چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز
بیجنگ : “اعلی ترین نیکی پانی کی مانند ہے، جو تمام چیزوں کو بغیر کسی مقابلے کے فائدہ پہنچاتی ہے ” ۔ دو ہزار پانچ سو سال پہلے لاؤزے کا یہ حکیمانہ قول آج بھی چین کے عالمی نظریہ اور سفارتی اصولوں کی بنیاد پر کندہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا عالمی نظریہ ہے جو “چوٹی پر شہر” کی برتری کی نفسیات اور پوری دنیا کے مفادات پر قبضے کی روایت سے عبارت ہے۔ ان دو واضح تہذیبی اختلافات کا اکیسیوں صدی کے عالمی منظر نامے پر گہرا اثر ہے۔ پانی، جو چینی ثقافت میں ایک علامتی عنصر ہے، اور یہ” بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچانے ” کی خصوصیت کی وجہ سے ایک مثالی سماجی حکمرانی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ چینی تہذیب کے جامع عالمی نظریے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ منگ خاندان کے دور میں چنگ حہ کے سات سمندری سفر، جن میں وہ دنیا کے سب سے طاقتور بحری بیڑے کی قیادت کر رہے تھے،
مگر انہوں نے ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا، نہ ہی کوئی فوجی اڈہ قائم کیا، بلکہ “زیادہ دینے اور کم لینے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی اور تہذیب کو پھیلایا، اس عالمی نظریے کا زندہ اظہار ہے۔ اس کے برعکس آدھی صدی بعد شروع ہونے والے مغربی تہذیب کے سمندری دور میں نوآبادیات، غلامی اور وسائل کی لوٹ مار شامل تھی۔ ان دو رویوں کے پیچھے تہذیبی جینز کا بنیادی فرق ہے ۔ ایک طرف “ہر تہذیب کا احترام” کی متوازن رفاقت ہے تو دوسری طرف “زیرو سم گیم” کا جنگلی قانون۔ چنگ حہ کے سمندری سفر سے لے کر موجودہ دور کے “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے “مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک” کے اصول تک، چین نے کبھی بھی اپنی ترقی کو دوسرے ممالک کے استحصال پر قائم نہیں کیا۔ “پوری دنیا کی بھلائی” کا یہ جذبہ ،انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کی صورت میں عروج پر پہنچ گیا ہے ۔
یہ تصور خصوصی گروہوں کے اتحاد کی بجائے تہذیبی مکالمے کی وکالت، تہذیبوں کی درجہ بندی کے بجائے کثیر وجودیت کے فروغ ، اختلافات میں مشترک چیزوں کی تلاش اور باہمی بقا میں مشترکہ فوائد کے حصول کا احاطہ کرتا ہے۔اس کے برعکس امریکہ کی عالمی حکمت عملی ہمیشہ ” نمبر ون ” کے جنون میں دکھائی دی ہے ۔سرد جنگ کے دور کے “ٹرومین نظریے” سے لے کر نیٹو اتحاد اور موجودہ “انڈو پیسیفک اسٹریٹیجی” تک، امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو دوست اور دشمن کے کیمپوں میں تقسیم کیا ہے، نظریاتی پیمانے پر بین الاقوامی معاشرے کو بانٹا ہے؛ ” نمبر ون ” رہنے کے لیے “امریکہ فرسٹ” اور یکطرفہ پسندی کو کثیر الجہتی تعاون پر ترجیح دی ہے۔ بالادستی کی یہ منطق ظاہری طور پر قلیل مدتی فائدہ دکھاتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے بین الاقوامی معاشرے کا اعتماد مسلسل کھو رہا ہے، اور آخر کار یہ منطق “ہر طرف دشمن پیدا کرنے” کے داخلی بحران میں دھکیل دیتی ہے ۔ ایک گہرا فرق “طاقت اور کمزوری” کے فلسفیانہ ادراک میں بھی پوشیدہ ہے۔ چینی ثقافت اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ ” حقیقی طاقتور لوگ عاجزی اختیار کرتے ہیں، اور سچے اور عقلمند سادگی سے رہتے ہیں ” ۔ اسی لیے چین نے اپنی ترقی کے دوران “کبھی بالادستی نہیں” پر زور دیا ہے، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت تعاون کے منصوبوں کے ذریعے ترقی کے فوائد کو زیادہ ممالک تک پہنچایا ہے، اور ” سادگی سے رہنے” کی حکمت عملی سے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کی ہے۔ جبکہ امریکہ “طاقت ہی حق ہے” پر یقین رکھتا ہے، اور ” نمبر ون ” کی سوچ کو دوسرے ممالک کی ترقی کے حقوق کو دبانے میں بدل دیتا ہے۔ انسانی تہذیب ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ جب موسمیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سایہ دنیا پر منڈلا رہا ہے، اور مصنوعی ذہانت اخلاقی چیلنجز لے کر آ رہی ہے، تو کوئی بھی ملک تن تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چینی تہذیب کا یہ حکیمانہ اصول کہ “پانی بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچاتا ہے” درحقیقت عالمی حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرتا ہے اور یہ سوچ رکھتا ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کو دبانے میں نہیں بلکہ انہیں مدد دینے میں ہے، حقیقی دولت وسائل پر قبضہ کرنے میں نہیں بلکہ خوشحالی کو بانٹنے میں ہے۔
جبکہ امریکہ کا ” نمبر ون “پر رہنے کا اضطراب نہ صرف خود اسے لامتناہی داخلی کشمکش میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا کومقابلے کے گرداب میں دھکیل رہا ہے۔ انسانیت کا مستقبل آخرکار تعاون میں ہے نہ کہ مقابلے میں۔یہ مستقبل باہمی بقا میں ہے نہ کہ تنہا بالادستی میں۔ انسانی تہذیب کی ترقی کی طویل روداد میں، وہ سلطنتیں جو “مقابلے” کے ذریعے غلبہ حاصل کرنا چاہتی تھیں وقت کی لہروں میں بہہ گئیں، جبکہ پانی کی طرح جامع اور پرورش کرنے والی تہذیبیں ہی دیرپا ثابت ہوئی ہیں۔ چین کا عالمی نظریہ کسی کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا کو ایک نیا امکان فراہم کرنے کے لیے ہے ۔اس نظریے میں باہمی احترام میں مشترکہ ترقی اور تہذیبی مکالمے میں تنازعات کے بحران کو حل کر نے جیسی سوچ ہے ۔ایسے وقت میں جب امریکہ ” نمبر ون “پر رہنے کی فکر میں گھرا ہوا ہے، چین نے “خاموشی سے ہر شے کو سیراب کرنے ” کی حکمت عملی سے انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے راستے پر کثیر اتفاق رائے کو اکٹھا کر لیا ہے۔ ان دو عالمی نظریات کا مقابلہ درحقیقت تہذیبی فلسفہ کا انتخاب ہے: کیا ہم “طاقتور کا حق” کے پرانے دور میں واپس جائیں گے یا ” ہر تہذیب کا احترام ” کے نئے مستقبل کی طرف بڑھیں گے؟ جواب تاریخ کے دھارے میں بتدریج واضح ہوتا جا رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز کی شمولیت پر اہم ہدایات شی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز کی شمولیت پر اہم ہدایات ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے خوشخبری،فی یونٹ کتنے روپے کمی کا امکان ؟ چینی صدر کا اصلاحات و ترقی کو فروغ دینے کا مسلسل عزم “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کے تصور کی عالمی اہمیت پر خصوصی سمپوزیم کا انعقاد چین۔یورپ ریلوے سروس کے مرکزی کوریڈور سے روانہ ہونے والی مال بردار ٹرینوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ایف بی آر کا سیلز ٹیکس میں بے ضابطگیوں پر ایکشن، 11 ہزار سے زائد کمپنیوں کو نوٹسز جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے عالمی
پڑھیں:
دنیا مسجد اقصی کی بے حرمتی پر خاموش نہ رہے، اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے، پاکستان کا مطالبہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2025 )پاکستان نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزرا کی جانب سے مسجد اقصی کی بے حرمتی خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے، دنیا اس پر خاموش نہ رہے بلکہ اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق ترجمان نے کہا کہ پاکستان مسجد اقصی کی اشتعال انگیز اور جارحانہ بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اسرائیلی وزرا، عہدیداروں اور کنیسٹ کے ارکان سمیت ہزاروں اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے بے حرمتی کی گئی.(جاری ہے)
ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی موجودگی میں ٹیمپل مانٹ ہمارا ہے جیسے نفرت آمیز اعلانات کیے گئے، یہ اعلانات دنیا بھر میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور تنا کو بڑھانے کی کوشش ہیں، اعلانات مسجد اقصی کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایک خطرناک اور دانستہ کوشش ہے. بیان کے مطابق اسرائیل کی توسیع پسندانہ کوششیں خطے کو غیر مستحکم کرنے اور امن کو خراب کرنے کی کوشش ہیں دنیا کو ایسے غیر قانونی، غیر انسانی جارحیت پر خاموش نہیں رہنا چاہئے اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے ترجمان نے کہا کہ یہ اقدمات اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی مختلف قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہیں پاکستان عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیل کو اس پر جوابدہ ٹھہرایا جائے. دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری مسجد اقصی کے مذہبی تقدس کے لیے اقدامات کرے، عالمی برادری فلسطینی عوام کے حقوق اور حق خود ارادیت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے بیان میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ایک خودمختار، آزاد، قابلِ عمل اور باہم مربوط فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلہ فلسطین کا پائیدار ہے، فلسطین کا قیام جون 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور دارالحکومت القدس الشریف ہو.