Islam Times:
2025-07-31@04:29:05 GMT

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اسلام ٹائمز: ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری

دنیا بدل رہی ہے۔ ہتھیاروں کے نقوش بدل چکے ہیں اور اب جنگ صرف بارود یا بندوق سے نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت، ڈرون، الیکٹرانک وارفیئر اور راڈار سے بچاؤ کی صلاحیت سے لڑی جا رہی ہے۔ میدانِ جنگ کے خدوخال میں نئی لکیریں کھنچ رہی ہیں اور اُن کے گرد تیاریاں تیزی سے ہو رہی ہیں۔ کہیں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، کہیں ہائبرڈ وار کے نقشے بن رہے ہیں اور کہیں نئی جنگی اتحاد جنم لے رہے ہیں۔ جرمنی میں ایئربس، کریٹوس اور رائن میٹل جیسے صنعتی جنات طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ڈرونز پر کام کر رہے ہیں۔ لتھوانیا جیسے چھوٹے ملک نے یوکرین کیلئے پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کیلئے 3 کروڑ یورو کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولینڈ روس کے خوف سے 2026ء تک اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد دفاع پر خرچ کرے گا اور امریکہ سے 15 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کرچکا ہے۔ چین خلیج تائیوان میں اپنی فضائی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی میں یوکرینی بکتر بند گاڑیاں شامل ہوچکی ہیں۔ ترکی اور انڈونیشیا کے درمیان دس ارب ڈالر کا پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کا معاہدہ ہوچکا ہے، ترکی الیکٹرو میگنیٹک-لیزر ہتھیار "الکا-کپلن" کے ذریعے ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ بھارت اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں نئی سطحوں پر پہنچ چکا ہے اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کو مات دیتے ہوئے پانچ بوئنگ 777 طیارے خفیہ طریقوں سے اپنے بیڑے میں شامل کرچکا ہے۔

ادھر پاکستان بھی خاموش نہیں رہا۔ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز کا تیار کردہ "تیمور" کروز میزائل جدید رہنمائی کے نظام، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور طویل فاصلے کی صلاحیت کیساتھ خطے میں ایک متوازن قوت کا پیغام بن چکا ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر پر نصب ہونیوالا یہ میزائل دشمن کے ایئر ڈیفنس نظام کو چکمہ دے کر ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی فضائی صلاحیت میں ایک سنگِ میل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تمام تیاری کس کیلئے ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی جنگی حکمتِ عملی کو عوامی فلاح اور قومی استحکام کے تابع کر دیا ہے یا صرف دکھاوے اور عالمی منظرنامے پر چند لمحاتی واہ واہ کیلئے ان پراجیکٹس کو اجاگر کر رہے ہیں۔؟ کیونکہ دوسری طرف تصویر کا ایک ایسا رخ بھی ہے، جسے دیکھنے کے بعد دل اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق" یا "بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق" کہنے والے حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ 23 جولائی کی شب مسقط میں اترنے والا گلف اسٹریم جی 550 طیارہ مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ایک سینیئر افسر، کرنل اییال فروسٹ، کو لے کر آیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہی شخصیت "آپریشن بادیہ گرگ" کی منصوبہ بندی کے مرکزی کرداروں میں شامل ہے اور اس کے حالیہ دورے کا مقصد دوحہ میں بلوچستان سے متعلق شورش کے ایک نئے فیز کو ترتیب دینا تھا۔

ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ وہ سیاستدان جو خود کو قومی لیڈر کہتے ہیں، ان کے کاروبار بیرونِ ملک، جائیدادیں محفوظ اور نظریہ مفاد پر مبنی ہے۔ ریاستی وسائل چند خاندانوں کی بقا کیلئے وقف ہوچکے ہیں۔ اسی پس منظر میں محسن نقوی جیسے کردار سامنے آتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہہ کر حیران کرتے ہیں کہ "بلوچستان تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے" اور اب اعلان کیا جا رہا ہے کہ عراق میں چہلم کیلئے جانیوالے زائرین کو بائی روڈ سفر سے روکا جائے گا، کیونکہ پاکستان سے روانگی محفوظ نہیں۔ یعنی، زمینی راستے سے جانیوالوں کی زندگی کی ضمانت نہیں، ایئرلائنز کا راستہ ہی واحد آپشن بچا ہے۔

یہ کون سی ریاستی پالیسی ہے۔؟ کیا ہم واقعی اپنی سکیورٹی میں اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اپنے ہی ملک سے نکلنے والوں کو تحفظ نہیں دے سکتے؟ اور کیا ریاستی نااہلی کو عوام کی جیب پر ڈال کر، انہیں ہوائی سفر کے اخراجات میں جکڑ دینا مسئلے کا حل ہے۔؟ یہ فیصلہ کسی ایک مذہبی طبقے یا گروہ سے متعلق نہیں، یہ ایک ریاستی رویہ ہے، جس پر غیر جانبدار ہو کر سوال اٹھانا ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کسی خاص فقہ یا گروہ کے ہمدرد ہیں۔ ہمارا نقطۂ نظر صرف اتنا ہے کہ قومی پالیسیاں شخصی مفاد، مالی کمائی یا وقتی دباؤ کے تحت نہیں بننی چاہئیں۔ یہ قومی وقار، عوامی اعتماد اور ریاستی بیانیے کے تحت بننی چاہئیں۔ کیونکہ دنیا جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔ پولینڈ کو نیٹو نے خبردار کیا ہے کہ روس 2027ء تک یورپی سرزمین پر لڑائی کے لیے تیار ہو جائے گا۔ امریکہ کے ’’آر سی 135 ایس‘‘ کوبرا بال، طیارے پاکستان اور ایران کے بیلسٹک میزائلوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خلیج تائیوان پر چینی جنگی طیارے خوف کی لہر دوڑا چکے ہیں۔ موساد بلوچستان کی زمین پر اپنے پنجے گاڑنے کو تیار ہے اور ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ لوگ بائی روڈ جائیں یا بائی ایئر۔؟

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ پاکستان صرف دفاعی ہتھیار بنانے والا ملک ہی نہیں بلکہ اپنے عوام، اپنی سرزمین اور اپنے بیانیے کا بھی محافظ ہے۔ بصورت دیگر، ہم عالمی منظرنامے میں محض ایک تضاد بن کر رہ جائیں گے۔ ایک طرف پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے، "تیمور" کروز میزائل دشمن کیلئے حیرت کا باعث بن چکا ہے، لیکن دوسری طرف بلوچستان سے ایران جانیوالے زائرین کیلئے محفوظ زمینی سفر کی ضمانت نہیں دی جا رہی۔ کیا یہ تضاد نہیں۔؟ حالیہ فیصلے کے تحت یہ طے پایا ہے کہ ان زائرین کو صرف ہوائی راستے سے سفر کی اجازت دی جائے گی، کیونکہ زمینی راستہ مبینہ طور پر محفوظ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ محرم کے تقدس میں بھی ایران اسرائیل کشیدگی کی وجہ سے اپنے مذہبی جذبات کی تسکین نہ کرسکے، وہ اب چہلم کے موقع پر ایک بار پھر سے آمادۂ سفر ہیں۔۔۔۔ تو ایسے میں ریاستی سطح پر ان کیلئے زمینی سفر بند کر دینا آخر کس منطق کے تحت کیا گیا ہے۔؟
 
اگر اس فیصلے کیخلاف ردعمل میں ان حلقوں کی جانب سے دھرنوں یا احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی، تو کیا یہ ریاست کے لیے ایک نیا بحران نہیں ہوگا۔؟ کیا ریاست پاکستان دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست کو معمول کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔؟ جہاں ایک طرف جماعت اسلامی لانگ مارچ  کر رہی ہے، وہیں اگر زائرین بھی سڑکوں پر نکل آئے، تو یہ نہ صرف داخلی استحکام کیلئے چیلنج ہوگا بلکہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کے وقار کو بھی مجروح کرسکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ان ممکنہ بحرانوں کی اصل وجہ عوام نہیں بلکہ وہ پالیسی ساز ہیں، جو غیر سنجیدہ، عارضی اور وقتی فیصلوں کے ذریعے ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر کمزور کر رہے ہیں۔ ریاست کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ آیا وہ صرف ایئرلائنز کی سہولت کار ہے یا ایک خود مختار، خوددار اور باوقار ریاست۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ بیانیے سے جیتی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارا بیانیہ اس وقت سخت بحران میں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کر رہے ہیں نہیں بلکہ ہوئے ہیں رہی ہیں ہیں اور ہیں کہ کے تحت کر رہی ہے اور رہی ہے

پڑھیں:

پاکستان میں ایشیا کپ کے میڈیا رائٹس کیلئے بھارتی براڈ کاسٹر نے 12 ملین ڈالر طلب کر لیے

کراچی:

پاکستان میں ایشیا کپ کے میڈیا رائٹس تاحال فروخت نہیں ہوسکے، بھارتی براڈ کاسٹر نے 12 ملین ڈالر طلب کر لیے۔

تفصیلات کے مطابق ایشیا کپ کا انعقاد 9 سے 28 ستمبر تک یو اے ای میں ہوگا، اس میں 19 میچز ہونے ہیں، فائنل میں رسائی کی صورت میں 3 پاک بھارت مقابلے متوقع ہیں، گزشتہ برس ایشین کرکٹ کونسل کے 2024 سے 2031 تک 8 سالہ میڈیا رائٹس 170 ملین ڈالر (تقریباً 47 ارب 26 کروڑ پاکستانی روپے) میں سونی انڈیا کو فروخت کیے گئے تھے۔

 اس میں مینز، ویمنز کے 4،4 ایشیا کپ اور ایمرجنگ سمیت 119 میچز شامل ہیں، ان دنوں پاکستان میں حقوق کی فروخت کیلیے بات چیت جاری ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ بھارتی براڈ کاسٹر نے 2 ایشیا کپ کیلئے 12 ملین ڈالر طلب کیے ہیں، البتہ اب تک دوڑ میں موجود تینوں میں سے کوئی بھی چینل اتنی بڑی رقم دینے پرآمادہ نہیں ہے۔

 ان کے مطابق مارکیٹ ان دنوں اتنی بڑی نہیں کہ بھاری سرمایہ کاری پر منافع کما سکیں، چینلز میں کنسورشیم بنانے پر بھی بات ہوئی ہے، اسی صورت میں سونی کی ڈیمانڈ پوری ہو سکے گی، ورنہ کمی کیلیے بات چیت جاری رہے گی۔

 پاکستان میں ایشیا کپ کے ڈیجیٹل رائٹس کا معاہدہ ہو چکا جس کا اعلان پیر کو متوقع ہے، بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں کافی عرصے بعد سرکاری ٹی وی کو بھی براڈ کاسٹنگ سے منافع ہوا۔

 ذرائع نے بتایا کہ اے سی سی میڈیا رائٹس میں پاکستان سے شیئر تقریباً 25 فیصد (42.5 ملین ڈالر) تک ہوتا ہے، ڈیجیٹل رائٹس الگ ہیں، بیشتر رقم (تقریباً 65 فیصد) بھارت سے آتی ہے لہذا ایشیا کپ ہونے کی صورت میں براڈکاسٹر کے وارے نیارے ہی ہونا ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کب اور کہاں سے لانچ کیا جائے گا؟ اہم خبر
  • تائیوان انتظامیہ کی “علیحدگی ” پر مبنی اشتعال انگیزی کبھی کامیاب نہیں ہوگی، چینی  وزارت خارجہ
  • ’جن طیاروں کی پوجا لیموں اور مرچ سے کی گئی تھی، وہ کہاں گئے‘؟ بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ
  • کسی عالمی رہنما نے بھارت کو جنگ روکنے کیلئے نہیں کہا
  • قاسم اور سلیمان احتجاج کیلئے پاکستان نہیں آئیں گے، عمران خان
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ، چینی کےبحران پر بریفنگ ، سخت سوالات کی بوچھاڑ ، کہاں ہیں شوگر ملز مالکان کی تفصیلات ۔۔۔؟
  • پی آئی اے کا چوبرجی چوک میں کھڑے جہاز کی تزین و آرائش کا فیصلہ 
  • زیارت امام حسینؑ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، جعفریہ الائنس
  • پاکستان میں ایشیا کپ کے میڈیا رائٹس کیلئے بھارتی براڈ کاسٹر نے 12 ملین ڈالر طلب کر لیے