اسلام ٹائمز: ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری
دنیا بدل رہی ہے۔ ہتھیاروں کے نقوش بدل چکے ہیں اور اب جنگ صرف بارود یا بندوق سے نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت، ڈرون، الیکٹرانک وارفیئر اور راڈار سے بچاؤ کی صلاحیت سے لڑی جا رہی ہے۔ میدانِ جنگ کے خدوخال میں نئی لکیریں کھنچ رہی ہیں اور اُن کے گرد تیاریاں تیزی سے ہو رہی ہیں۔ کہیں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، کہیں ہائبرڈ وار کے نقشے بن رہے ہیں اور کہیں نئی جنگی اتحاد جنم لے رہے ہیں۔ جرمنی میں ایئربس، کریٹوس اور رائن میٹل جیسے صنعتی جنات طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ڈرونز پر کام کر رہے ہیں۔ لتھوانیا جیسے چھوٹے ملک نے یوکرین کیلئے پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کیلئے 3 کروڑ یورو کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولینڈ روس کے خوف سے 2026ء تک اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد دفاع پر خرچ کرے گا اور امریکہ سے 15 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کرچکا ہے۔ چین خلیج تائیوان میں اپنی فضائی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی میں یوکرینی بکتر بند گاڑیاں شامل ہوچکی ہیں۔ ترکی اور انڈونیشیا کے درمیان دس ارب ڈالر کا پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کا معاہدہ ہوچکا ہے، ترکی الیکٹرو میگنیٹک-لیزر ہتھیار "الکا-کپلن" کے ذریعے ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ بھارت اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں نئی سطحوں پر پہنچ چکا ہے اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کو مات دیتے ہوئے پانچ بوئنگ 777 طیارے خفیہ طریقوں سے اپنے بیڑے میں شامل کرچکا ہے۔
ادھر پاکستان بھی خاموش نہیں رہا۔ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز کا تیار کردہ "تیمور" کروز میزائل جدید رہنمائی کے نظام، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور طویل فاصلے کی صلاحیت کیساتھ خطے میں ایک متوازن قوت کا پیغام بن چکا ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر پر نصب ہونیوالا یہ میزائل دشمن کے ایئر ڈیفنس نظام کو چکمہ دے کر ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی فضائی صلاحیت میں ایک سنگِ میل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تمام تیاری کس کیلئے ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی جنگی حکمتِ عملی کو عوامی فلاح اور قومی استحکام کے تابع کر دیا ہے یا صرف دکھاوے اور عالمی منظرنامے پر چند لمحاتی واہ واہ کیلئے ان پراجیکٹس کو اجاگر کر رہے ہیں۔؟ کیونکہ دوسری طرف تصویر کا ایک ایسا رخ بھی ہے، جسے دیکھنے کے بعد دل اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق" یا "بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق" کہنے والے حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ 23 جولائی کی شب مسقط میں اترنے والا گلف اسٹریم جی 550 طیارہ مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ایک سینیئر افسر، کرنل اییال فروسٹ، کو لے کر آیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہی شخصیت "آپریشن بادیہ گرگ" کی منصوبہ بندی کے مرکزی کرداروں میں شامل ہے اور اس کے حالیہ دورے کا مقصد دوحہ میں بلوچستان سے متعلق شورش کے ایک نئے فیز کو ترتیب دینا تھا۔
ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ وہ سیاستدان جو خود کو قومی لیڈر کہتے ہیں، ان کے کاروبار بیرونِ ملک، جائیدادیں محفوظ اور نظریہ مفاد پر مبنی ہے۔ ریاستی وسائل چند خاندانوں کی بقا کیلئے وقف ہوچکے ہیں۔ اسی پس منظر میں محسن نقوی جیسے کردار سامنے آتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہہ کر حیران کرتے ہیں کہ "بلوچستان تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے" اور اب اعلان کیا جا رہا ہے کہ عراق میں چہلم کیلئے جانیوالے زائرین کو بائی روڈ سفر سے روکا جائے گا، کیونکہ پاکستان سے روانگی محفوظ نہیں۔ یعنی، زمینی راستے سے جانیوالوں کی زندگی کی ضمانت نہیں، ایئرلائنز کا راستہ ہی واحد آپشن بچا ہے۔
یہ کون سی ریاستی پالیسی ہے۔؟ کیا ہم واقعی اپنی سکیورٹی میں اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اپنے ہی ملک سے نکلنے والوں کو تحفظ نہیں دے سکتے؟ اور کیا ریاستی نااہلی کو عوام کی جیب پر ڈال کر، انہیں ہوائی سفر کے اخراجات میں جکڑ دینا مسئلے کا حل ہے۔؟ یہ فیصلہ کسی ایک مذہبی طبقے یا گروہ سے متعلق نہیں، یہ ایک ریاستی رویہ ہے، جس پر غیر جانبدار ہو کر سوال اٹھانا ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کسی خاص فقہ یا گروہ کے ہمدرد ہیں۔ ہمارا نقطۂ نظر صرف اتنا ہے کہ قومی پالیسیاں شخصی مفاد، مالی کمائی یا وقتی دباؤ کے تحت نہیں بننی چاہئیں۔ یہ قومی وقار، عوامی اعتماد اور ریاستی بیانیے کے تحت بننی چاہئیں۔ کیونکہ دنیا جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔ پولینڈ کو نیٹو نے خبردار کیا ہے کہ روس 2027ء تک یورپی سرزمین پر لڑائی کے لیے تیار ہو جائے گا۔ امریکہ کے ’’آر سی 135 ایس‘‘ کوبرا بال، طیارے پاکستان اور ایران کے بیلسٹک میزائلوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خلیج تائیوان پر چینی جنگی طیارے خوف کی لہر دوڑا چکے ہیں۔ موساد بلوچستان کی زمین پر اپنے پنجے گاڑنے کو تیار ہے اور ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ لوگ بائی روڈ جائیں یا بائی ایئر۔؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ پاکستان صرف دفاعی ہتھیار بنانے والا ملک ہی نہیں بلکہ اپنے عوام، اپنی سرزمین اور اپنے بیانیے کا بھی محافظ ہے۔ بصورت دیگر، ہم عالمی منظرنامے میں محض ایک تضاد بن کر رہ جائیں گے۔ ایک طرف پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے، "تیمور" کروز میزائل دشمن کیلئے حیرت کا باعث بن چکا ہے، لیکن دوسری طرف بلوچستان سے ایران جانیوالے زائرین کیلئے محفوظ زمینی سفر کی ضمانت نہیں دی جا رہی۔ کیا یہ تضاد نہیں۔؟ حالیہ فیصلے کے تحت یہ طے پایا ہے کہ ان زائرین کو صرف ہوائی راستے سے سفر کی اجازت دی جائے گی، کیونکہ زمینی راستہ مبینہ طور پر محفوظ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ محرم کے تقدس میں بھی ایران اسرائیل کشیدگی کی وجہ سے اپنے مذہبی جذبات کی تسکین نہ کرسکے، وہ اب چہلم کے موقع پر ایک بار پھر سے آمادۂ سفر ہیں۔۔۔۔ تو ایسے میں ریاستی سطح پر ان کیلئے زمینی سفر بند کر دینا آخر کس منطق کے تحت کیا گیا ہے۔؟
اگر اس فیصلے کیخلاف ردعمل میں ان حلقوں کی جانب سے دھرنوں یا احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی، تو کیا یہ ریاست کے لیے ایک نیا بحران نہیں ہوگا۔؟ کیا ریاست پاکستان دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست کو معمول کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔؟ جہاں ایک طرف جماعت اسلامی لانگ مارچ کر رہی ہے، وہیں اگر زائرین بھی سڑکوں پر نکل آئے، تو یہ نہ صرف داخلی استحکام کیلئے چیلنج ہوگا بلکہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کے وقار کو بھی مجروح کرسکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ان ممکنہ بحرانوں کی اصل وجہ عوام نہیں بلکہ وہ پالیسی ساز ہیں، جو غیر سنجیدہ، عارضی اور وقتی فیصلوں کے ذریعے ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر کمزور کر رہے ہیں۔ ریاست کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ آیا وہ صرف ایئرلائنز کی سہولت کار ہے یا ایک خود مختار، خوددار اور باوقار ریاست۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ بیانیے سے جیتی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارا بیانیہ اس وقت سخت بحران میں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کر رہے ہیں نہیں بلکہ ہوئے ہیں رہی ہیں ہیں اور ہیں کہ کے تحت کر رہی ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے لئے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے ہے، بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا ہے،پاکستان نے بھارت کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا، بھارت کی بلاجواز جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، جس پر بھارت نے جنگ بندی کی درخواست کی.(جاری ہے)
ان خیالات کااظہار انہوںنے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چار روزہ جنگ میں پاکستان نے فتوحات کی ایک نئی داستان رقم کی ہے مودی حکومت اور ہندوتوا نظریے کو عبرتناک شکست ہوئی بھارت ایک غاصب اور جارح ملک ہے جو مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہے پہلگام جیسے واقعات کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے پہلگام واقعے کے حوالے سے پاکستان نے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی. وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے خطے میں پائیدار امن کےلئے ہمیشہ اپنا موثر کردار ادا کیا ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے ہے بین الاقوامی اصولوں سے روگردانی کرنے والا بھارت مظلومیت کا ڈھونگ نہیں رچا سکتا. عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا ہے عسکری میدان میں شکست کے بعد بھارت اب کھیل کے میدان میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے. وفاقی وزیرنے کہاکہ پاکستان نے خطے میں امن و استحکام کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہے پاکستان کے لوگ اس تہذیب کا حصہ ہیں جہاں روایات کو اہمیت دی جاتی ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے ہم مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتے ہیں پاکستان خطے میں امن کےلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا.