارکردگی بیگم کے مقابل لا کھڑا کیا ہے گھر کا نظام رکنے لگاہے۔ پہلے ہی آنٹی اینٹی کرپشن اور عدالت بیگم نے شکنجہ ڈالا ہوا تھا نئی سے نئی افتاد پڑنے پر کارکردگی بیگم نے عملی زندگی سے ریٹائرمنٹ لے کر اللہ اللہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ فیصلہ بھائی مایوس ہونے لگے انکا انحصار سو فیصد کارکردگی بیگم پر تھا انہوں نے گھر کے معاملات سے کنارہ کیا تو بھٹہ ہی بیٹھ گیا فیصلہ بھائی کو احساس ہو گیا کہ اب وہ غیر متعلق ہو گئے ہیں ،گھر کو خدا حافظ کہا اور نہ جانے کہاں چلے گئے ۔بس اس دن سے گھر میں فیصلے نہیں ہو رہے باقی سب ٹھیک ہے بس فیصلہ بھائی گم ہیں۔ تلاش گم شدہ کے اشتہار کے بعد شاید کوئی انہیں ڈھونڈ لائے تو گلشن کا کاروبار چلے"۔
حکومت نے 2 اہم محکموں کو ضم کر کے نیشنل ایگری-ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی قائم کر دی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: صرف فیصلہ بھائی کی فیصلہ بھائی کو کارکردگی بیگم سرمایہ کاروں میاں احتساب تجربہ کار نہیں ہو ہے اور ایک ہی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
—فائل فوٹوپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما قاضی انور نے پارٹی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ ٰعلی امین گنڈاپور کو فوجی شہداء کے جنازوں میں شرکت کرنی چاہیے۔
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا تو فوجی جوانوں کے جنازوں میں پہنچ جاتا، پی ٹی آئی کی قیادت سے میں مطمئن نہیں ہوں تو عوام کیسے مطمئن ہو گی؟
قاضی انور کا کہنا ہے کہ پچھلے 6 ماہ سے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہو رہی، میں 3 بجے تک انتظار کرتا ہوں، پھر واپس چلا جاتا ہوں
پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ علی امین گنڈاپور ہمارے وزیراعلیٰ ہیں، سوشل میڈیا پر اسے غدار کہا جاتا ہے، اگر وہ غدار ہیں تو اس کی حکومت کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے، پتہ نہیں کون یہ پروپیگنڈا کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ اچھے وکیل ہیں، وکیل میں اور سیاسی میدان سے آئے سیاستدان میں بہت فرق ہے، مجھے ان کی ایمانداری پر نہیں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ پر شک ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی سپورٹ کے بغیر نہ کوئی جدوجہد ہوتی ہے نہ انقلاب آتا ہے، جب تک پی ٹی آئی کی قیادت میدان میں نہیں آئے گی تو عوام کیسے نکلے گی، قیادت کا دیانتدار ہونا ضروری ہے، لوگ ایماندار قیادت کے پیچھے نکلتے ہیں۔
قاضی انور کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پیدا ہونے والے حالات اب سنبھالنا مشکل ہے، دہشت گرد فوج کے راستے میں بارود ڈالتے ہیں۔