شام کی صورتحال شہید سید ابراہیم رئِسی کے معاون کی آنکھ سے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
ایک ٹی وی پروگرام میں پروفیسر سید محمد حسینی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ایرانی صدر شہید "سید ابراہیم رئیسی" کے معاون، پروفیسر "سید محمد حسینی" نے نیشنل ٹی وی پر شام کی صورت حال پر تبصرہ کیا۔ اس حوالے سے سید محمد حسینی نے کہا کہ آج کل شام میں اہم واقعات رونماء ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے جولانی گینگ جیسے دہشت گرد گروہ کے زیر استعمال صدارتی محل اور فوجی ہیڈکوارٹر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ شام کے پاس نہ تو کوئی جوہری پروگرام ہے، نہ ہی یورینیم افزودگی کا نظام، نہ میزائل کی صلاحیت اور نہ ہی مؤثر فضائی دفاع۔ اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے لیے بھی سنگین فوجی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود دشمن شام پر بمباری اور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کے مقاصد کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ سے وابستہ حلب کی حکومت، امریکہ سے وابستہ کردوں کی حکومت، دروزیوں کی ایک الگ حکومت، اور دمشق یا علویوں کی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ واضح طور پر شام کے حکومتی ڈھانچے کے مکمل ٹوٹنے کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر سید محمد حسینی نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف صرف شام اور لبنان تک محدود نہیں۔ اگر وہ کر سکیں تو عراق، سعودی عرب، مصر اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایک ایسا علاقائی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں طاقت ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی ممالک ان کے تابع۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گذشتہ دور میں، ایران کو علاقائی خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ یہی عوامی بیداری ہے جس کی وجہ سے قومیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ بہت سی حکومتیں بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ہم نے دیکھا کہ اسلامی ممالک اور یہانتک کہ عرب لیگ بھی ایران کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کا عالمی عوامی رائے پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور مزید مضبوط ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
غزہ :غذائی قلت اور فاقہ کشی سے 4 بچوں سمیت 15 افراد شہید
غزہ میں اسرائیلی فوج نے بھوک کو جنگی ہتھیار بنا لیا ،گزشتہ 24 گھنٹوں میں 4 بچوں سمیت کم از کم 15 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔ وزارت صحت کے مطابق غزہ میں غذائی قلت اور شدید فاقہ کشی نے معصوم بچوں سمیت عام شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ 3 روز میں خوراک کی کمی کے باعث 21 بچے انتقال کر چکے ہیں اور مجموعی طور پر اب تک 80 بچوں سمیت 101 فلسطینی غذائی بحران کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی ”اونروا“ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔ مارچ سے اب تک محدود امداد کے باعث بچوں کی صحت اور نشوونما پر سنگین خطرات منڈلا رہے ہیں۔
غزہ میں مصر کی سرحد پر کھڑے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت نہ ملنے اور مسلسل بمباری کی وجہ سے شہری ایک وقت کے کھانے کو ترس رہے ہیں، والدین کے لیے اپنے بچوں کو خوراک مہیا کرنا ایک نا ممکن کام بن چکا ہے۔
ترجمان نے کہا غزہ میں غذائی بحران سنگین ہو چکا ہے، بچے ایک وقت کے کھانے کو ترس رہے ہیں اور والدین کے پاس انہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔
اونروا نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ فوری اور بلا تاخیر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ معصوم جانوں کو بچایا جا سکے۔