7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے واقعات ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے، جس کے بعد اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے فلسطینی مسئلے کے مکمل خاتمے کا راستہ اختیار کیا۔

وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت نے قومی سلامتی اور حماس کے حملوں کا بہانہ بنا کر غزہ پر بھرپور فوجی حملے شروع کیے، لیکن اس فوجی مہم کے پیچھے اصل مقصد فلسطینی خودمختاری کا خاتمہ اور آبادی کی جبری نقل مکانی یعنی ایک طرح کی نسل کشی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو نے کس کے دباؤ میں آکر غزہ چرچ پر گولہ باری کو ’غلطی‘ قراردیا

غزہ میں تباہ کن انسانی بحران کے باوجود، جس میں  ہزاروں اموات، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور انسانی امداد پر پابندی شامل ہے، اسرائیلی حملے جاری ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، مگر اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی پروا کیے بغیر اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔

نتیجتاً یہ تنازع ایک ایسی سطح تک جا پہنچا ہے جہاں شدت اور ظلم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

18 جولائی 2024 کو اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس کے مطابق فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے ایک ’وجودی خطرہ‘ ہے۔

اس قرارداد میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام دہشتگردی کو انعام دینا، تنازع کو مزید بڑھانا، اور خطے کو غیر مستحکم کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ کے 40 دن بعد، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے قوم کے لیے نئے اہداف کا اعلان کردیا

ان کا خیال ہے کہ اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو وہ جلد حماس کے قبضے میں آ جائے گی اور ایران کے زیر اثر ایک ’دہشتگرد مرکز‘ بن جائے گی۔

اس کے بعد 23 جولائی 2025 کو کنیسٹ نے ایک اور سخت قرارداد منظور کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ پورے مغربی کنارے (ویسٹ بینک) پر اسرائیلی حاکمیت قائم کی جائے گی اور ان علاقوں کو قانونی و انتظامی طور پر اسرائیل کا حصہ بنایا جائے گا۔

یہ اقدام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل اب مغربی کنارے کے الحاق کو ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔

اس میں یہ بھی شامل ہے کہ یہودی بستیوں کو مزید وسعت دی جائے گی، فلسطینیوں کو بےدخل کیا جائے گا اور فوجی قبضے کو مزید سخت کیا جائے گا، چاہے بین الاقوامی قوانین اور احتجاج کچھ بھی کہیں۔

اسرائیل اب تنازع کو روکنے کی پالیسی چھوڑ کر پورے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی و سیاسی حقیقت کو یکطرفہ طور پر بدلنے کے درپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی پاور پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، شہری گھروں محصور ہونے پر مجبور

صرف اندرونی اقدامات ہی نہیں، اسرائیل اب اپنے علاقائی مخالفین کے خلاف بھی فوجی و سیاسی اقدامات کر رہا ہے، جن میں ایران، حزب اللہ، حوثی اور ترکی شامل ہیں۔

ستمبر 2024 میں اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا، جو اس گروہ کی مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

اس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں متعدد حملے کیے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

اسرائیل نے امریکا کی مدد سے لبنان کی نئی حکومت کو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے پر آمادہ کرنے کی سفارتی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔

یمن میں اسرائیل نے حوثیوں کے خلاف بھی کئی کارروائیاں کی ہیں، خاص طور پر ان کے میزائل مراکز اور اسلحہ کے ذخائر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج بھی شامل رہی ہیں تاکہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی

اسی طرح شام میں اسرائیل نے اپنے روایتی فضائی حملے جاری رکھے ہیں، لیکن اب وہ دروز اور کرد گروپوں کو علیحدگی کی تحریکوں کے لیے خاموش حمایت دے رہا ہے تاکہ شام میں ایران اور ترکی کا اثر کم کیا جا سکے۔

موسمِ بہار 2025 میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کئی دہائیوں کا سب سے بڑا تنازع سامنے آیا، جسے ’12 روزہ جنگ‘ کہا جا رہا ہے۔

اس میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے کیے، جس کے بدلے اسرائیل نے ایران کے ایئر ڈیفنس، نیوکلیئر تنصیبات اور عسکری مراکز کو نشانہ بنایا۔

یہ جنگ امریکی اور قطری سفارتی کوششوں سے رکی، لیکن یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل اب کھلے فوجی تصادم کے لیے بھی تیار ہے تاکہ ایران کے اثر کو ختم کیا جا سکے۔

تاہم اسرائیل کی یہ پالیسی امریکا کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہے، خاص طور پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے لیے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل میں بجلی کے نظام میں خلل، دھماکے اور آتشزدگیوں کے مشتبہ واقعات

ٹرمپ نے انتخابی مہم میں غزہ تنازع ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اسرائیل کی جارحیت نے امریکا کو ایک نازک پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔

اسرائیل نے حال ہی میں ایک اور متنازع منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق غزہ کے تمام فلسطینیوں کو بےدخل کر کے اسے ایک سیاحتی علاقے، ’غزہ ریویرا‘ میں تبدیل کیا جائے گا، جہاں خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری سے جدید منصوبے بنائے جائیں گے۔

ٹرمپ نے اسے ’عملی‘ اور ’جدید سوچ‘ قرار دیا، لیکن اس پر کوئی عملی اقدام نہیں ہوا۔

مجموعی طور پر اسرائیل اب ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے جس کا مقصد فلسطینی مسئلے کا مکمل خاتمہ اور پورے مغربی کنارے و غزہ پر مستقل قبضہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران، ترکی، حزب اللہ اور حوثیوں جیسے مخالفین کو بھی کمزور کرنے میں مصروف ہے۔

اس مقصد کے لیے فوجی طاقت، سفارت کاری، لابنگ اور پروپیگنڈا سبھی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل

مگر اس منصوبے کے مکمل ہونے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا میں، فلسطین کے مسئلے پر اختلاف موجود ہے۔ کچھ حلقے 2 ریاستی حل کے حامی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت عرب ممالک میں نفرت بڑھا رہی ہے، اور اس سے خطے میں بڑا تصادم پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

دنیا کے بدلتے حالات اور عدم استحکام میں، مشرق وسطیٰ کی یہ صورتحال کسی بڑے عالمی تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس بحران کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر سفارتی مداخلت کی ضرورت ہے، اگرچہ حقیقت میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے ہی ایک بےقابو تباہی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔

تجزیہ نگار : مراد صادق زادہ، صدر مشرق وسطیٰ مطالعاتی مرکز، وزیٹنگ لیکچرر، ایچ ایس ای یونیورسٹی (ماسکو)۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران حزب اللہ حسن نصراللہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ مشرق وسطیٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران حزب اللہ حسن نصراللہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی ریاست میں اسرائیل اسرائیل اب اسرائیل نے اسرائیل کی ایران کے حزب اللہ جائے گا جائے گی رہا ہے کے لیے کیا جا

پڑھیں:

امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی

اپنے ہفتہ وار خطاب میں انصار الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے سربراہ "سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی" نے غزہ کے تازہ ترین واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہفتہ غزہ کی عوام کے لیے سب سے مشکل اور المناک رہا۔ غزہ کے بچوں کی حالت اور ان کے مسائل کی داستان دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ تصاویر انسانی معاشرے خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بدنماء داغ ہیں۔ غزہ کے بچے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی دشمن نے اپنے ظالمانہ اقدامات کے لیے انہیں اہم ہدف بنا لیا ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے غزہ میں بچوں کے لیے خشک دودھ کی ترسیل روکنے کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد صرف نسل کشی ہے۔ اسی لیے وہ ان اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا رہا ہے۔ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ وہ محض تفریح کے لیے غزہ کے معصوم بچوں کو مار رہے ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کے دوغلی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "عورت کے حقوق" ایک ایسا عنوان ہے جسے مغرب نے دھوکہ دینے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ ہماری معاشرتی اقدار کو نشانہ بنایا جا سکے اور ہماری اجتماعی وحدت کو پارہ پارہ کیا جا سکے۔
  سید الحوثی نے کہا کہ اس وقت اسرائیل، غزہ میں فلسطینی خواتین پر ہر قسم کا ظلم روا رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی المناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل، فلسطینی خواتین کو امریکی بموں سے شہید کر رہا ہے۔ دوسری جانب اس ہفتے غزہ کے بیشتر لوگوں نے کھانا نہیں کھایا۔ وہ گزشتہ پانچ دن سے بھوکے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے قائم کردہ انسانی امداد کے مراکز کو موت کا جال قرار دیا۔ اس سلسلے میں سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ ان امدادی مراکز پر صیہونی فوجیوں نے گولیاں چلا کر ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قحط، انسانی معاشرے، مسلمانوں اور عربوں کے لیے ایک شرمناک ہے۔ اس وقت 71 ہزار فلسطینی بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تقریباً 17 ہزار ماؤں کو غذائی کمی کے بعد فوری طبی امداد کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بچایا جا سکے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ طبی اور انسانی حالات بگڑنے کی وجہ سے غزہ میں بچوں اور شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 9 لاکھ بچے بھوک کا شکار ہیں اور ان میں سے 70 ہزار شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔

یمن میں انقلاب کے روحانی پیشواء نے کہا کہ OIC نے غزہ کے لوگوں کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ سید الحوثی نے سوال اٹھایا کہ عرب تنظیمیں کہاں ہیں؟ اور وہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک، نسل کشی اور جبری بے دخلی کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف کیا کر رہی ہیں؟۔ اس وقت اسرائیل، مہاجرین پر حملوں سے باز نہیں آرہا، حالانکہ اس نے انہیں دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فی الحال غزہ کے رہائشیوں کو پیاس کی شدت میں مبتلا کر کے ان علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے جہاں شاید انہیں تھوڑا سا پانی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عرب اور مسلم ممالک نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب کہاں ہیں؟۔ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے؟۔ ہم کیوں خاموش ہیں؟۔ ہم غزہ میں یہ المناک واقعات کیوں دیکھ رہے ہیں؟۔ آپ کا انسانی، اسلامی اور اخلاقی فرض کہاں گیا؟۔ سب جان لیں کہ اسرائیل تمام مسلمانوں کا دشمن ہے۔ سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ عرب ممالک کی بے حسی اور خاموشی ان کے اجتماعی ضمیر کی موت کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے معاملے میں کوتاہی کے نتائج سب کو بھگتنے پڑیں گے۔

دو ارب مسلمانوں کی امت میں سے سوائے چند ایک کے، غزہ کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں ہر قسم کے جرائم کے ارتکاب کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ صیہونیت ایک عالمی سوچ اور نظریہ ہے۔ یہ نظریہ دو بازوؤں پر مشتمل ہے جن کے نام امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ عالمی صیہونیت کا مقصد دوسرے لوگوں کو غلام بنانا ہے۔ صیہونیت، مغربی استعماری قوتوں کے جرائم کی میراث ہے۔ صیہونیت کے قیام کا مقصد دیگر قوموں کے وسائل کو لوٹنا، انہیں غلام بنانا، ان کی شناخت ختم کرنا اور ان کی آزادی و خودمختاری کو چھیننا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین پر حملے کے آغاز سے ہی عرب ممالک کی یکجہتی بہت کمزور رہی اور انہوں نے اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ سید الحوثی نے کہا کہ صیہونی رژیم کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا، محض ایک غاصب اور مجرم ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنا نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کے لیے ذرہ بھر احترام کا قائل نہیں بلکہ نفرت اور ظلم کے ساتھ ان پر تشدد کرتا ہے۔ تاہم دشمن اس بات کو جانتا ہے کہ وہ غزہ میں جتنے بھی جرائم کا ارتکاب کرے، مسلمان اور خاص طور پر عرب ممالک کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
انصار الله کے سربراہ نے امریکہ اور صہیونی رژیم کی حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوشش صرف دشمنوں کے فائدے میں ہے۔ امت اسلامیہ کو اس وقت سب سے زیادہ اسلحے کی ضرورت ہے۔ دشمن صرف اس لئے حزب الله کو غیرمسلح کرنا چاہتا ہے تاکہ لبنان پر قبضہ کر سکے۔ سید الحوثی نے واضح طور پر کہا کہ کیا فلسطینی مجاہدین کی جانب سے اپنا اسلحہ جمع کروانے کے بعد لبنان میں صبرا اور شاتیلا کا قتل عام نہیں ہوا؟۔ فلسطین میں کب بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا؟۔ اس وقت جب فلسطینی قوم کے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ نہیں تھا۔ جب ابتدائی مراحل میں وہ خاطر خواہ فوجی کارروائی کرنے سے قاصر تھے اور نہ ہی عرب و اسلامی ممالک نے ان کی حمایت کی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • 12 روزہ جنگ نے نشاندہی کی کہ کون سفارتکاری کا حامی ہے، سید عباس عراقچی
  • کراچی، ایم ڈبلیو ایم کا غزہ کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف احتجاج
  • فرانس کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان پر امریکا برہم؛ اسرائیل بھی ناراض
  • فرانس کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، امریکا برہم، اسرائیل ناراض
  • فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق
  • کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے
  • تنازعہ فلسطین اور امریکا
  • امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی