بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
ایک ایسی دنیا میں جہاں نایاب جانوروں کو بچانے کی مہمات اور جانوروں پر ظلم کے خلاف احتجاج چند گھنٹوں میں عالمی حمایت حاصل کر لیتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے بے رحم قتلِ عام پر مسلسل خاموشی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی ہے—چاہے وہ 1990 کی دہائی میں بوسنیا ہو یا آج کا غزہ۔ وہی معاشرے جو جانوروں کے حقوق کے لیے اخلاقی جوش و جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، وہ اس وقت بے حس دکھائی دیتے ہیں جب مسلمانوں کی لاشیں گرتی ہیں، ان کے شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں، یا ان کی عورتیں فریاد کرتی ہیں۔ یہ منافقت محض سطحی نہیں رہی؛ یہ ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ دہرا معیار اتنا رچ بس چکا ہے کہ اب نہ ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے نہ شرمندگی پیدا کرتا ہے۔
یورپ اور مغرب میں انسانی حقوق کے علمبردار فوراً متحرک ہو جاتے ہیں جب کوئی وہیل ساحل پر آ کر پھنس جائے، کسی کتے پر ظلم ہو جائے، یا کسی سرکس میں ہاتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ لیکن جب مسلمان مردوں کو بغیر کسی عدالتی عمل کے قتل کر دیا جاتا ہے، بچوں کے جسم بمباری سے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں، یا عورتیں منظم ظلم و جبر کا شکار بنتی ہیں، تو ساری دنیا کی یہ اخلاقی آوازیں یکایک خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہی چُنیدہ ہمدردی عالمی انسانی حقوق کی عمارت میں چھپی سب سے گہری دراڑ کو بے نقاب کرتی ہے۔
اپریل 1992 سے دسمبر 1995 کے درمیان بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی تاریخ کے تاریک ترین ابواب میں شمار ہوتے ہیں۔ یوگوسلاویہ کے انہدام کے بعد، سرب قوم پرست افواج نے بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف”نسلی تطہیر”کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ پریئیڈور، فوچا، زوور نِک، اور سب سے بڑھ کر سریبرینیتسا جیسے شہر قتل گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایک لاکھ سے زائد بوسنیائی باشندوں کو قتل کیا گیا—جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جولائی 1995 میں سریبرینیتسا کے بدنامِ زمانہ قتل عام میں 8,372 سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا، وہ بھی اُس وقت جب وہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فوج کے تحفظ میں تھے۔ وہاں تعینات ڈچ اقوامِ متحدہ کی فورس، جو نہایت ناقص وسائل کی حامل اور سیاسی طور پر پابند تھی، بے بسی سے اس قتلِ عام کو دیکھتی رہی۔
لیکن ظلم صرف قتل و غارت تک محدود نہیں تھا۔ اندازاً پچاس ہزار خواتین، جنہیں اومارسکا اور ترنوپولجے جیسے عقوبت خانوں میں قید رکھا گیا، جنسی زیادتی اور جنسی غلامی کا نشانہ بنیں—یہ سب جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ واقعات کسی انفرادی بگاڑ کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر ایک قوم کو مٹانے کی منظم حکمت عملی تھی۔ اس کے باوجود، اُس وقت کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے نسل کشی کہنے سے گریز کیا، اور کئی برسوں تک اسے محض خانہ جنگی قرار دیتی رہیں۔ اقوامِ متحدہ نے قراردادیں منظور کیں، نیٹو نے مداخلت پر بحث کی، مگر خونریزی جاری رہی، یہاں تک کہ بوسنیا ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
اب ذرا نظر ڈالیں غزہ پر۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ حالیہ تاریخ میں فلسطینی عوام پر ہونے والا سب سے طویل اور خونی حملہ بن چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق، 2025 کے وسط تک 38,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں—جن میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ 80,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری صرف حماس کے انفراسٹرکچر تک محدود نہیں رہی، بلکہ اسپتالوں، اسکولوں، اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں اور رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صرف ”الاحلی بپٹسٹ اسپتال” پر حملے میں تقریباً 500 افراد شہید ہوئے۔ رفح کراسنگ، جو کہ غزہ کی واحد امدادی اور انخلائی راہداری ہے، کو کئی بار بمباری کا نشانہ بنایا گیا، جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی امداد کو موت کے خطرے میں بدل دیا۔
اور اس تمام تباہی کے باوجود، آج تک کوئی مؤثر بین الاقوامی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی۔ بوسنیا کی طرح، اقوامِ متحدہ نے محض مذمت کی، اپیلیں کیں، اور ناکام رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز تو کیا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں طاقتور ممالک کی ویٹو پاور نے کسی بھی عملی دباؤ یا اقدام کو روک دیا ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک اور نظرانداز کرنا مشکل بات خود مسلم دنیا کی پراسرار خاموشی ہے۔ پچاس سے زائد ممالک، بے پناہ دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود مسلم دنیا عمومی طور پر بے عملی کا شکار رہی ہے۔ یہ خاموشی اندرونی نااتفاقی، مغربی معیشتوں پر انحصار، سفارتی تنہائی کے خوف، اور سیاسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ بہت سے مسلم ممالک داخلی بحرانوں میں الجھے ہوئے ہیں یا وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہیں—ایسی طاقتیں جو ان کی حکومتوں کو سیکیورٹی، امداد اور بین الاقوامی سطح پر قبولیت فراہم کرتی ہیں۔ بعض ممالک تو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے ہیں یا معاشی مفادات کے بدلے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کر چکے ہیں۔ ان کی خاموشی بے بسی کی نہیں، بلکہ مفاہمت اور مفاد پرستی کی ہے—ضمیر کے بجائے آرام کو چننے کی خاموشی۔
تنظیمِ تعاونِ اسلامی، جو تقریباً دو ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے، نے بیانات جاری کیے، کانفرنسیں منعقد کیں، اور قراردادیں پیش کیں—لیکن یہ سب کچھ کسی متحدہ سفارتی یا اقتصادی دباؤ میں تبدیل نہ ہو سکا۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں مسلمان نہ صرف بیرونی جارحیت کا شکار ہوئے، بلکہ اپنے ہی بھائیوں کی طرف سے حقیقی اور بہادری پر مبنی یکجہتی کے فقدان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
یہ مماثلتیں نہایت واضح ہیں۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں جارح قوتوں کو عالمی تذبذب، بااثر لابیوں کو ناراض کرنے کے خوف، یا اسلاموفوبیا کی گہری جڑوں نے کھل کر جگہ دی۔ بوسنیا میں سرب قوم پرستی کو بے لگام چھوڑ دیا گیا، جبکہ غزہ میں صیہونی توسیع پسندی کو ”سلامتی” کے بہانے کے پیچھے چھپنے کا موقع دیا گیا۔ دونوں صورتوں میں خود مسلم شناخت کو ایک خطرہ بنا کر پیش کیا گیا—انسانیت سے عاری، قانونی حیثیت سے محروم، اور شیطانی رنگ میں رنگا ہوا۔
ظلم پر مزید ظلم یہ ہے کہ جنگوں کے بعد حقائق کو دھندلایا جاتا ہے۔ بوسنیا کی تباہی کے بعد اسے ”ڈیٹن معاہدے” کے حوالے کیا گیا، جس نے نسلی تقسیم کو مستقل شکل دی اور جارحیت کرنے والوں کو زمین دے کر انعام دیا۔ بین الاقوامی برادری نے امداد تو بھیجی، لیکن انصاف نہیں۔ غزہ کو بھی شاید کبھی تعمیر نو کے لیے فنڈز مل جائیں، لیکن اُس کی سیاسی آواز کی قیمت پر۔ مرنے والے واپس نہیں آئیں گے۔ یتیم بچے بھولیں گے نہیں۔ اور دنیا بے حسی سے آگے بڑھ جائے گی—بغیر کسی ندامت اور بغیر کسی تبدیلی کے۔
تو ہمارے پاس بچتا کیا ہے؟ جب مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے تو عالمی خاموشی کا ایک تسلسل۔ ایک ایسا نظامِ بین الاقوامی قانون جو انصاف کو چُن کر لاگو کرتا ہے۔ ایک ایسا میڈیا بیانیہ جو مزاحمت کو ”دہشت گردی” اور بمباری کو ”اپنی دفاع” کا نام دیتا ہے۔ ہمارے پاس یہ تلخ حقیقت بچتی ہے کہ عالمی نظام کی نظر میں—اور افسوسناک طور پر بعض مسلم حکمرانوں کی نگاہ میں بھی—ایک مسلمان کی جان کی قیمت مغرب میں ایک جانور سے بھی کم ہے۔
جب ہم غزہ کے ملبے اور بوسنیا کی قبروں کو دیکھتے ہیں، تو ہم صرف ماضی اور حال کے سانحات کو نہیں دیکھ رہے—بلکہ ہم جدید تہذیب کی ناکامی کو دیکھ رہے ہیں۔ قوموں کو صرف بم اور گولیاں تباہ نہیں کرتیں—بلکہ اُن لوگوں کی خاموشی تباہ کرتی ہے جو انہیں روک سکتے تھے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرتمنا بھاٹیا نے کوہلی اور عبدالرزاق سے تعلقات کی خبروں پر خاموشی توڑ دی “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” آبادی اور ماحولیاتی آلودگی حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔
’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں
پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘
مہدی حسن کی خوبصورت آواز میں یہ گیت یقیناً آپ نے سنا ہو گا، یہ ہے بھی حقیقت، اکثر انسان کشمکش میں پڑ جاتا ہے کہ کرے تو کرے کیا، بولے یا خاموش رہے۔
کچھ افراد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے لیے چپ رہنا مشکل ہوتا ہے، تو دنیا میں ایسے افراد بھی کئی ہیں جو یہ ہی سوچتے ہیں کہ بولیں تو آخر بولیں کیا، ہمارا آج کا موضوع بھی اس سے ملتا جلتا ہے اور وہ ہے خاموشی۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اپنی بات کو خوبصورت اور پراثر الفاظ کا پیراہن پہنا کر پیش کرنا ایک فن ہے، مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جو بات الفاظ نہیں کہہ سکتے، وہ خاموشی کہہ دیتی ہے۔
آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، ابھی خوبصورت بول پڑھ کر گزارا کیجئے
’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے‘۔
یہ بات کچھ غلط بھی نہیں، مگر یہ خصوصیت ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ خاموشی ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا۔ خاموشی میں ایک گہرائی اور ایک سکون ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔
سمندر کی لہریں شور مچاتی ہیں، باتیں کرتی ہیں مگر اس کے اندر کتنی خاموشی اور گہرائی ہے، کوئی نہیں جانتا، انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اور کچھ انسان خوب بولتے ہیں، مگر ان کے اندر حقیقت میں کیا خاموشی ہے، اسے جانچنا باہر کی دنیا کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
کہتے ہیں شاعر معاشرے کا ایک حساس طبقہ ہوتے ہیں، شعرا نے خاموشی کو کئی خوبصورت رنگوں میں الفاظ کے موتیوں میں پرویا ہے۔
شاعروں کے شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے،
’مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے‘
ندا فاضلی کا خوبصورت خیال پڑھیے
’ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے‘
کئی افراد کے لیے خاموشی کی زبان سمجھنا مشکل نہیں بہت مشکل ہے، اس کا مطلب کوئی کچھ نکالتا ہے تو کوئی کچھ اور ۔ خلیل الرحمن اعظمی کا یہ شعر ہی دیکھ لیجئے
’نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی‘
خاموشی صرف اردو شاعری میں ہی نہیں، اسے محاوروں میں بھی خوب استعمال کیا گیا ہے، جیسے’ایک چُپ سو سُکھ‘ اور یہ بات حقیقت بھی ہے، اگر انسان یہ سیکھ لے کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا بہتر ہے تو اس کی زندگی ہی سنور جائے۔
یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے،
یا پھر یہ بات بھی تو سمجھائی جاتی ہے کہ پہلے تولو پھر منھ سے بولو، یعنی بولیں ضرور مگر بولنے سے پہلے سوچ لیں تو بہتر ہے، ورنہ اکثر نقصان بھی ہوتا ہے۔
چپ کا روزہ رکھنا، یہ محاورہ بھی ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے خاموشی اختیار کرنا اور کچھ نہ بولنا۔
خاموشی پر اس لطیفے سے بھی لطف اندوز ہوں
ماں بچے سے، جب 2 بڑے بات کر رہے ہوں تو تم خاموش رہا کرو،
ایک دن ماں کھانا بنا رہی تھی اور ساتھ موبائل پر کسی سے بات بھی کر رہی تھی کہ اچانک آگ لگ جاتی ہے، قریب کھڑے بچے کو فوراً پتہ چل جاتا ہے لیکن وہ خاموش رہتا ہے، ماں کو آگ کا پتہ چلتا ہے تو وہ فوراً بجھانے میں کامیابی ہو جاتی ہے، پھر بیٹے سے پوچھتی ہے کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ آگ لگی ہے۔
بیٹا جواب دیتا ہے کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو خاموش رہنا سیکھو۔
بالی ووڈ ہو لالی ووڈ یا پھر ہالی ووڈ، خاموشی کا شوبز انڈسٹری سے بھی گہرا تعلق ہے، خاموشی کے نام سے کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
پاکستان میں خاموشی کے نام سے ڈرامے اور ٹیلی فلم بن چکی ہے، بالی ووڈ کی بات کریں تو اس نام سے کئی فلمیں بن چکی ہیں، خاموشی کو انگلش میں کہتے ہیں Silence اور اس نام سے ہالی ووڈ میں بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں۔
خاموشی کے کئی فوائد بھی ہیں، تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ صرف 2 منٹ کی خاموشی انسان کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاموشی اور پرسکون ماحول سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، اعصابی نظام کو سکون ملتا ہے، خود کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ صرف دو منٹ کی خاموشی موسیقی سے زیادہ پُرسکون اثر ڈال سکتی ہے، خاموش رہنے سے دماغ کو سوچنے، سمجھنے اور یاد رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ دماغ پر دباؤ نہ ہو تو ہم زیادہ تخلیقی کام کر سکتے ہیں۔
اب ذرا ہٹ کے سوچتے ہیں، موجودہ دور میں اکثریت کے پاس موبائل فون ضرور ہوتے ہیں، اکثر یوں بھی ہوتا ہے، کمرے میں یا کہیں باہر، دوست یا عزیز بیٹھے ہوں تو باتیں کم ہوتی ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں موبائل پر زیادہ چلتی ہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موبائل کی اس دنیا نے بھی لوگوں کی باتیں چھین لی ہیں۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اکثر مواقع پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے، مگر بہت زیادہ خاموشی کبھی کبھی نقصان دہ بھی ہوتی ہے، خاص طور پر اپنے حق کے لیے ضرور بولنا چاہیے، اگر کوئی اپنا ناراض ہے تو منانے میں دیر بھی نہ کریں اور اگر ممکن ہو تو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے، سب گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کریں، تنہائی اور خاموشی انسان کے لیے کسی زخم سے کم نہیں ہوتی۔
اور چلتے چلتے منیر نیازی کی اس شاہکار نظم سے لطف اٹھائیے
’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘
اور اگر آپ کے پاس اس بات کا جواب ہے تو ضرور دیں
’خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے
مگر یہ تو بتائیں، کہاں ہوتی ہے‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔