زنانہ چال ڈھال پر ہراسانی کا سامنا؛ کرن جوہر نے تکلیف دہ تجربات کا اعتراف کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
بالی ووڈ کے مشہور فلم ساز اور ہدایتکار کرن جوہر نے اپنی ذاتی زندگی کے ایک حساس باب پر روشنی ڈالتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ نوعمری میں اُنہیں اپنی زنانہ چال ڈھال اور مختلف اندازِ زندگی کی وجہ سے شدید تنقید اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
جے شیٹی کے یوٹیوب چینل پر دیے گئے ایک انٹرویو میں کرن جوہر نے اپنے بچپن اور نوجوانی کی تلخ یادوں کو بیان کیا اور بتایا کہ وہ ہمیشہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور ان کا حصہ بننے کی کوشش کرتے رہے، مگر وہ خود کو ان کی دنیا میں کبھی پوری طرح شامل نہ کر پائے۔
کرن کے مطابق اُن کی چال ڈھال، دوڑنے کا انداز، بول چال، اور مشاغل سب کچھ دوسروں سے مختلف تھا، اور یہی فرق اکثر ان کے لیے طنز اور تمسخر کا باعث بنتا۔ وہ فٹبال اور کرکٹ جیسے کھیلوں میں حصہ لینا چاہتے تھے، مگر کبھی کسی ٹیم میں شامل نہ ہو سکے کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ ’’لڑکوں جیسے نہیں ہیں‘‘ یا اُن میں مردانہ پن کی کمی ہے۔ یہ جملے اُنہیں اندر سے توڑ دیتے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اُن کی نوجوانی کی سب سے بڑی خواہش صرف اتنی تھی کہ وہ قبول کیے جائیں، انہیں بھی کسی گروپ یا ٹیم کا حصہ سمجھا جائے۔ مگر اس وقت کوئی ایسا نہ تھا جو انہیں بتاتا کہ اُنہیں دوسروں جیسا بننے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ اپنی انفرادیت کے ساتھ بھی قابلِ قبول اور قیمتی ہیں۔
کرن نے ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بارہ برس کی عمر میں وہ اسکول میں مسلسل چھیڑے جانے کے باعث اتنے پریشان تھے کہ اسکول ہی چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ ان کی والدہ نے اُنہیں سنبھالا، سمجھایا، اور انہیں حوصلہ دیا کہ وہ حالات کا مقابلہ کریں۔ نتیجتاً انہوں نے اسکول نہیں بدلا، بلکہ ہمت کرکے دوبارہ اسی اسکول کا رُخ کیا۔
آج وہی کرن جوہر، جو کبھی قبولیت کی جستجو میں گم تھے، بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام بن چکے ہیں۔ وہ نہ صرف دھرما پروڈکشنز کے شریک بانی ہیں، بلکہ کئی کامیاب فلموں کے تخلیق کار بھی ہیں۔ حالیہ دنوں وہ فلم دھڑک 2 کے پروڈیوسر کے طور پر خبروں میں ہیں، جس میں سدھانت چترویدی اور ترپتی دمری نے مرکزی کردار نبھائے ہیں۔ شازیہ اقبال کی ہدایت میں بنی یہ فلم یکم اگست 2025 کو ریلیز کی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔