Daily Sub News:
2025-11-02@03:44:28 GMT

حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر

حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر WhatsAppFacebookTwitter 0 30 July, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

مجھے فخر ہے کہ میں لاہور کا رہائشی ہوں، ایک ایسا شہر جس کا نام سنتے ہی دل میں محبت، جفاکشی اور مہمان نوازی کے جذبات جاگ اٹھتے ہیں۔ لاہور کے لوگ، جنہیں محبت سے “زندہ دلانِ لاہور” کہا جاتا ہے، نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی سخاوت، زندہ دلی اور کھانے سے محبت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی اپنے بچپن کے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہم بغیر کسی جھجھک کے بازار کی کسی بھی ریڑھی یا دکان سے کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ ایک خاموش سا اعتماد ہوتا تھا کہ جو کچھ ہم کھا رہے ہیں، وہ نہ صرف مزیدار ہے بلکہ حلال، صاف اور محفوظ بھی ہے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک خاموش زوال شروع ہوا۔ ایمان کمزور پڑ گیا اور اخلاقی حدود دھندلا گئیں۔ حلال اور حرام کے درمیان جو تمیز کبھی اجتماعی شعور میں رچی بسی تھی، وہ ماند پڑنے لگی۔ مادی مفاد کے حصول کی دوڑ میں اور دینی و اخلاقی حدود کی پروا کیے بغیر، ہم میں سے کچھ لوگوں نے عوام کو یہ بتائے بغیر کھلانا شروع کر دیا کہ وہ کیا چیز کھا رہے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے کئی علاقوں، خصوصاً شہری علاقوں میں، بارہا ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ گدھے کے گوشت کو گائے یا بکرے کے گوشت کے طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف صحت اور صفائی کا نہیں بلکہ اسلامی اخلاقی تعلیمات اور اُس باہمی اعتماد پر حملہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔

اسلام اپنی الہامی دانائی میں حلال اور حرام کو صرف روحانی تصورات تک محدود نہیں کرتا، بلکہ ایک جامع نظام وضع کرتا ہے جو اپنے ماننے والوں کی جسمانی، روحانی اور سماجی فلاح کو یقینی بناتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

“اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے، اسے کھاؤ…”

(سورۃ البقرہ، 2:168)

قرآن و حدیث میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صرف طیب (پاکیزہ) چیزیں کھائی جائیں اور خبیث (ناپاک) چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ لہٰذا، گدھے کے گوشت جیسے معاملات کو صرف ثقافتی زاویے سے نہیں، بلکہ فقہی اور شرعی بنیادوں پر بھی دیکھنا لازم ہے۔

اسلامی فقہ میں گدھوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: پالتو (الحمار الأهلي) اور جنگلی (الحمار الوحشي)۔ دونوں کے احکام جداگانہ ہیں اور یہ مستند احادیث اور جمہور علما کے اجماع پر مبنی ہیں۔ پالتو گدھے کا گوشت کھانا بالکل واضح طور پر حرام ہے۔ اس حکم کی بنیاد کئی صحیح روایات پر ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

“خیبر کے دن نبی کریم ﷺ نے ہنڈیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا: ‘یہ پالتو گدھوں کا گوشت ہے۔'”

(صحیح بخاری: 5520)

اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا، لیکن گھوڑے کے گوشت کو جائز قرار دیا۔ علما نے اس ممانعت کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں: بعض نے اسے گدھے کی نجاست کی بنیاد پر قرار دیا، بعض نے اس کی ذلت اور حقارت کی طرف اشارہ کیا، جبکہ بعض نے اس کے معاشرتی و معاشی استعمال کو بنیاد بنایا—یعنی چونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں گدھے آمد و رفت اور بوجھ اٹھانے کے لیے قیمتی سواری تھے، اس لیے ان کی قلت کے پیشِ نظر ان کا گوشت کھانے سے روکا گیا۔

دوسری جانب، جنگلی گدھے (جسے اونگر یا غر بھی کہا جاتا ہے) کا گوشت حلال ہے۔ اس کی تصدیق حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے، جنہوں نے ایک بار جنگلی گدھے کا شکار کیا اور اس کا کچھ حصہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، اور آپ ﷺ نے اسے تناول فرمایا۔

(صحیح بخاری: 1828)

یہ فرق صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی اور فقہی طور پر بھی تسلیم شدہ ہے۔ اسلامی فقہ کے چاروں بڑے مکاتبِ فکر—حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی—اس بات پر متفق ہیں کہ پالتو گدھے کا گوشت حرام اور جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے۔ فقہا نے اپنی کلاسیکی کتب میں ان احکام کو واضح طور پر درج کیا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ کاسانی (فقہ حنفی) لکھتے ہیں:

“جہاں تک پالتو گدھے کا تعلق ہے، تو اس کا گوشت ہمارے لیے حرام ہے۔”

(بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 35)

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں گدھے کے گوشت کو صراحت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا۔ یہ بات درست ہے، لیکن اسلامی فقہی اصول ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی سنت قرآن کے عمومی احکامات کی تشریح اور تخصیص کرتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

آپ کہہ دیجئے کہ جو وحی میری طرف آئی ہے، میں اس میں کسی کھانے والے پر کسی چیز کو حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو…

(سورۃ الانعام: 145)

یہ آیت عمومی ممانعتوں کا ذکر کرتی ہے، لیکن سنت نبوی ﷺ بعض مخصوص اشیاء—جیسے پالتو گدھے کے گوشت—پر مزید پابندی عائد کرتی ہے، اور یہ پابندی واضح احادیث سے ثابت ہے۔

لیکن قانون سے آگے ایک گہرا اخلاقی سوال بھی موجود ہے۔ کیا کسی کو دھوکہ دے کر یہ بتائے بغیر گوشت کھلانا جائز ہے کہ وہ کس چیز کا ہے؟

اسلام میں دھوکہ اور خیانت کو سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“جس نے ہمیں دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔”

(صحیح مسلم۔ ۱۰۲)

لہٰذا، لوگوں کو گدھے کا گوشت بیف یا بکرے کے گوشت کے نام پر کھلانا نہ صرف حرام ہے، بلکہ یہ اعتماد کی خیانت، صارف کے حق کی پامالی اور اسلامی اخلاقیات کا مذاق ہے۔ یہ معاملہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ جب ہم ایسے دھوکے کو برداشت کرنے لگیں یا نظرانداز کرنے لگیں، تو ہم خود بھی اخلاقی زوال کے شریک بن جاتے ہیں۔ اسلام صرف ظاہری پاکیزگی کا حکم نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں دیانت کا مطالبہ کرتا ہے۔ عہد شکنی، جھوٹ، تجارت میں دھوکہ دہی اور امانت میں خیانت اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ اعمال میں سے ہیں۔

دنیا بھر میں ثقافتی روایات اور علاقائی کھانوں میں فرق ہوتا ہے۔ جو چیز ایک ملک میں معمول ہے، وہ دوسرے میں عجیب لگ سکتی ہے۔ لیکن اسلامی شریعت، جو وحی اور عقل دونوں پر مبنی ہے، ایک آفاقی معیار فراہم کرتی ہے۔ جنگلی گدھے کا گوشت اگرچہ حلال ہے، مگر پالتو گدھے کا گوشت لوگوں کو بغیر اطلاع کے کھلانا—یہ غیر شرعی ہی نہیں، بلکہ غیراخلاقی بھی ہے۔

آئیے، ہم اپنے بازاروں، دکانوں اور دلوں میں وہ اعتماد واپس لائیں جو کبھی ہماری پہچان تھا۔

آئیے، ہم اپنی نئی نسل کو صرف یہ نہ سکھائیں کہ کیا حلال ہے، بلکہ یہ بھی سکھائیں کہ کیا دیانت دار ہے۔

آئیے، ہم ایسے لوگ بنیں جو روح کی پاکیزگی کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی خوراک کی پاکیزگی کو دیتے ہیں۔

کیونکہ ایسا کر کے، ہم نہ صرف ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں بلکہ انسانیت کے عہد کو بھی نبھاتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایشیا کپ میں پاکستان سے نہ کھیلنا بھارت کو کیسے بھاری پڑسکتا ہے؟ تحصیلدار فتح جنگ چوہدری شفقت محمود کی مافیا کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں      جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حلال اور حرام

پڑھیں:

میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف

مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔

ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
  • شبر زیدی کے خلاف دو دن قبل درج ہونے والی ایف آئی آر ختم کیوں کرنا پڑی؟
  • خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ
  • پاکستانی تاریخ کا نیا باب، پہلا خلا باز 2026 میں خلا میں قدم رکھے گا
  • الحمرا، پبلک ریلیشنز کا جدید 360° ماڈل، ایک کامیاب مثال!
  • جہلم: زمیندار نے کھیت میں داخل ہونے والی گائے کی ٹانگ کاٹ دی