Daily Sub News:
2025-09-19@14:08:03 GMT

بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت

بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


ایک ایسی دنیا میں جہاں نایاب جانوروں کو بچانے کی مہمات اور جانوروں پر ظلم کے خلاف احتجاج چند گھنٹوں میں عالمی حمایت حاصل کر لیتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے بے رحم قتلِ عام پر مسلسل خاموشی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی ہے—چاہے وہ 1990 کی دہائی میں بوسنیا ہو یا آج کا غزہ۔ وہی معاشرے جو جانوروں کے حقوق کے لیے اخلاقی جوش و جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، وہ اس وقت بے حس دکھائی دیتے ہیں جب مسلمانوں کی لاشیں گرتی ہیں، ان کے شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں، یا ان کی عورتیں فریاد کرتی ہیں۔ یہ منافقت محض سطحی نہیں رہی؛ یہ ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ دہرا معیار اتنا رچ بس چکا ہے کہ اب نہ ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے نہ شرمندگی پیدا کرتا ہے۔


یورپ اور مغرب میں انسانی حقوق کے علمبردار فوراً متحرک ہو جاتے ہیں جب کوئی وہیل ساحل پر آ کر پھنس جائے، کسی کتے پر ظلم ہو جائے، یا کسی سرکس میں ہاتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ لیکن جب مسلمان مردوں کو بغیر کسی عدالتی عمل کے قتل کر دیا جاتا ہے، بچوں کے جسم بمباری سے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں، یا عورتیں منظم ظلم و جبر کا شکار بنتی ہیں، تو ساری دنیا کی یہ اخلاقی آوازیں یکایک خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہی چُنیدہ ہمدردی عالمی انسانی حقوق کی عمارت میں چھپی سب سے گہری دراڑ کو بے نقاب کرتی ہے۔


اپریل 1992 سے دسمبر 1995 کے درمیان بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی تاریخ کے تاریک ترین ابواب میں شمار ہوتے ہیں۔ یوگوسلاویہ کے انہدام کے بعد، سرب قوم پرست افواج نے بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف”نسلی تطہیر”کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ پریئیڈور، فوچا، زوور نِک، اور سب سے بڑھ کر سریبرینیتسا جیسے شہر قتل گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایک لاکھ سے زائد بوسنیائی باشندوں کو قتل کیا گیا—جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جولائی 1995 میں سریبرینیتسا کے بدنامِ زمانہ قتل عام میں 8,372 سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا، وہ بھی اُس وقت جب وہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فوج کے تحفظ میں تھے۔ وہاں تعینات ڈچ اقوامِ متحدہ کی فورس، جو نہایت ناقص وسائل کی حامل اور سیاسی طور پر پابند تھی، بے بسی سے اس قتلِ عام کو دیکھتی رہی۔


لیکن ظلم صرف قتل و غارت تک محدود نہیں تھا۔ اندازاً پچاس ہزار خواتین، جنہیں اومارسکا اور ترنوپولجے جیسے عقوبت خانوں میں قید رکھا گیا، جنسی زیادتی اور جنسی غلامی کا نشانہ بنیں—یہ سب جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ واقعات کسی انفرادی بگاڑ کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر ایک قوم کو مٹانے کی منظم حکمت عملی تھی۔ اس کے باوجود، اُس وقت کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے نسل کشی کہنے سے گریز کیا، اور کئی برسوں تک اسے محض خانہ جنگی قرار دیتی رہیں۔ اقوامِ متحدہ نے قراردادیں منظور کیں، نیٹو نے مداخلت پر بحث کی، مگر خونریزی جاری رہی، یہاں تک کہ بوسنیا ٹکڑوں میں بٹ گیا۔


اب ذرا نظر ڈالیں غزہ پر۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ حالیہ تاریخ میں فلسطینی عوام پر ہونے والا سب سے طویل اور خونی حملہ بن چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق، 2025 کے وسط تک 38,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں—جن میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ 80,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری صرف حماس کے انفراسٹرکچر تک محدود نہیں رہی، بلکہ اسپتالوں، اسکولوں، اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں اور رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صرف ”الاحلی بپٹسٹ اسپتال” پر حملے میں تقریباً 500 افراد شہید ہوئے۔ رفح کراسنگ، جو کہ غزہ کی واحد امدادی اور انخلائی راہداری ہے، کو کئی بار بمباری کا نشانہ بنایا گیا، جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی امداد کو موت کے خطرے میں بدل دیا۔


اور اس تمام تباہی کے باوجود، آج تک کوئی مؤثر بین الاقوامی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی۔ بوسنیا کی طرح، اقوامِ متحدہ نے محض مذمت کی، اپیلیں کیں، اور ناکام رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز تو کیا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں طاقتور ممالک کی ویٹو پاور نے کسی بھی عملی دباؤ یا اقدام کو روک دیا ہے۔


لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک اور نظرانداز کرنا مشکل بات خود مسلم دنیا کی پراسرار خاموشی ہے۔ پچاس سے زائد ممالک، بے پناہ دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود مسلم دنیا عمومی طور پر بے عملی کا شکار رہی ہے۔ یہ خاموشی اندرونی نااتفاقی، مغربی معیشتوں پر انحصار، سفارتی تنہائی کے خوف، اور سیاسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ بہت سے مسلم ممالک داخلی بحرانوں میں الجھے ہوئے ہیں یا وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہیں—ایسی طاقتیں جو ان کی حکومتوں کو سیکیورٹی، امداد اور بین الاقوامی سطح پر قبولیت فراہم کرتی ہیں۔ بعض ممالک تو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے ہیں یا معاشی مفادات کے بدلے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کر چکے ہیں۔ ان کی خاموشی بے بسی کی نہیں، بلکہ مفاہمت اور مفاد پرستی کی ہے—ضمیر کے بجائے آرام کو چننے کی خاموشی۔


تنظیمِ تعاونِ اسلامی، جو تقریباً دو ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے، نے بیانات جاری کیے، کانفرنسیں منعقد کیں، اور قراردادیں پیش کیں—لیکن یہ سب کچھ کسی متحدہ سفارتی یا اقتصادی دباؤ میں تبدیل نہ ہو سکا۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں مسلمان نہ صرف بیرونی جارحیت کا شکار ہوئے، بلکہ اپنے ہی بھائیوں کی طرف سے حقیقی اور بہادری پر مبنی یکجہتی کے فقدان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔


یہ مماثلتیں نہایت واضح ہیں۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں جارح قوتوں کو عالمی تذبذب، بااثر لابیوں کو ناراض کرنے کے خوف، یا اسلاموفوبیا کی گہری جڑوں نے کھل کر جگہ دی۔ بوسنیا میں سرب قوم پرستی کو بے لگام چھوڑ دیا گیا، جبکہ غزہ میں صیہونی توسیع پسندی کو ”سلامتی” کے بہانے کے پیچھے چھپنے کا موقع دیا گیا۔ دونوں صورتوں میں خود مسلم شناخت کو ایک خطرہ بنا کر پیش کیا گیا—انسانیت سے عاری، قانونی حیثیت سے محروم، اور شیطانی رنگ میں رنگا ہوا۔


ظلم پر مزید ظلم یہ ہے کہ جنگوں کے بعد حقائق کو دھندلایا جاتا ہے۔ بوسنیا کی تباہی کے بعد اسے ”ڈیٹن معاہدے” کے حوالے کیا گیا، جس نے نسلی تقسیم کو مستقل شکل دی اور جارحیت کرنے والوں کو زمین دے کر انعام دیا۔ بین الاقوامی برادری نے امداد تو بھیجی، لیکن انصاف نہیں۔ غزہ کو بھی شاید کبھی تعمیر نو کے لیے فنڈز مل جائیں، لیکن اُس کی سیاسی آواز کی قیمت پر۔ مرنے والے واپس نہیں آئیں گے۔ یتیم بچے بھولیں گے نہیں۔ اور دنیا بے حسی سے آگے بڑھ جائے گی—بغیر کسی ندامت اور بغیر کسی تبدیلی کے۔


تو ہمارے پاس بچتا کیا ہے؟ جب مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے تو عالمی خاموشی کا ایک تسلسل۔ ایک ایسا نظامِ بین الاقوامی قانون جو انصاف کو چُن کر لاگو کرتا ہے۔ ایک ایسا میڈیا بیانیہ جو مزاحمت کو ”دہشت گردی” اور بمباری کو ”اپنی دفاع” کا نام دیتا ہے۔ ہمارے پاس یہ تلخ حقیقت بچتی ہے کہ عالمی نظام کی نظر میں—اور افسوسناک طور پر بعض مسلم حکمرانوں کی نگاہ میں بھی—ایک مسلمان کی جان کی قیمت مغرب میں ایک جانور سے بھی کم ہے۔


جب ہم غزہ کے ملبے اور بوسنیا کی قبروں کو دیکھتے ہیں، تو ہم صرف ماضی اور حال کے سانحات کو نہیں دیکھ رہے—بلکہ ہم جدید تہذیب کی ناکامی کو دیکھ رہے ہیں۔ قوموں کو صرف بم اور گولیاں تباہ نہیں کرتیں—بلکہ اُن لوگوں کی خاموشی تباہ کرتی ہے جو انہیں روک سکتے تھے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرتمنا بھاٹیا نے کوہلی اور عبدالرزاق سے تعلقات کی خبروں پر خاموشی توڑ دی “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” آبادی اور ماحولیاتی آلودگی حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر      جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • توجہ کا اندھا پن
  • ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور