ایران نے امریکا کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکا کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔
فرانسیسی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ایران امریکا سے بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر یہ مذاکرات باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہییں اور امریکا کو اس بات کی ضمانت دینا ہوگی کہ وہ بات چیت کے دوران ایران پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا کی وہ کارروائیاں ہیں جن کے ذریعے اس نے سابقہ معاہدے کو توڑ دیا اور یکطرفہ حملے کیے۔ ان کے مطابق ان حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، اور ایران کو اس نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جسے کسی بیرونی دباؤ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عراقچی کے مطابق ایران پرامن جوہری منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اور جو ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، وہ دراصل ایک سنگین غلط فہمی کا شکار ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کچھ دوست ممالک اور ثالثوں کے ذریعے سفارتی رابطے بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اور ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے تاکہ کشیدگی کم کی جا سکے اور بات چیت کی راہیں کھل سکیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حماس نے 10 یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی
حماس نے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے، تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم کا کہنا ہے کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات سخت گیر اسرائیلی رویے کے باعث ’انتہائی مشکل‘ ثابت ہو رہے ہیں۔
حماس کی جانب سے یہ اعلان بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 74 افراد شہید ہوگئے، ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں جلد ہی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی۔
#BREAKING Hamas says it agrees to release 10 Israeli hostages as part of ‘flexibility’ to reach Gaza ceasefire pic.twitter.com/5d7MHTZMNz
— Anadolu English (@anadoluagency) July 9, 2025
حماس کے مطابق قطر اور امریکا کی ثالثی میں جاری مذاکرات میں کئی اہم نکات پر اختلافات موجود ہیں، جن میں فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی اور مستقل جنگ بندی کی واضح ضمانتیں شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عہدیدار طاہر النوعنو کا کہنا ہے کہ تنظیم نے حالیہ جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اپنے عوام کو تحفظ دینے، نسل کشی کے جرم کو روکنے، اور امداد کی باعزت اور آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے کے تحت اسرائیلی فوج کو کن علاقوں سے پیچھے ہٹنا ہے، اس کا تعین اس طرح کیا جانا چاہیے کہ فلسطینی عوام کی زندگی متاثر نہ ہو اور مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے لیے راہ ہموار ہو۔
دوسری جانب اسی ہفتے دو بار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات بہت اچھے ہیں، تاہم ان کے تازہ بیان میں کچھ احتیاط کا عنصر نمایاں تھا۔
’مجھے لگتا ہے اس ہفتے یا اگلے ہفتے تک ہمیں موقع مل سکتا ہے، یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جنگ اور غزہ جیسے مسائل میں یقین کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن امکانات بہت اچھے ہیں کہ کسی نہ کسی قسم کا معاہدہ جلد طے پا جائے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس خیر سگالی غزہ مذاکرات یرغمالی