WE News:
2025-11-03@18:01:38 GMT

دیامر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، نظامِ زندگی مفلوج

اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT

دیامر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، نظامِ زندگی مفلوج

گلگت بلتستان کا ضلع دیامر شدید سیلاب کی لپیٹ میں آگیا ہے، جہاں مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ چلاس کے علاقوں تھور، نیاٹ اور تھک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تھور میں سیلاب کے باعث ایک مسجد شہید ہو گئی، رابطہ پل بہہ گیا اور پانی واپڈا کالونی میں داخل ہو چکا ہے۔

ترجمان حکومت گلگت بلتستان فیض اللّہ فراق کے مطابق تھک میں صورتحال مزید سنگین ہے جہاں سیلابی ریلوں نے کم و بیش 50 مکانات بہا دیے، متعدد علاقے جھل تھل کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اسی علاقے میں ایک خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جن میں ایک مقامی باشندہ شامل ہے جبکہ باقی 4 کا تعلق دیگر صوبوں سے بتایا گیا ہے۔ مزید 4 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 15 سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔ سیلابی ریلے میں تقریباً 15 گاڑیاں بھی بہہ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان، شاہراہ تھک بابوسر پر سیلابی ریلے کی تباہ کاریاں، 3 سیاح جاں بحق، 15 سے زائد لاپتا

شاہراہ بابوسر پر ایک گرلز اسکول، 2 ہوٹل، ایک پن چکی، گندم ڈپو، پولیس چوکی اور ٹورسٹ پولیس شلٹر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ سیلاب سے شاہراہ سے متصل 50 سے زائد مکانات ملیا میٹ ہوچکے ہیں، 8 کلومیٹر سڑک شدید متاثر ہے اور کم از کم 15 مقامات پر روڈ بلاک ہوچکی ہے۔ تھک بابوسر میں 4 اہم رابطہ پل بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔

???? دنیور، گلگت بلتستان_

سیلاب نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے
دنیور میں سیلاب گھروں میں داخل ہو گیا!

گلگت شہر اور گردونواح میں سیلابی خطرہ
گلگت کے نواحی علاقوں دنیور اور ملحقہ دیہی گاؤں میں گزرنے والی ندیوں میں اچانک پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے، اور کئی مقامات پر سیلاب کی… pic.

twitter.com/Q1kVyrMm9i

— Gilgit Baltistan Tourism. (@GBTourism_) July 22, 2025

سیلاب سے نہ صرف رہائشی املاک متاثر ہوئی ہیں بلکہ ہزاروں فٹ عمارتی لکڑی بھی پانی میں بہہ گئی ہے، جبکہ 2 مساجد بھی شہید ہوچکی ہیں۔ تھک بابوسر میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے جس کے باعث کئی سیاحوں کا اپنے خاندانوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ لاپتا سیاحوں کی تلاش کا عمل جاری ہے، جبکہ اب تک 200 سے زائد سیاحوں کو ریسکیو کرکے چلاس پہنچایا گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے اہلخانہ سے دوبارہ رابطے میں آچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر: ’حقوق دو ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز، مظاہرین نے قرآن پاک پر حلف کیوں اٹھایا؟

متاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت دیامر کی جانب سے میڈیکل کیمپ قائم کر دیا گیا ہے اور چلاس جلکھڈ روڈ کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔ تتا پانی اور لال پڑی سمیت دیگر مقامات پر قراقرم ہائی وے کو چھوٹی گاڑیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کو ممکن بنایا جاسکے۔ تاہم بابوسر روڈ پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور تمام تر ٹریفک معطل کردی گئی ہے۔

#سیلاب
ترجمان حکومت #گلگت_بلتستان فیض اللہ فراق کے مطابق ضلع دیامر چلاس شہر کے گردو نواح میں شدید بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی اور واپڈا کالونی زیر آب گئی ہے، جہاں کئی افراد موجود ہیں۔
ترجمان کے مطابق چھوٹی گاڑیوں کے لیے شاہراہِ قراقرم کھول دی گئی، تاہم بابوسر کا راستہ… pic.twitter.com/MGD5SZxw2z

— Abdul Jabbar Nasir (عبدالجبارناصر) (@ajnasir) July 22, 2025

ڈپٹی کمشنر دیامر عطا الرحمٰان کاکڑ نے بتایا کہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرے گا، اور عوام کو کسی بھی ایمرجنسی میں فوری مدد کے لیے فراہم کردہ نمبرز پر رابطے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news تھک بابو سر چلاس دیامر سیلاب گلگت بلتستان

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تھک بابو سر چلاس دیامر سیلاب گلگت بلتستان گلگت بلتستان میں سیلاب گیا ہے گئی ہے کے لیے

پڑھیں:

ڈپریشن یا کچھ اور

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔

ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔

دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔

انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔

ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔

پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟

دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔

سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔

اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شاہانہ زندگی گزارنے والے ممکنہ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرلی گئی
  • شہرِ قائد میں 6 روز کے دوران 26 ہزار سے زائد ای چالان
  • کراچی میں 6 روز کے دوران ٹریفک قوانین کیخلاف ورزی پر 26 ہزار سے زائد ای چالان کٹ گئے
  • کراچی ، ٹریفک قوانین کیخلاف ورزی,6 دن 26 ہزار سے زائد ای چالان
  • کراچی: 24 گھنٹوں کے دوران مزید 3283 الیکٹرانک چالان جاری
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے ہیں، میرا کیریئر بھی تباہ کیا؛ عمر اکمل
  • فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • کراچی: ای چالان نظام کے نفاذ کے بعد 5ویں روز 4136 الیکٹرانک چالان جاری