خود نمائی پر مبنی حکمرانی کا نظام
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
پاکستانی سیاست میں حکمرانی کا نظام اور اقتدار میں موجود افراد اور جماعتیں نظام کی تبدیلی یا اصل مسائل کے حل کے بجائے شخصی حکمرانی کا شکار نظر آتی ہیں ۔یہاں اداروں سے زیادہ افراد کی حکمرانی ہوتی ہے اور مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام ایک یا چندا فراد یا ان کے خاندان کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکمران طبقات آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ اس نظام کو اپنے خاندان کی سطح تک ہی محدود کرکے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں ادارہ جاتی عمل کمزور ہوتا ہے اور ادارے آئین و قانون کے بجائے طاقت ور افراد کے مفادات کے تابع بن کر رہ جاتے ہیں۔اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اب حکمرانی کے نظام میں اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک سیاسی رواج بن گیا ہے۔
اس کھیل میں میڈیا سمیت ڈیجیٹل میڈیا کو بھی ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں حکمران جماعتیں حصہ دار ہیں مگر اپوزیشن جماعتیں بھی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل نظر آتی ہیں ۔ حکمرانوںکی یہ خواہش غالب ہوتی ہے کہ ہر اشتہار، تشہیر ،بورڈز، ڈیجیٹل اور پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا مہم یا پہلے سے موجود یا نئے ترقیاتی منصوبوں کو ان کے ناموں کے ساتھ اسے منسوب کیا جائے ۔
پاکستان کی سیاست میں شخصی یا خاندانی نظام کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام کوئی نئی بات نہیں ۔اصل میں حکمرانوں کی سوچ اور منطق یہ ہوتی ہے کہ ملک میں اداروں کی مضبوطی کے بجائے ان کی شخصی یا خاندانی حکمرانی کا بول بالا ہو اور لوگوں کو لگے کہ یہ ہی لوگ ہمارے سیاسی مسیحا ہیں۔تمام حکمران جماعتوں کی لیڈر شپ کے بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان بہت زیادہ ترقی کرگیا ہے اور ملک کے چاروں اطراف نظر کو ڈالیں تو خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔
زمینی حقایق کو دیکھیں تو تو وہاں غربت، بھوک ، افلاس، سماجی، سیاسی اور معاشی عدم انصاف اور محرومی کی سیاست غالب نظر آتی ہے جو بھی حکومت کے خیراتی منصوبے ہیں ان میں نہ صرف لوگوں کی نمائش کرکے ان کو لائینوں میں لگایا جاتا ہے بلکہ ان پر حکمران طبقات کی تصاویر بھی نمایاں ہوتی ہیںیا خیرات یا امداد لینے والوں کی تصاویر کو بھی میڈیا میں دکھا کر لوگوں کی عزت ونفس سے کھیلا بھی جاتا ہے۔
اس کھیل میں حکمرانوں کی سیاسی خوشنودی کے حصول کے لیے ہماری بیوروکریسی بھی کمال کا کردار ادا کرتی ہے اور خود حکمرانوں کی خواہش کی بنیاد پر ایسے منصوبے سامنے لاتی ہے جس سے حکمرانوں کی تشہیر کا سامان پیدا ہوسکے۔ہم بنیادی طور پر قوم کو حکمران کی بت پرستی ، پوجا پرستی یا اندھی محبت میں ڈال کر اپنے اقتدار کے کھیل کو مضبوط بنانا چاہتے ہیںاور اسی حکمت عملی کو بنیاد بنا کراور ریاستی و حکومتی اداروں کو استعمال کرکے اپنی حکمرانی کے نظام کو تقویت دینا ہی ہماری سیاسی مجبوری بن گیا ہے۔
پہلے ہی اس ملک میں خاندان کی بنیاد پر موروثی سیاست طاقت پکڑ چکی ہے۔ایک طرف جمہوری اور سیاسی حکمرانی کے دعوے تو دوسری طرف آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی حکمرانی کا نظام اس ملک میں کسی بڑے سیاسی اور جمہوری تضاد سے کم نہیں ہے۔جب حکمران طبقہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور اقدام یا منصوبوں یا حکومتی سہولتوں پر اپنی یا اپنے خاندان کے دیگر افراد کی تصاویر کو نمایاںکرتے ہیں تو اس میں جہاں شخصی حکمرانی ہوتی ہے وہیں موروثی خاندانی سیاست کو مضبوط بنانا بھی ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومتی حکمران ہوں یا بڑے بڑے عہدوں پر موجود افراد ہو جو کسی نہ کسی ادارے کی نمایندگی کرتے ہیں ان کو کیا ہمارا ریاستی قانون،آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ان عہدوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومتی مالی وسائل کی بنیاد پر اپنے ذاتی مفادات یا خاندانی یا شخصی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنائیں۔اگر حکمرانوں کو حکومتی منصوبوں کو اپنے خاندان کے نام سے منسوب کرنا ہے تو وہ یہ کام ذاتی وسائل سے کریں اور حکومتی وسائل کو کمزور طبقات کی حالت زار کو بہتر بنانے میں صرف کریں۔
اس حکمرانی کے نظام کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے کے بجائے ریاست کے آئین اور قانون کا پابند ہوکر نظام کو چلانا ہی حکمران طبقہ کی بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔اصل میں حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی کو اختیار کرکے ہم عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں اور لوگ ہمیں زیادہ سے زیادہ پزیرائی دیں گے۔لیکن اگر یہ ساری ذاتی مفاد پر مبنی اور سیاسی مفادات پر مبنی ہے اور زمینی حقایق ان کے دعوؤں کے برعکس ہو تو پھر موروثی سیاست کا عوام میں سخت منفی ردعمل ہوتا ہے اور لوگ اس لیڈر شپ کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہیں یا ان کا مذاق یا ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ڈیجیٹل میڈیا پر نئی نسل کا حکمرانی کے نظام پر غصہ کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر حکمران طاقت کے زور پر ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو مزید منفی ردعمل پیدا کرتا ہے۔
اصل میں حکمرانوں کا کام حکمرانی کے نظام کو شفافیت کی بنیاد پر قائم کرنا ہوتا ہے اور ایسے منصوبوں کو سامنے لایا جاتا ہے جو لوگوں کی سیاسی اور معاشی حالت یا ا ن کے اسٹیٹس کو تبدیل کرکے بہتری کی طرف لاسکے ۔اس کام میں حکومت یا حکمران طبقہ اپنی ٹیم کو شامل کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے مگر پھر لوگوں کو زمین پر کام ہوتا ہوا بھی نظر آئے اور لوگ یقین کریں کہ موجودہ حکمرانی کا نظام ہمارے مسائل کا حل بھی ہے۔
ہمارے حکمران طبقات اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ وہ سدا بہار حکمران ہیں اور ہم اقتدار سے کبھی نہیں جائیں گے لیکن آخر سب کو ہی جانا ہوتا ہے اور جانے کے بعد ان حکمرانوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم عوام میں کہاں کھڑے ہیں یا لوگ ہمیں کس نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس لیے پاکستان کے مجموعی حکمرانی کے نظام کو تبدیل ہونا ہے اور خود نمائی یا شخصی بنیادوں پر قائم حکمرانی کا نظام ہمارے قومی مسائل کو حل نہیں کرسکے گا۔جب تک اس ملک میں اداروں کی بالادستی سمیت آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور ہم اپنے داخلی جمہوری تضادات سے باہر نہیں نکلیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں۔اس لیے ملک کے حکمرانی کے نظام کو شفافیت میں لانا ہی ہماری ریاست کی اور حکومت سمیت اداروں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام کو حکمرانی کا نظام حکمرانوں کی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کے بجائے کرتے ہیں ملک میں جاتا ہے اور لوگ ہوتی ہے
پڑھیں:
سندھ حکومت نے ڈکیتی کی وارداتوں پر کنٹرول نہ کیا تو کراچی میں اپنا نظام لائیں گے، رہنما ایم کیو ایم
متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما نے سندھ حکومت سے کراچی میں جاری ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو پانے کا مطالبہ کرتا ہوئے کہا ہے کہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو پھر اپنا علیحدہ نظام لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کورنگی زمان ٹاؤن میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت اور حکومتی ناکامی پر شدید تنقید کی۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ صرف کورنگی ڈسٹرکٹ میں گزشتہ ماہ درجنوں رہزنی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ دن دیہاڑے ڈکیتی کی وارداتوں میں معصوم بچے بھی شہید کیے گئے، مگر حکومت سندھ، وزراء اور پولیس افسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ لواحقین کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیے گھنٹوں تھانوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں، اور پولیس صرف نام کی رہ گئی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ’’شہر کا کوئی بھی ادارہ صوبائی حکومت کی نااہلی سے بچ نہیں سکا، کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ "اگر صوبائی حکومت یہی طرزِ عمل جاری رکھے گی تو ہمیں بتا دیں، ہم اپنا علیحدہ نظام بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔"
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ عوام کو مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سندھ سے الگ ہونے کا سوچیں، لیکن "ایم کیو ایم سندھ سے الگ ہونے کا مطالبہ نہیں کرتی، مگر آپ کے رویے نے عوام کو اس طرف دھکیل دیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے وزراء خود اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی ان کی ذمہ داری نہیں، جبکہ قبضہ مئیر کہتا ہے کہ "شہر کے اندرونی علاقے میری ذمے داری نہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ڈمپرز، عمارتیں گرنے اور لوٹ مار میں مرنے والوں کی جانیں کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجوڑتیں۔"
فاروق ستار نے انکشاف کیا کہ "ہزاروں پولیس اہلکار اندرون سندھ سے لاکر کراچی کی سڑکوں پر تعینات کیے گئے ہیں، جو شہریوں سے نمبر پلیٹس کے نام پر بھتہ وصول کر رہے ہیں۔"
انہوں نے سندھ کے تعلیمی نظام پر بھی شدید تنقید کی کہا کہ "اندرونی سندھ کے بچوں کو زبردستی پاس کروا کر ان کا مستقبل تباہ کر دیا گیا ہے، وہ بچے جو انٹر بورڈ میں ٹاپ کر رہے تھے، این ای ڈی کے امتحانات میں فیل ہو گئے۔‘‘
فاروق ستار نے واضح کیا کہ "ایم کیو ایم کبھی سندھی بولنے والے بھائیوں کے خلاف نہیں رہی، لیکن یہ ناانصافی اور مصنوعی طاقت کے بل پر خود کو وارث کہلانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ "ایم کیو ایم وقتی طور پر کمزور ہو سکتی ہے، لیکن آج ایم کیو ایم مضبوط اور منظم ہے۔ اب ہمیں ہلکا نہ لیا جائے۔"
فاروق ستار نے وزیراعلیٰ سندھ کو چیلنج دیا کہ "آئیے میرے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں اور خود دیکھیں کہ عوام کن اذیت ناک حالات میں جی رہے ہیں۔
اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے منتخب اراکین اسمبلی اور مقامی تنظیمی ذمہ داران و کارکنان موجود تھے۔