مستونگ واقعہ ،پسند کی شادی کرنیوالوں کی جان کس طرح لی گئی ،انکشاف سے ہلچل مچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
پنجگور (نیوز ڈیسک) گزشتہ روز پولیس نے بتایا تھا کہ منگل کو بلوچستان میں مستونگ کے علاقے لکپاس میں پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی کو 15 سال بعد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا، اب قتل ہونے والے شعیب انور کے والدین کا ویڈیو بیان سامنے آیا ہے۔
کوئٹہ ہزار گنجی کی رہائشی 27 سالہ لڑکی سے پسند کی شادی کرنے والے 28 سالہ شعیب انور کے والدین نے ویڈیو میں کہا ہے کہ شعیب اور بہو کو صمد نے دھوکے سے بلا کر قتل کیا۔مقتول شعیب کے والدین اور بچے
انھوں نے کہا قاتل کیک لے کر آیا تھا، جسے شعیب اور بچے کھا رہے تھے کہ انھیں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، والد نے بتایا کہ قاتلوں میں لڑکی کا بھائی صمد، سوتیلا بھائی شاہ ولی اور چچا حسن علی شامل تھے۔
والدین کا کہنا تھا کہ شعیب اور اس کی بیوی نے 15 سال قبل پسند کی شادی کی تھی، بہو حاملہ تھی اس لیے ڈیلیوری کے نام پر بلا کر انھیں قتل کر دیا گیا، قتل کے وقت دونوں کمسن بچے بھی ماں باپ کے ساتھ موجود تھے۔
والدین نے دہائی دی ہے کہ قاتلوں نے حاملہ خاتون اور بچوں کی بھی پرواہ نہ کی، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان سے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پولیس حکام نے بتایا تھا کہ بھائیوں نے اپنی حاملہ بہن اور بہنوئی کو کھانے پر بلا کر قتل کیا، یہ واقعہ منگل کی صبح لکپاس میں پرانا کسٹم آفس کے قریب ہوٹل میں پیش آیا تھا۔ مقتول لڑکے محمد شعیب انور کا تعلق پنجگور کےعلاقے چتکان سے تھا، جس نے پندرہ سال سال قبل کوئٹہ ہزار گنجی کی رہائشی لڑکی سے عدالت کے ذریعے پسند کی شادی کی تھی۔
پولیس نے غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
https://dailymumtaz.com/wp-content/uploads/2025/08/mastung-shoaib-parents.mp4 Post Views: 4
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پسند کی شادی
پڑھیں:
بلوچستان میں والدین و اساتذہ پر مشتمل اسکول انتظامی کمیٹیوں کا قیام
یونیسف اور یورپی یونین کے تعاون سے بلوچستان کے اسکول ایجوکیشن کے محکمے نے صوبے بھر میں والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامی کمیٹیوں کے قیام کا آغاز کردیا۔
اسی سلسلے میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول مرغہ زکریازئی، تحصیل نان صاحب، ضلع پشین میں مقامی تعلیمی کونسل کے اراکین نے 3 سالہ مدت کے لیے حلف اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟
اس موقع پر والدین، قبائلی عمائدین، سرکاری نمائندگان اور محکمہ تعلیم کے افسران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں مجموعی طور پر 1,068 اسکولوں میں والدین اور اساتذہ پر مشتمل انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
ان کمیٹیوں کے 11,000 اراکین کو منصفانہ اور شفاف انتخابی عمل کے ذریعے منتخب کیا گیا ہے۔
یہ اقدام صوبے میں تعلیمی نظام کی بہتری، شفافیت، جوابدہی اور مقامی سطح پر شمولیت کو فروغ دینے کی جانب ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز
یہ کمیٹیاں اسکولوں کی کارکردگی کی نگرانی، وسائل کے مؤثر استعمال، طلبا کے داخلے اور حاضری میں بہتری، اور مقامی سطح پر تعلیمی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔
ان کمیٹیوں کے قیام سے والدین، اساتذہ اور مقامی برادری کے درمیان مؤثر شراکت داری کو فروغ ملے گا، جو معیارِ تعلیم میں بہتری کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔
اس سلسلے میں ڈائریکٹر اسکولز کی جانب سے صوبے کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔
یہ فوکل پرسن اپنے متعلقہ اضلاع میں کمیٹیوں کی تشکیل، فعال کردار اور مسائل کے بروقت حل کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
مزید پڑھیں: ژوب میں اسکلز ایجوکیشن سنٹر کا افتتاح، گورنر بلوچستان کا تعلیم اور ہنرمندی کو یکجا کرنے کا عزم
حکومتِ بلوچستان کا عزم ہے کہ تعلیم کے شعبے میں مقامی کمیونٹی کو بااختیار بنا کر بہتر نظم و نسق، شفافیت اور شمولیتی طرزِ حکمرانی کے ذریعے صوبے کے تعلیمی نظام کو استحکام اور معیار کی نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکول انتظامی کمیٹیوں ضلع پشین فوکل پرسن مقامی تعملیمی کونسل یورپی یونین یونیسیف