“کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ”
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
“کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” WhatsAppFacebookTwitter 0 2 August, 2025 سب نیوز
تحریرعنبرین علی
موسمیاتی تبدیلیوں نے اسوقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،مگر پاکستان میں یہ صورتحال اب خطرناک حد تک تجاوز کر گئی ہے ۔مون سون بارشوں کا شدید ہونا اور اسی دوران کلاؤڈ برسٹ کے واقعات کا مختلف مقامات پر رونما ہونا ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے بلکہ اب تو انسانی زندگیاں بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہیں ۔۔کلاؤڈ برسٹ کا ذکر ہو ہی رہا ہے تو سب سے پہلے آپکو بتا دوں کے آخر یہ ہے کیا ؟ کلاؤڈ برسٹ کا ماحول سے خاصا گہرا تعلق ہے جس میں مختصر وقت میں محدود علاقے پر شدید بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش اتنی شدید ہوتی ہے کہ زمین سنبھال نہیں پاتی اور نتیجہ ہوتا ہے اچانک سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، اور جانی و مالی نقصان۔جب آسمان اپنی پوری طاقت سے برستا ہے، تو زمین پر ہر چیز بہنے لگتی ہے یہی ہے کلاؤڈ برسٹ۔”کلاؤڈ برسٹ اُس وقت ہوتا ہے جب گہرے بادلوں میں نمی شدید حد تک جمع ہو جاتی ہے اور ایک ہی وقت میں برس پڑتی ہے۔
اکثر یہ تب ہوتا ہے جب پہاڑی علاقوں میں گرم اور مرطوب ہوا ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتی ہے۔مثال کے طور پر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، شمالی بھارت، نیپال اور ہمالیائی علاقے اس سے اکثر متاثر ہوتے ہیں۔اور اس مرتبہ پاکستان میں بھی مون سون کے دوران کلاؤڈ برسٹ ہوا جسمیں اسلام آباد کا ماڈل ولیج سید پور بھی شامل ہے جہاں کلاؤڈ برسٹ ہونے سے شدید سیلاب آیا اور خاصا نقصان بھی ہوا ۔
اب آتے ہیں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ کی طرف کی یہ آخر ہوتا کیوں ہے ؟کیا اسباب ہیں ؟اس وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ،ویسے ویسے کلاؤڈ برسٹ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔اس سال اور اس سے پچھلےسال ہم نے دیکھا کہ گرمی کے ریکارڈ بری طرح ٹوٹے ہیٹ ویو کا بھی سامنا کیا نتیجہ یہ ہوا کہ اب نارمل گرمی کی بات کہیں ماضی میں کھو گئی ۔موسم شدت اختیار کر گیا اسلیے جب مون سون شروع ہوا تو زمینی ہیٹ اس سے قبل اس قدر جمع ہو چکی تھی کہ اسکے بعد متعدد واقعات جن میں ژالہ باری کا شدید ہونا اور پھر کلاؤڈ برسٹ شامل ہے۔دوسری وجہ کلاؤڈ برسٹ کی یہ ہے جنگلات بے جا کاٹے جا رہے ہیں حال ہی میں گلگت میں دس لاکھ سے زائد درخت کاٹنے کی منظور دی گئی پھر اگر اسلام آباد میں نظر دوڑائیں تو یہاں تو ہے ہی کنکریٹ کا جنگل ،اس کے علاوہ بھی پورے ملک میں شجر کاری مہم کی اشد ضرورت ہے ۔اسکے علاوہ پہاڑوں میں سڑکیں اور عمارتیں زمین کو غیر مستحکم کرتی ہیں۔اچانک سیلاب اور دریا میں طغیانی ،سڑکیں، پل، گھر بہہ جانالینڈ سلائیڈنگ اور زمینی کٹاؤفصلیں تباہ، پانی کی آلودگی
انسانی جانوں کا نقصان، خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ سب اسی وجہ سے ہیں ۔
اب چلتے ہیں حالیہ واقعات کی طرف جن میں گلگت بلتستان کئی دیہاتوں میں اچانک سیلاب، دریا کے رُخ بدل گئےناران، کالام، سوات: سیاح پھنس گئے، سڑکیں بہہ گئیں ۔
کلاؤڈ برسٹ کے واقعات زیادہ تر ریکارڈ میں نہیں مگر گوگل پر سرچ کریں تو مختلف ویب سائٹس کے مطابق اب تک دو ہزار ایک سے دو ہزار پچیس تک چھ بار کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ہوئے ہیں دو ہزار ایک میں تئیس جولائی کو اسلام آباد راولپنڈی میں تقریباً 620 ملی میٹر بارش صرف 10 گھنٹوں میں ہوئی جس سے نالا لئی شدید سیلاب زدہ ہوا۔ 61 افراد ہلاک اورہزاروں مکانات تباہ ہوئے۔دو ہزارنو میں کراچی میں تقریبا 245 ملی میٹر بارش صرف 4 گھنٹوں میں ہوئی جس سے شہر میں شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ۔ انتیس جولائی دو ہزار دس میں رسالپور / پشاور میں چوبیس گھنٹوں میں 274–280 ملی میٹر بارش سے شدید سیلاب اور تباہی ہوئ۔اگست دو ہزار گیارہ میں سندھ میں 176–350 ملی میٹر بارش سےکئی اضلاع میں ریکارڈ سطح کی بارشیں، بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی،جولائی دو ہزار اکیس میں اسلام آباد میں تقریبا 116 ملی میٹر بارش ایک کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہوئی دو افراد ہلاک، شہری سیلاب کی زد میں آئے۔اور رواں سال گلگت ،بلتستان،بابو سر ٹاپ،میں بہت سی سڑکیں بند اور ہلاکتیں ہوئیں۔
“کلاؤڈ برسٹ صرف آسمانی قہر نہیں، بلکہ زمین والوں کے رویے کا جواب ہے۔ اگر ہم قدرت کو بگاڑیں گے، تو وہ پلٹ کر جواب دے گی — کبھی بادلوں کی صورت میں، کبھی سیلاب کی شکل میں۔”
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین میں 2024 کے دوران شادیوں کے اندراج میں کمی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کلاؤڈ برسٹ
پڑھیں:
کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-6
میر بابر مشتاق
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…
کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔
صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔
کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔