روزانہ 7 ہزار قدم پیدل چلنا بیماریوں کو دور رکھتا ہے، تحقیق میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
ایک نئی بین الاقوامی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ روزانہ صرف 7 ہزار قدم چلنا دماغی طاقت کو بہتر بنانے اور کینسر، دل کی بیماری، ڈیمینشیا اور ڈپریشن جیسے مختلف امراض سے بچاؤ کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف میڈیکل جرنل لنسٹ پبلکل ہیلتھ میں شائع ہوئی ہے جس میں دنیا بھر سے ایک لاکھ 60 ہزار بالغ افراد کے طرزِ زندگی اور صحت کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
تحقیق میں معلوم ہوا کہ وہ افراد جو روزانہ 2 ہزار قدم چلتے ہیں ان کے مقابلے میں 7 ہزار قدم چلنے والے افراد میں دل کی بیماری کا خطرہ 25 فیصد، کینسر کا خطرہ 6 فیصد، ڈیمینشیا کا خطرہ 38 فیصد اور ڈپریشن کا خطرہ 22 فیصد کم ہوتا ہے۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر میلوڈی ڈِنگ کے مطابق 10 ہزار قدم روزانہ چلنے کا تصور سائنسی بنیادوں پر نہیں بلکہ 1960 کی دہائی میں جاپان میں ایک مارکیٹنگ مہم سے آیا تھا جب “مانپو-کےئی” نامی پیڈومیٹر متعارف کرایا گیا تھا، جس کا مطلب ہے “10,000 قدموں کا آلہ”۔
یہ بھی پڑھیے: اعصابی درد کی دوا ’گیباپینٹن‘ کے دماغی صحت پر مضر اثرات کا انکشاف
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ 4 ہزار قدم روزانہ بھی جسمانی صحت میں بہتری لا سکتے ہیں، اور اگرچہ 7 ہزار قدم پر زیادہ فوائد نظر آتے ہیں، دل کی صحت کے لیے اس سے زیادہ چلنے میں بھی فائدہ ہے۔
برطانیہ کے ماہرِ صحت ڈاکٹر ڈینیئل بیلی کے مطابق 5 ہزار سے 7 ہزار قدم ایک زیادہ حقیقت پسندانہ ہدف ہو سکتا ہے خاص طور پر ان افراد کے لیے جو زیادہ متحرک نہیں ہوتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تحقیق دوڑ سائنس صحت واک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دوڑ واک کا خطرہ کے لیے
پڑھیں:
سوڈان،خونریز جنگ، والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، اجتماعی قبریں و لاشیں
خرطوم(ویب ڈیسک) سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔
جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔