امریکی منڈی میں پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد ٹیکس
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لگ بھگ 69 ممالک سے امریکہ درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد سے لے کر 41 فیصد تک کے نئے ٹیرف کے اطلاق کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت پاکستان پر پہلے سے عائد کردہ ٹیرف (یعنی ٹیکس) کی شرح 29 فیصد سے کم کر کے 19 فیصد کر دی گئی ہے۔ٹیرف وہ ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جائے گا اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ یہ رقم ملک میں موجود اُس کمپنی کو ادا کرنی ہوتی ہے جو یہ سامان بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہے نہ کہ وہ غیر ملکی کمپنی جو اس سامان کو برآمد یا ایکسپورٹ کرتی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے، یہ ایک ڈائریکٹ ٹیکس ہے جو مقامی امریکی کمپنیوں کی جانب سے امریکی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔19 فیصد ٹیرف کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کو امریکہ بھیجی جانے والی اپنی اشیا یا سامان تجارت پر 19 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔کسی بھی ملک کی جانب سے ٹیرف لگانے کی 2 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ پہلی، ٹیکس یا محصولات کی مد میں ملنے والی رقم کو بڑھانا، دوسرا اپنی صنعت یعنی انڈسٹری کو فروغ دینا اور اس کا تحفظ کرنا۔ امریکہ کے کیس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک سے امریکہ آنے والی اشیا یا درآمدات کے باعث امریکی کی انڈسٹری متاثر ہو رہی تھی اور عام امریکی شہری بیروزگار ہو رہے تھے، اور اس سے بچنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ نے اپنے تجارتی پارٹنرز پر ٹیرف یعنی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ نئے محصولات کا مقصد غیر منصفانہ تجارتی عدم توازن کو درست کرنا اور امریکہ کی اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے بتایا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد دو طرفہ تجارت کا فروغ، منڈیوں تک رسائی کو بڑھانا، سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں باہمی ٹیرف خاص طور پر امریکہ میں پاکستانی مصنوعات پر لگنے والے ٹیرف میں کمی آئے گی۔وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری بیان میں امریکی برآمدات پر جوابی ٹیرف کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔پاکستان نے اس تجارتی معاہدے کو امریکی حکام کی متوازن اور مستقبل بین حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کو جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں مسابقتی پوزیشن میں رکھتا ہے۔ اس ٹیرف کی سطح سے پاکستان کی برآمدی صلاحیت میں بہتری کی امید ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں، جو ملکی برآمدی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
31 جولائی 2025 کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر جس کا عنوان تھامزید باہمی ٹیرف نرخوں میں ترمیم، اس میں کہا گیا کہ پاکستان کو اپنے خطے کے دیگر حریف ممالک، جیسے بھارت (25 فیصد)، بنگلہ دیش اور سری لنکا (20 فیصد) کے مقابلے میں کم ٹیرف کا سامنا ہوگا۔ تاہم، ابھی تک بھارت اور چین سمیت کوئی اور علاقائی ملک امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ نہیں کر سکا ہے۔پاکستان کے علاوہ جن ممالک نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے ان میں برطانیہ (10 فیصد ٹیرف، جب کہ تجویز 25 فیصد تھی)ویتنام (20 فیصد بمقابلہ 46 فیصد تجویز)انڈونیشیا (19 فیصد بمقابلہ 32 فیصد تجویز)فلپائن (19 فیصد بمقابلہ 20 فیصد)جاپان (15 فیصد بمقابلہ 25 فیصد)یورپی یونین (15 فیصد بمقابلہ 30 فیصد)جنوبی کوریا (15 فیصد بمقابلہ 25 فیصد) شامل ہیں وزارتِ خزانہ کا کہناہے کہ موجودہ ٹیرف کا بندوبست امریکہ میں پاکستانی مصنوعات کی موجودگی کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ پاکستانی برآمدکنندگان اور تجارتی ادارے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے جارحانہ اور منظم مارکیٹنگ حکمت عملی اپنائیں۔ امریکہ کے ساتھ تجارت میں ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی ترقی کی خاصی گنجائش موجود ہے، اور حکومت برآمدکنندگان کو پالیسی معاونت، مارکیٹ انٹیلی جنس، اور تجارتی فروغ کے اقدامات کے ذریعے مدد فراہم کرسکتی ہے۔اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے مابین اس تجارتی معاہدے کے حوالے سے خاصی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، تاہم اس حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ضروری ہے کیونکہ اس معاہدے کے عملی اثرات اس بات پر منحصر ہوں گے کہ اسے کس طرح نافذ کیا جاتا ہے۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگرچہ شرح کم کر دی گئی ہے، لیکن اب بھی یہ شرح ہماری برآمدی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ہماری صنعتوں کی لاگت بہت زیادہ ہے اور ہماری برآمدات کا انحصار صرف امریکی منڈی پر ہے، جس کے باعث ہم کم مارکیٹ تنوع کے سبب اس شرح کے اثرات کے لیے خاصے کمزور ہیں۔بھارتی برآمدات پر عائد 25 فیصد ٹیرف کا ذکر کرتے ہوئے جو خوشی ظاہر کی جا رہی ہے، اس میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ بھارت کا مضبوط صنعتی ڈھانچہ، کم لاگت والے پیداواری ڈھانچے، اور متنوع تجارتی تعلقات، اس کے لیے ایسے جھٹکوں کو برداشت کرنا نسبتاً آسان بناتے ہیں، اگرچہ اس سے بھارت کے بعض شعبے عارضی طور پر متاثر ضرور ہوں گے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت کی تیل کمپنیوں نے روس سے تیل کی درآمد روک دی ہے اور صدر ٹرمپ نے بھی نہ صرف اس کو نوٹ کیاہے بلکہ اس کا اظہار بھی کیا ہے، بھارت کی جانب سے روس سے تیل کی خریداری روکنا اس بات کی علامت ہے کہ نئی دہلی اپنی پالیسی کو امریکہ کی خوشنودی کے لیے تبدیل کر رہا ہے۔ اس لیے بھارتی برآمدات پر ٹیرف میں اضافے سے پاکستان کو جو فائدہ متوقع ہے، وہ محدود ہو سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے اکتوبر میں امریکہ سے دس لاکھ بیرل تیل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ توانائی کے ذرائع میں تنوع پیدا کرنے کی اس حکمت ِ عملی میں اسٹریٹجک اہمیت تو ہے، لیکن اس سے زرِمبادلہ کے ذخائر اور توازنِ ادائیگی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس میں ترسیل اور لین دین کی لاگت زیادہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی بیرونی تجارت کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر پاکستان تجارتی خسارے کا شکار ہے۔بیرونی تجارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال میں تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر رہا جس کی وجہ برآمدات کا کم ہونا اور درآمدات کا زیادہ حجم تھا۔تاہم پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا جائزہ لیا جائے تو تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے یعنی پاکستان کی امریکہ کو برآمدات زیادہ ہیں جبکہ پاکستان سے کم اشیا وہاں درآمد کی جاتی ہیں۔گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے امریکہ کو5 ارب 83 کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں، جبکہ امریکہ سے پاکستان کی درآمدات کی مالیت ایک ارب 74 کروڑ ڈالر رہی۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے بعد تجارتی توازن 4 ارب ڈالر سے زائد کے ساتھ پاکستان کے حق میں رہا۔ پاکستان سے امریکہ کو بھیجی جانے والی اشیا میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے جو کل تجارت کا 90 فیصد بنتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان سے امریکہ چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، پلاسٹک، سلفر، نمک، سیمنٹ، کھیلوں کا سامان، قالین، فٹ ویئر اور دوسری اشیا برآمد کی جاتی ہیں۔ امریکہ سے پاکستان آنے والی اشیا میں خام کپاس، لوہا اور ا سٹیل، مشینری، بوائلرز، پرانے کپڑے، کیمیکلز، ادویات اور کچھ دیگر اشیا شامل ہیں۔اس معاہدے کے تحت پاکستان اگر امریکہ کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی دیتا ہے تو اس میں پاکستان کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو دوسرے ملکوں سے کم لاگت پر چیز مل جاتی ہے۔پاکستان امریکہ کو سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش اور انڈیا سے بھی ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش اور ویتنام پر ٹیرف 20 اور بھارت پر 25 فیصد ہے، اس لیے ٹیکسٹائل امریکہ برآمد کرنے والے دیگر ممالک پر پاکستان کو یہ برتری حاصل ہو گی کہ اس پر ٹیرف کی شرح کم ہے، اس لیے ممکن ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں زیادہ آرڈرز ملیں۔ ہو سکتا ہے کہ بنگلہ دیش، ویتنام اور بھارت جانے والے آرڈرز کا کچھ حصہ کم ٹیرف کی وجہ سے پاکستان کو مل پائے۔
پاکستان کے لیے اس معاہدے سے کافی اچھی توقعات ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ امریکی منڈی میں مقابلہ کرنے والے دوسرے ملکوں بھارت، بنگلہ دیش اور وینتام کو بھی پاکستان سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے اپنی صنعت، برآمدات اور زراعت کو سبسڈی نہیں دے سکتا جب کہ دوسرے ممالک میں سبسڈی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اُن کی مصنوعات کی لاگت کم ہے۔ حقیقی معنوں میں اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اپنے برآمدی شعبوں پر سبسڈی یا فائدہ دینے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ 29 فیصد سے 19 فیصد تک کمی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے بدلے پاکستان امریکہ کو کیا دے رہا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ بلاشبہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ہمسایہ ممالک کی نسبت بہتر ڈیل حاصل کی ہے، لیکن ہمارے رہنماترکی اور مصر کی نسبت اچھی ڈیل نہیں لے سکے۔ اس ڈیل سے پاکستانی برآمدات کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید کم ہے کیونکہ اس فائدہ اٹھانے یعنی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے اسلام آباد کو ٹیکسٹائل کے شعبے میں اقدامات کرنے ہوں گے ،بصورت دیگر اس ڈیل سے پاکستانی برآمدات کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی امید کم ہے۔پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ بنگلہ دیش سے تھا، جس کا ٹیرف 20 فیصد اور پاکستان کا 19 فیصد ہے۔یہ فرق معمولی ہے۔ دونوں کی مصنوعات ایک جیسی ہیں۔ بنگلہ دیش امریکہ براہ راست برآمدات نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے کینیڈا کے ساتھ زیرو ریٹ کا معاہدہ کر رکھا ہے۔بنگلہ دیش کی کمپنیاں کینیڈا میں زیرو ریٹ پر مال بھجوا رہی تھیں اور پھر کینیڈا سے امریکہ مال بھیجا جاتا تھا۔پہلے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ تھا، جس کا فائدہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کو ہو رہا تھا۔ اب کینیڈا پر 35 فیصد ٹیرف لاگو ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کینیڈا کے ذریعے امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ نہیں کر سکے گا۔‘اسی طرح چین کا ٹیرف بھی پاکستان سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ ویتنام اور کمبوڈیا کا ٹیرف بھی پاکستان کے قریب ہے، لیکن وہ فیشن ٹیکسٹائل میں ڈیل کرتے ہیں۔پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات مختلف ہیں۔ اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر ہمارے حکمراں وقت کے تقاضے کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو ضروری سہولتیں فراہم کردیں تو امریکہ کی مارکیٹ میں پاکستان کی جگہ بن سکتی ہے اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اگر فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہو جاتا تو پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 12 ارب ڈالر تک بڑھ سکتی تھیں۔ جبکہ موجودہ ڈیل سے شاید ایک ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہو سکے کیونکہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صلاحیت محدود ہے۔بھارت اب بھی پاکستان کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ بھارتی حکومت اپنے ٹیکسٹائل سیکٹر کو تقریباً 8 فیصدتک سبسڈی دیتی ہے۔اگر پاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجلی کی قیمت اور شرح سود میں کمی نہ کی تو ٹیرف ڈیل کے مطلوبہ فوائد حاصل ہونا مشکل ہیں۔حکومت نے بیرون ممالک سے ڈیجیٹل آرڈر گڈز اور سروسز پر 5 فیصد ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان ہے جو امریکہ کے ساتھ ٹیرف ڈیل کا حصہ ہے، لیکن یہ آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی ہے لیکن اس سے گوگل، فیس بک، یوٹیوب اور ایمزون سمیت کئی امریکی کمپنیوں کے ساتھ پاکستانی صارف بھی اس مستفید ہوں گے۔ پاکستان فری لانسنگ ایکسپورٹس میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر یہ ٹیکس ختم نہ ہوتا تو ای کامرس بزنس ملک سے باہر منتقل ہونے سے برآمدات کم ہو سکتی تھیں۔فری لانسنگ میں پاکستان کا مقابلہ، بھارت اور بنگلہ دیش سے ہے۔ اگر پاکستان5 فیصد ٹیکس ختم نہ کرتا تو آن لائن ٹریڈ اور سروس میں 9.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ کے ساتھ بنگلہ دیش اور فیصد بمقابلہ میں پاکستان بھی پاکستان کی مصنوعات پاکستان سے کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کے برآمدات پر پاکستان کی پاکستان کو سے پاکستان کی جانب سے ہے کیونکہ معاہدے کے امریکہ کو فیصد ٹیرف والی اشیا امریکہ کی اس معاہدے سے امریکہ جس کی وجہ کی وجہ سے ارب ڈالر تجارت کا ممالک سے سے زیادہ پر ٹیرف ٹیرف کا سکتی ہے ہو سکتا سکتا ہے ہوں گے اس لیے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان پر بھارت، سری لنکا کے مقابلے میں کم ٹیرف لگایا گیا ہے؛ گوہر اعجاز
سٹی 42 : چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی ڈیل پاکستان کی بڑی کامیابی ہے،یہ ڈیل ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ پاکستان پر بھارت، سری لنکا کے مقابلے میں کم ٹیرف لگایا گیا ہے۔
گوہر اعجاز نے ٹویٹر(ایکس) میں امریکہ کے ساتھ کامیاب تجارتی معاہدہ کرنے پر لکھا’’ویلڈن ٹیم پاکستان !‘‘۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تجارتی ڈیل پاکستان کی بڑی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیل ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو ٹیرف میں 10 فیصد کی رعایت دی ہے، امریکہ نے پاکستان پر ٹیرف 29 فیصد سے کم کرکے 19 فیصد کردیا ہے۔
راولپنڈی ایکسپریس ٹرین کو حادثہ
گوہر اعجاز نے کہا کہ امید ہے امریکہ پاکستان کے ٹیرف میں مزید کمی کرے گا۔ پاکستانی مصنوعات پر 19 فیصد ٹیرف سے مقابلے کی فضاء قائم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسابقتی ممالک پر امریکہ نے زیادہ ٹیرف عائد کیا ہے، پاکستان کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیئے، برآمدات پر مبنی معیشت کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان پر بھارت، سری لنکا کے مقابلے میں کم ٹیرف لگایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پر بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں بھی کم ٹیرف لگا ہے،اس طرح کے مواقع تاریخ میں بہت کم ملتے ہیں۔
رنگ روڈ بند کرنے کا فیصلہ